مقالات و آراء

  • غیبت کے استمرار کی وجہ اور حوزاتِ علمیّہ کی ذمّہ داری

  • امام زمانہ (عج) کی غیبت کے تسلسل کا کیا فلسفہ ہے؟ اس کا جواب ایک جملے میں ہے کہ انسان میں اب تک الٰہی قیادت کو قبول کرنے کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔
    سورہ مبارکہ حدید کی آیت نمبر۲۵ «لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَھمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ»”بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں” کی بنیاد پر کسی بھی شریعت کو زمین پر نافذ کرنے کے لیے تین بنیادی ارکان کی ضرورت ہے:
    پہلا رکن شریعت اور مکمّل پروگرام؛ جو ہمارے عقیدے کے مطابق بلا شبہہ اسلام ہے ۔ دوسرا رکن رہبر ہے جو علمی اور عملی دونوں پہلوؤں سے معصوم ہو اور تیسرا رکن عوام کی جانب سے قبول کرنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
    آیت کے اس حصے”لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ”، (بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا) میں دوسرے رکن یعنی الہی رہبر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور "وَأَنزَلْنَا مَعَھمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ” (اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی) سے مراد رکن اوّل یعنی شریعت اور مکمّل پروگرام ہے؛ جبکہ "لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ” (تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں) کے اندر تیسرے رکن یعنی لوگوں کے کردار کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔
    آیت نے یہ نہیں کہا: تاکہ الٰہی نمائندے خود عدل و انصاف قائم کریں بلکہ فرمایا: تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں پس یہاں سے لوگوں کا کردار شروع ہوتا ہے یعنی دین کو نافذ کرنے کی ذمّہ داری عوام، امّت اور بشریت کے کاندھوں پر ہے۔ امام عصر(عج) کے ظہور اور زمین پر عدلِ الہی کے قیام کے لیے ان تین بنیادی ارکان کی ضرورت ہے۔
    اب پہلا اور دوسرا رکن تو موجود ہے یعنی علمی اور عملی پہلوؤں سے عصمت کا حامل امام حق بھی موجود ہے اور کامل شریعت حقّہ بھی موجود ہے، پس مشکل کہاں ہے؟ اصل مشکل لوگوں کے اندر ہے کہ آیا یہ لوگ ان کی رہبری اور قیادت کے متحمّل ہو سکتے ہیں یا نہیں؟
    دوسرے الفاظ میں، آیا ہم امام کے منتظر ہیں کہ ظہور فرمائیں یا وہ ہمارے منتظر ہیں کہ ہم فکری طور پر رشد کریں؟ اب آیا ہم منتظر ہیں یا وہ؟ پس اگر ہم اپنے امام سے محبّت کرتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ اپنے انتظار و حزن کی شدت میں اضافہ کریں کیونکہ اس وقت وہ دردمند ہیں ۔
    جس طرح آپ صاحب اولاد ہیں اور اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کریں اور سال کے اختتام پر مزید ایک درجہ ترقی کریں لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے اور سال کے آخر میں ایک مرحلہ پاس نہیں کرتے تو آپ پریشان ہوں گے یا نہیں؟ خدا کی قسم! امام(عج) کی ہمارے لیے پریشانی اس پریشانی سے کئی گنا زیادہ ہے جو ہمیں اپنے بچوں کی نسبت لاحق ہوتی ہے
    پس انتظار کا مفہوم ایک مادّی اور مشینی مفہوم نہیں ہے؛ بلکہ ایک فکری، ثقافتی، اعتقادی اور امید کی کرنیں بکھیرنے والا مفہوم ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے اندر آگہی پیدا کریں اور اس کے نور سے فیضیاب ہوں۔
    ہم سب کی اصل ذمّہ داری کیا ہے؟
    جواب یہ ہے کہ ہم سب کو اجتماعی عقل و آگہی کے میدان میں کام کرنا چاہیئے تاکہ امّت کی فکری سطح کو بلند کیا جا سکے۔ نہ فقط مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکار، نہ فقط مسلمان، نہ فقط مسیحی، یہودی اور دیگر ادیان کے پیروکار؛ بلکہ ضروری ہے کہ ساری بشریّت اس فکری سطح تک پہنچے کہ اگر امام ظہور فرمائیں تو آپ کی امامت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔
    یہ کس کی ذمّہ داری ہے؟ یہ حوزہ علمیہ، دینی اداروں اور مراجع کرام کی ذمّہ داری ہے۔ غیبت کبرٰی میں مراجع کے دوش پر جو بنیادی ذمّہ داری رکھی گئی ہے؛ یہ ہے کہ انہیں کیا عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں جن سے بشریت اس سطح تک پہنچ جائے کہ حضرت حجت (عج) کی امامت کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔
    یہ شور و غوغا جو آپ آج کل سیٹلائٹ چینلوں سے سن رہے ہیں، ہر کوئی مکتب اہل بیت(ع) کے لیے (اپنی طرف سے) ایک نیا راستہ اختراع کر رہا ہے حالانکہ یہ ذمّہ داری کس کے کاندھوں پر تھی؟
    «وأما الحوادث الواقعۃ فأرجعوا فيہا إلی رواۃ حديثنا، فإنھم حجتي عليكم» (پیش آنے والے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ میری طرف سے تم پر حجّت ہیں)۔
    خواتین کے اجتماع میں پیش کردہ خطاب سے ماخوذ
    2013/06/30

    • تاریخ : 2015/03/05
    • صارفین کی تعداد : 1146

  • خصوصی ویڈیوز