مقالات و آراء

  • آیت اللہ سید کمال حیدری کی اصلاحی تحریک کے اہداف

  • سوال : اس راہ یا ان اصلاحی اقدامات کا ہدف کیا ہے؟ آپ کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
    در حقیقت ہمیں اس موضوع پر کچھ غور و فکر کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اصلاحی عمل متعدد اہداف کا حامل ہے ؛ ان میں سے بعض اہداف بنیادی و اصلی اور بعض دوسرے ذیلی اور ان پر مترتب ہیں ۔
    میں سمجھتا ہوں کہ علمی و اجتہادی عمل جو تاریخی اور علمی سنتوں میں سے ہے، کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سستی یا آفت سے دوچار ہو جاتا ہے ۔ یعنی جب اس شریعت کا پیغمبر اکرم (ص) سے آغاز ہوا اور آئمہ (ع) کے زمانے میں تیسری صدی ہجری کے وسط کہ جس میں بارہویں امام(عج) کی غیبت ہوئی، تک کوئی بنیادی مشکل پیش نہیں آئی اگرچہ بعض مصیبتیں بھی تھیں لیکن مسئلے کا آغاز کہاں سے ہوا؟ غیبت کے بعد آغاز ہوا۔ اس وقت اجتہاد کے عمل کی تشکیل ہوئی اور جب ہم کہتے ہیں "اجتہاد کا عمل”، یعنی انسانی فکر کا آغاز اور جب ہم کہتے ہیں انسانی فکر، یعنی یہ عمل صحیح یا غلط ہو سکتا ہے ؛ یہ ایک بنیادی موضوع ہے ۔
    اگر ہم نے اس اصل کو قبول کر لیا کہ ہر مکتب کے علما جو کچھ کہتے ہیں جبکہ ان کی عصمت بھی ثابت نہیں ہے تو طبیعتا ان کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی، اس چیز کو سب قبول کرتے ہیں کیونکہ اہل سنت رسول خدا (ص) کے بعد معصوم کے وجود کو قبول نہیں کرتے، ہم کم از کم تیسری صدی ہجری کے وسط اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل تک معصوم کے وجود کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت صغریٰ کے بعد اجتہاد کا عمل وجود میں آیا، یہ وہ اصل ہے کہ جس پر ناظرین کی توجہ ضروری ہے۔
    دوسری اصل یہ ہے کہ کسی بھی مجتہد کے لیےممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہادات کے ذریعے ہزاروں سالوں پر محیط آئندہ صدیوں کے افکار اور نظریات کا جواب دے سکے، شاید وہ ایک، دو یا تین صدیوں کیلئے اجتہاد کر سکتا ہو لیکن پھر زندگی کے نئے پن کی خوبی اور ترقی جو عموما انسانی فکر میں ہوتی ہے؛ ان اجتہادات سے عبور کا باعث ہو جائے گی ۔ الٰہی شریعتوں کا تعدد ہماری اس بات کا بہترین گواہ ہے ۔ کیوں شریعتیں متعدد ہوئیں؟ کیوں اصلی شریعتیں پانچ ہیں؟ کیوں خداوند متعال نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کیے؟ کیونکہ بشریت ہر مرحلے پر اپنی ضروریات پوری کرنے کی نیازمند ہے یہاں تک کہ الٰہی شریعت بھی تمام زمانوں کے لیے ایک نسخہ پیش نہیں کر سکتی ۔
    آپ سوال کریں گے : پس آخری شریعت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ ہم کہیں گے : اللہ نے خاتم الانبیا کی شریعت کو ایک صلاحیت اور طاقت عطا کی ہے، اس لیے ہم مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکار اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ نے اپنی اس شریعت کے لیے صرف رسول گرامی (ص) کو مبعوث کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے بعد ہمارے لیے بارہ امام بھی مقرّر فرمائے تاکہ یہ شریعت قیامت تک کے انسان کی ضروریات کو پورا کرسکے ۔
    — دینی متن ثابت اور اپنے مقام پر ہے ۔
    لیکن جب دینی نص پر اجتہاد کا آغاز ہو گا تو اس کی جہت بدل دے گا؛ اور اگر ایسا ہوا تو ہر مکتب، وہ جس قدر بھی توانائی کا حامل ہو اور ہر عالم، جتنی بھی صلاحیت اور نبوغ رکھتا ہو؛ کے اجتہادات ایسے مرحلے تک جا پہنچیں گے کہ جس پر سے زمانہ عبور کر جائے گا۔ اس بنا پر میرا یہ خیال ہے کہ مرورِ زمان ان اجتہادات کو متزلزل کرنے کا باعث بنے گا کہ جن کی بنیاد پر مکتب کی عمارت کھڑی ہے، پس اسے جدید حصار بندی، استحکام اور نئے سرے سے ماندگار بنانے کی ضرورت ہے ۔
    (کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ) مطالعہ و تحقیق نئے انداز سے ہو؟
    جی ہاں، جدید طرز تحقیق! میں اسی تک پہنچنا چاہتا ہوں، پہلے کا اجتہاد موجودہ زندگی کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا ، اس لیے ہمیں تازہ خون، نئے اجتہاد اور جدید طرزِ مطالعہ و تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مکتب کی فکری اساس کو مضبوط و مستحکم کیا جا سکے ۔
    کیا یہ معرفتی اضافیّت (Epistemic Relativism) کے مترادف نہیں ہے ؟
    نہیں، کبھی نہیں! معرفت تو اپنے مقام پر ہے،یعنی مکتب اہل بیت (ع) کے حقائق مستقلّ اور ثابت ہیں لیکن میں اپنے مقدور بھر ہی اس مطلق تک رسائی حاصل کر سکتا ہوں؛ پس یہاں اضافیّت (Relativism) کا تعلق مکتب سے نہیں بلکہ میری اپنی فہم سے ہے۔ فرق ہے اس میں کہ حقیقت اضافیّت (Relativism) کی حامل ہے اور اس میں کہ حقیقت کے بارے میں میری فہم اور سوجھ بوجھ میری صلاحیّت، میرے زمانے اور میرے اجتہاد کے برابر ہے جس میں میرے صائب یا خاطی ہونے کا احتمال ہے۔
    پس اس اصلاحی تحریک کا پہلا ہدف مذہب کے مبانی اور قواعد کیلئے قوّت، استحکام اور ماندگاری کا اعادہ و بازگشت ہے تاکہ یہ زمانے کی تمام ضروریات کو پورا کر سکے ۔
    دوسرا ہدف مذہب کو تباہی ، جعل سازی ، جھوٹ اور بہتان کے ساتھ ساتھ باطل اور غیر خالص اجتہادات سے نجات دلانا ہے چونکہ بعض ملاوٹیں عمدی ہیں جیسا کہ روائی میراث میں ہے اور بعض اجتہادی بھی ہیں یعنی جب مجتہد نے اجتہاد کیا تو اس سے خطا سرزد ہوئی لیکن یہ خطا دینی ورثے اور اعتقادی نظام کا حصہ بن گئی تو یہ مستقبل میں مذہب کے قواعد و مبانی کو متزلزل کرنے کا سبب بنے گی، کیوں؟ اس لیے کہ یہ نادرست ہے اور مذہب و مکتب کے دیگر عناصر کے ساتھ ہم آہنگ اور سازگار نہیں ہے ۔
    اے سید بزرگوار! یہ چیز تقاضا کرتی ہے کہ آپ دینی نص کو نہیں دیکھتے!؟
    نہیں! دینی نصّ کو خود حق تعالٰی نے مرتّب کیا ہے اور یہ قرآن کی خصوصیت ہے اور حدیث سے اس کا امتیاز ہے کہ قرآنی نص میں یہ صلاحیت ہے کہ جو کوئی اور جس زمانے میں بھی اپنے ساز و سامان اور آلات کے ساتھ لیس ہو کر قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو اس کو نیا پائے گا اور یہ کہنہ و بوسیدہ نہیں ہوگا ۔ قرآن کریم کبھی پرانا و بوسیدہ نہیں ہوتا اور یہی فرق ہے قرآن اور روایت کے متن میں؛ مجتہدین کی آرا بھی کیونکہ بشری ہیں اس لیے کہنگی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔
    آپ سوال کریں گے کہ روایت کا متن بھی تو پیغمبر (ص) اور آئمہ (ع) سے صادر ہوا ہے؟
    اس کا جواب یہ ہے کہ اگر روایت کا متن ان کے الفاظ کے ساتھ ہم تک پہنچتا تو اس کے اندر بھی یہی صلاحیّت ہوتی لیکن غالب روایات کے صرف معانی ہم تک پہنچے ہیں ؛ یعنی روایت کے راوی نے پیغمبر اکرم (ص) یا امام معصوم(ع) کے کلام کی نص اور الفاظ کو نقل نہیں کیا بلکہ جو کچھ اس نے ان کے کلام سے سمجھا ہے اس کو نقل کیا ہے، اسے نقل بالمعنی کہتے ہیں ۔
    پس اصلاحی تحریک کا دوسرا ہدف یہ ہے کہ ہم مذہب کے فکری اور اعتقادی مبانی و قواعد میں سرایت کر جانے والے غلط مفاہیم کو نکال دیں خواہ یہ مفاہیم خیانت ، جھوٹ ، جعل سازی ، غلو اور بے دینی کی وجہ سے ایجاد ہوئے ہوں یا مجتہدین کے خاطی اجتہادات کے راستے سے وارد ہوئے ہوں ۔
    اسی وجہ سے معصوم (ع) فرماتے ہیں : «انّ في کلِ خلفٍ من امتّی عدلا من أہل بیتي ینفي عن ہذا الدین تحریف الغالین و انتحال المبطلین و تأویل الجاہلین»(۱) (میری امت کی ہر نسل میں میری اہل بیت(ع) کی ایک عادل شخصیت دین سے غالیوں کی تحریف، اہل باطل کی ناروا نسبتوں اور جاہلوں کی تاویل کا خاتمہ کرے گا) ۔
    اصلاحی تحریک کا تیسرا ہدف، ذرائع ابلاغ میں مختلف مکاتب فکر کے درمیان بحث و جدال سے متعلق ہے (کہ انہیں حقائق سے آگاہ کیا جائے)۔
    جب ہم نے اموی اسلام اور اس طرز تفکر پر نقد و تبصرہ کرنا چاہا کہ جس پر ابن تیمیہ نے اپنے تمام اعتقادی ، فکری ، تفسیری اور دینی مبانی کی بنیاد رکھی ہے، تو ہم نے اس روائی میراث کا سراغ لگایا جس سے وہ استناد کرتا تھا اور جب ہم نے اس روائی میراث کو باطل قرار دیا تو وہ ساری عمارت گر گئی جو اس کی بنیاد پر تعمیر کی گئی تھی۔ ۔ یہ روائی ورثہ، درست راستے سے ابن تیمیہ کے منحرف ہونے کا سبب بنا ؛ اب اگر ہماری روائی میراث میں بھی ایسے موارد موجود ہوں تو بیرونی دشمن ہمارے مذہب کو متزلزل کرنے، اس پر تہمت لگانے اور اسے ختم کرنے کی غرض سے مکتب اہل بیت (ع) میں گھسیڑی گئی اس باطل میراث کے ذریعے استناد کر سکے گا ۔
    میں اس اصلاحی تحریک کے ذریعے مکتب اہل بیت (ع) کے دشمنوں اور مکتب کے اندر موجود جاہلوں کے ہاتھ سے یہ ہتھیار چھین لینا چاہتا ہوں ۔ دشمن کو غیر مسلح کرنا ہے تاکہ ہماری میراث کو پیش کر کے یہ نہ کہیں کہ آپ لوگ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور یہ ہیں آپ کے منابع میں اس سے متعلقہ روایات !
    پس میں کیا کروں گا ؟ میں کہوں گا جی ہاں یہ روایات ہمارے منابع میں وارد ہوئی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارے اہل تحقیق علما نے کہا ہے کہ یہ موارد قابل قبول نہیں ہیں ؛ یہ مکتب کے دشمنوں کو غیر مسلح کرنا ہے تاکہ وہ ان داخل کردہ روایات کے ذریعے مکتب کے اصول اور مبانی کے خلاف کوئی دلیل قائم نہ کر سکیں ۔
    اسی طرح جاہلوں کو غیر مسلح کرنا ، جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ( تأویل جاھلان ) جاہلوں کی تاویل کا خاتمہ، اس وقت مکتب اہل بیت(ع) کے بعض پیروکاروں کا خیال ہے کہ مکتب کی خدمت کے لیے غالیوں کی جعل کردہ جھوٹی اور (کتب میں) داخل شدہ روایات کو ڈھونڈ کر شائع کریں، اس عنوان سے کہ یہ ان عقائد یا میراث کا حصہ ہیں کہ جس سے شیعہ عقل اور عقیدے کی تشکیل ہوتی ہے ۔
    بعض اوقات وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ روایات وضع کر رہے ہیں پیغمبر (ص) کے نفع میں نہ کہ آپ (ص) کے خلاف اور آپ (ص) کے ضرر میں !
    جی ہاں! درحقیقت ایسا ہی ہوا ہے اور انہوں نے اسی گمان کے ساتھ روایات وضع کی ہیں ۔
    پس تیسرا ہدف جس پر میں ثابت قدمی کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ سب سے پہلے مکتب اہل بیت(ع) کے دشمنوں سے مکتب کے مبانی کو متزلزل اور ضعیف کرنے والا اسلحہ چھینوں اور اس کے بعد مکتب کے اندر موجود جاہلوں سے تاویل کا اسلحہ بھی لے لوں ۔
    آج اگر آپ ان فتنہ انداز اور نامناسب چینلوں کو دیکھیں تو ان کا اصلی سرمایہ ناسزا گوئی ، گالم گلوچ ، لعنت ، تکفیر اور تخریب کاری ہے چونکہ واقعا ان کے پاس علمی سرمایہ نہیں ہے، یہ ان افراد کی ناتوانی اور ان چینلوں اور منبروں کی جہالت کی دلیل ہے ۔ اب خواہ ان کا تعلق سنی انتہا پسندوں سے ہو یا شیعہ سلفی انتہا پسندوں سے !
    خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک ذبح کرنے والی سلفیت نہیں ہے کہ کچھ شیعہ آ کر دوسروں کو ذبح کر دیں، یہ چیز ابھی تک ایک طرز تفکّر کے طور پر (شیعہ میں) نہیں ہے لیکن تکفیری، حذفی، اتہامی اور لعنی سلفیت بعض فتنہ پرور چینلوں پر موجود ہے اگرچہ خدا کا شکر ہے کہ ان کی تعداد کم ہے ۔
    پس اس اصلاحی تحریک کا تیسرا ہدف مکتب کے دشمنوں کو غیر مسلّح کرنا ہے تاکہ وہ ضعیف اور داخل کی گئی روایات سے استناد نہ کریں اسی طرح مذہب کے اندر کے جاہلوں کو بھی غیر مسلح کرنا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ان جعلی اور من گھڑت روایات کے ذریعے مکتب کی خدمت کر رہے ہیں ۔
    ——————————————————
    * پروگرام «وجہ لوجہ» سے ماخوذ، ماہ مبارک رمضان 1434 – 92/5/ 14
    [1]- صدوق، 1416 ص: 221

    • تاریخ : 2015/03/05
    • صارفین کی تعداد : 1094

  • خصوصی ویڈیوز