مقالات و آراء

  • مذہبی ٹکراؤ ؛ امت اسلامیہ کے دشمنوں کی اہم ترین سازش

  • تہذيبوں کا تصادم کہ جس کی منصوبہ بندی امريکہ کے سياسی فلسفے کے بڑوں نے کی ؛ موجود ہے اور انہوں نے کہا کہ آئندہ صدی ميں ہمارا ٹکراؤ دو اصل تہذيبوں سے ہوگا پہلی تہذيب ، اسلامی تہذيب ہے کہ جسے اندر سے سرنگوں کرنا ضروری ہے اور دوسری، چين کی تہذيب ليکن انہوں نے اپنی تمام تر کوششيں کہاں صرف کيں؟ اسلامی تہذيب پر اور انہوں نے اس ميدان ميں بہت بڑے قدم اٹھائے ہيں۔ آپ جب عالمگيريت کی کتابوں کا مطالعہ کريں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت کيا ہو رہا ہے اسلامی دنيا کو سرنگون کرنے کيلئے اہم ترين اقدامات ميں سے ايک،مذہب کے نام پر لڑانا ہے،افسوس ہے کہ اس وقت شيعہ اور سنی دانستہ يا نادانستہ طور پر، تہذيبوں کے تصادم پر مبنی امريکی فلاسفہ کے نظريے کو عملی کرنے ميں مصروف ہيں۔
    لہذا آپ کے سامنے ہے کہ فوکوياما کےنظريے”پايانِ تاريخ (The end of history )” ، کو فورا رد کر ديا گيا حالانکہ يہ شخص بھی امريکی ہے کيونکہ فوکوياما کا خيال تھا کہ دنيا اپنے کمال تک پہنچ چکی ہے اور مغربی سرمايہ دارانہ نظام (capitalism)کے بعد کوئی نئی تہذيب جنم نہيں لے گی لہذا اس نے اپنی کتاب کا نام "تاريخ کا خاتمہ” رکھا ، يعنی دنيا اپنے کمال کے عروج تک پہنچ چکی ہے فوکوياما جو جاپانی نژاد اور امريکی شہريت کا حامل ہے فوکوياما نے آکر تاريخ کے خاتمے کی بات کر ڈالی ” تاريخ کا خاتمہ” کے عنوان سے اس کی کتاب کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بنيادی طور پر دنيا اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے يعنی اپنے کمال کے بلند ترين درجے تک پہنچ چکی ہے ۔ پس اب مزيد کوئی نئی تہذيب ہے يا نہيں ؟ نہيں ہے۔ يعنی وجود انسان کا ہدف سرمايہ دارانہ (capital)معاشرے کے ساتھ پورا ہو چکا ہے ۔
    اس نظريے کا لازمہ کيا ہے؟
    لازمہ يہ ہے کہ اے امريکيو !تم جو دفاعی بجٹ کے ليے سالانہ ارب ڈالر مختص کرتے ہو تاکہ مستقبل کی جنگوں کے ليے آمادہ ہو سکو کيا اب کوئی دشمن ہے يا نہيں ؟ اچھا! اگر اب کوئی دشمن نہيں ہے تو يہ بجٹ خرچ کرنے کی کيا ضرورت ہے؟
    وہ فلاسفہ جو دنيا کو چلا رہے تھے،انہوں نے ديکھا کہ يہ نظريہ امريکہ کی صورتحال کو تباہ کررہا ہے لہذا نظريہ "پايانِ تاريخ” کے فورا بعد "تہذيبوں کے تصادم” کا نظريہ سامنے آيا ۔ تاکہ وہ کہہ سکيں کہ نہيں ! اگلی صدی ميں امريکيوں کو جنگيں لڑنی پڑيں گی ؛ لہذا ہمارا فوجی بجٹ اگر اس وقت ۶ ارب ڈالر ہے تو اس ميں کئی گنا اضافے کی ضرورت ہے اور يہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ "دال ميں کچھ کالا ہے”
    ان تمام واقعات سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟
    دنيا ميں جاری حاليہ جنگوں سے اصل فائدہ کون اٹھا رہا ہے ؟ (ان جنگوں سے) منافع کمانے والوں ميں سرفہرست، اسلحے کی فيکٹرياں ہيں جو دوسروں کے نقصانات سے قطع نظر کرتے ہوئے ؛ تمام انسانی اور مادی نقصانات کو نظر اندار کرتے ہوئے، ان کے تمام کارخانہ جات دن رات کام کر رہے ہيں اور وہ لوگ آرام و سکون ميں ہيں يہ "تہذيبوں کے تصادم”کے نظريے کا ايک اہم ترين نتيجہ ہے اور (اس وقت) جو کچھ شام ، يمن ، ليبيا ، سوڈان ، عراق اور خطے ميں ہو رہا ہے اور آئندہ پچاس برس تک جاری رہے گا اگر ہم زندہ رہے تو ديکھيں گے( انہیں سازشوں کی ایک کڑی ہے) ۔ لہذا ميں آپ عزيزوں کو نصحيت کرتا ہوں کہ فلسفہ تاريخ کا کچھ مطالعہ کريں اس موضوع پر بہت ساری کتابيں موجود ہيں مطالعہ کيا جائے کہ بنيادی طور پر تاريخ کيسے وجود ميں آئی اور اس وقت ہم کہاں ہيں اور ہمارا کيا فرض ہے؟
    اس لیے ميں سمجھتا ہوں کہ يہ حاليہ مذہبی ٹکراؤ بھی پوری منصوبہ بندی کے تحت ہے ۔ ميں يہ نہيں کہنا چاہتا کہ يہ چينل جو اس معرکے کو شعلہ ور کر رہے ہيں ، ايجنٹ ہيں نہيں ! ميں تو ان کو عام لوگوں اور جاہلوں کا ايک گروہ خيال کرتا ہوں جن کو ادراک نہيں ہے کہ وہ دوسروں کے اہداف کو عملی کر رہے ہيں ۔ ميں ان پر بالضرورہ ايجنٹ ہونے کا الزام نہيں لگا رہا شايد ان ميں سے بعض ايجنٹ بھی ہوں ليکن واضح ہے کہ سب ايجںٹ نہيں ہيں جبکہ خود يہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ مذہب کی خدمت ميں مشغول ہے ، ليکن نہيں جانتا کہ ان کی ايک اہم ترين پاليسی کو اجرا کر رہا ہے ۔
    کيونکہ ايک اہم ترين منصوبہ جسے تہذيبوں کے تصادم پر مبنی نظريے نے پيش کيا ہے اسلامی عقيدے کو اندر سے کھوکھلا کرنا ہے اور اسلامی عقيدے کی اندرونی اقدار کو نيست و نابود کرنا ہے ۔ اب فرق نہيں پڑتا کہ اس پر عمل درآمد کرنے والے سنی ہوں يا شيعہ يا پھر کسی دوسرے مذہب والے وہ تصور کرتا ہے کہ خدمت کر رہا ہے ليکن نہيں جانتا کہ يہ چيز سازش کا حصہ ہے . لہذا ميں سمجھتا ہوں کہ تمام واقعات خواہ عراق ميں رونما ہوں يا لبنان ميں ، يمن ميں ہوں يا پھر ليبيا ميں سب ايک سمت ميں اور اسلامی دنيا کو داخلی اختلافات ميں الجھانے کے ليے ہيں ۔
    (دشمنوں کے نزديک) مذہبی اور اعتقادی پہلو والے اختلافات سب سے بہتر ہيں کيونکہ مادی اور دنيوی مسائل بہت سے لوگوں کو مشغول نہيں کرتے ليکن دينی مسائل اسطرح سے نہيں ہيں ، لہذا طولِ تاريخ ميں آپ ديکھتے ہيں کہ مذہبی جنگوں کا دورانيہ کئی دہائيوں پر محيط ہے ان جنگوں کے برخلاف جو اقتصادی اور مادی مسائل کی وجہ سے پيش آئيں کہ چند ہی سالوں ميں اختتام پزير ہو گئيں ليکن کیا مذہبی جنگيں بھی اسطرح تھیں؟ ملاحظہ فرمائیں امريکہ ميں مذہبی جنگيں دو سو سال تک جاری رہيں ، اٹلی کی جنگيں؛”ميکاؤلی”(MACHIAVELLI)کے نظريے اور اس کی کتاب پرنس (PRINCE) کے زمانے سے شروع ہوئيں اور ۳۰۰سے 400 سال تک جاری رہيں اور يہ تمام جنگيں مذہبی تھيں عيسائيوں کی آپس ميں ہونے والی مذہبی جنگيں،يورپ ميں تو اسلام نہيں تھا يہ کون لوگ تھے ؟ عيسائی تھے ۔
    جس طرح انہوں نے وہاں منصوبہ بندی کی اس وقت بھی منصوبہ بندی کر رہے ہيں کہ يہ سلسلہ اسلامی دنيا ميں جاری رہے اور دلچسپی کی بات يہ ہے کہ يہ جنگيں ماضی ميں شيعہ- سنی تھيں ، اب کيا ہوا ہے ؟ اس وقت بھی اصل فريق شيعہ – سنی ہی ہيں ۔ ليکن (توجہ کریں ) خود اہل سنت کے اندر، سنّی کی سنّی سے جنگ ہے اور يہ جو لوگ عراق اور ليبيا ميں قتل عام کر رہے ہيں ، مسلمانوں کو قتل کر رہے ہيں ؛ اور سنی، سنی کو مار رہا ہے ؟ اب بعض شيعہ چينلوں ميں، شيعوں کو ايک دوسرے سے متنفّر کرنے کا آغاز ہو چکا ہے کہ يہ ايک موالی (باوفا) شيعہ ہے اور وہ ايک غير موالی شيعہ (بے وفا ) ہے يہ شيعہ اہل سنت سے متاثر ہے اور وہ دوسرا متاثر نہيں ہے ۔ ابھی تک تو کوئی جنگ رونما نہيں ہوئی، ليکن اگر يہ صورتحال اسطرح جاری رہی اور علما ، مراجع اور مذہبی اداروں نے اپنی ذمہ دارياں نہ نبھائيں تو يقين کريں کہ ايک دن ايسا آئے گا کہ ايک شيعہ دوسرے شيعہ کا قربۃ الی اللہ خون بہائے گا جيسا کہ اس وقت ايک سنی خود کو دوسرے سنيوں ميں دھماکے سے اڑا ديتا ہے تاکہ خدا کا قرب حاصل کرے۔
    عزويزو! توجہ کرو، معرکہ ہمارے تصور سے بھی بہت آگے ہے ۔
    درس : "خارج اصول/ سنت نبوی(ص)” سے ماخوذ/33
    2015/1/11

    • تاریخ : 2015/10/03
    • صارفین کی تعداد : 1114

  • خصوصی ویڈیوز