مقالات و آراء

  • شہید باقر صدر(رہ) کا رسول کے بعد قائم ہونے والی خلافت کے بارے میں نظریہ

  • شہید محمد باقر صدر (رہ) "فاطمی جدوجہد اور انقلاب ميں اسکا کردار” کے عنوان سے رسول خدا(ص) کے بعد قائم ہونے والی غير شرعی حکومت کو سرنگوں کرنے ميں حضرت زہرا(ع) کے کچھ اقدامات کو ذکر کرتے ہيں يہاں تک کہ کہتے ہيں : فاطمی تحريک ايک معنی ميں ناکام اور ايک معنی ميں کامياب ہوئی ۔ ناکام ہوئی ، يعنی يہ کہ اپنا مقاصد حاصل نہ کر سکی يعنی کيا يہ حکومت کو گرا سکی يا نہيں؟ نہيں ! ايسا نہيں کر پائی اب يہ کہ اس کی وجوہات کيا تھيں؟ اس کے ليے ايک دوسری بحث کی ضرورت ہے . ہمارے ليے يہ جاننا ضروری ہے کہ وہ سياست کيا تھی جس کے ذريعے ابوبکر نے علوی پروگرام کا مقابلہ کيا وہ پروگرام جو حکومت کو گرانے اور اس کے غير شرعی ہونے کے بيان پر مشتمل تھا۔
    ليکن کس جہت سے کامياب ہوئی؟ وہ چيز جس ميں حضرت زہرا(ع) کامياب ہوئيں کيا تھی کہتے ہيں : آپ(ع) عقيدے اور دين ميں حتمی فتح حاصل کرنے ميں کامياب رہيں ۔ آپ(ع) اپنے اس موقف کو ثابت کرنے ميں کامياب رہيں، کس موقف کو؟ يہ موقف کہ آپ(ع) نے حکومت کی بيعت نہيں کی اسليے کہتے ہيں : پس آپ(ع) کو يقين تھا کہ جو نتيجہ آپ(ع) نے حاصل کيا ،وہ دين اور عقيدے کی يقينی کاميابی ہے ۔ لہذا ايک دوسری عبارت ميں کہتے ہيں حضرت زہرا(ع) کی مخالفت کامياب قرار پائی، چونکہ آپ(ع) نے حق کو ايک بڑی طاقت کے ساتھ ليس کر ديا اور مذہبی جدوجہد کے ميدان ميں ابدی حيات کے ليے ايک نئی طاقت کا اضافہ کيا ۔ ليکن نہايت افسوس کے ساتھ ، کيا ہم نے اس فرصت سے استفادہ کيا يا نہيں؟ نہيں ہم استفادہ نہيں کر سکے ۔اور آپ(ع) نے اپنے پورے قيام کے دوران اور اپنے کلام ميں اس کاميابی کو ذکر کيا ہے يہ کون سا موقف ہے؟ وہی موقف جس کی طرف روايات نے واضح اور بطور صريح اشارہ کيا ہے ۔
    ميں صرف منابع کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کتاب ” الذريۃ الطاہرۃ ” کتاب ” مسند الإمام احمد ” جلد 26 تحقيق «شعيب الأرنؤوط» ، روايت نمبر 16123 ، شعیب الارنؤوط کہتے ہيں : اس کی سند بشطر شیخین صحیح ہے ؛ رسول خدا(ص) نے فرمایا :” فاطمہ (ع) ميرے جسم کا ٹکڑا ہے ، جس نے اسے اذيت دی ، اس نے مجھے اذيت دی اور جس نے اس سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی” ، شعيب أرنؤوط کہتا ہے : بشرط شيخين. البتہ اسی طريقہ سے جب بخاری اور مسلم نے اس روايت کو نقل کيا تو انہوں اسے کسی اور مضمون کے ساتھ نقل کيا ہے . يعنی انہوں نے معنی و مفہوم نقل کيا ہے اور اس کے مضمون کو تبديل کر ديا ہے . اس وقت فرصت نہيں ہے کہ بخاری اور مسلم کو پڑھوں ، آپ خود مراجعہ کريں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس حديث اور اس حديث کے درميان جو انہوں نے نقل کی ہے کسی قسم کی شباہت موجود نہيں ہے
    . کتاب «الذريۃ الطاہرۃ النبويۃ» جو اہم ترين کتابوں ميں سے ہے کتاب بہت چھوٹی ہے مگر بہت اہم ہے چونکہ «حافظ دولابی» جس کا شمار بہت بڑے حفاظ اور اہم ترین محدثين ميں ہوتا ہے ان کی«الذريۃ الطاہرۃ النبويۃ» نامی ايک کتاب ہے حافظ دولابی، صاحبِ «الكنی» روايات کو نقل کرتے ہيں اور کہتے ہيں : ” اے فاطمہ(ع) ! خدا آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی رضايت پر راضی ہوتا ہے” ، اس کے بعد طبرانی کی کتاب «المعجم الكبير» کو ديکھيں ، جلد اول ، صفحہ 91 اور روايت بھی صحيح السّند ہے ، البتہ وہ افراد جو اس کتاب کو خريدنا چاہيں وہ اس کو «حمدی عبدالمجيد السلفی» کی تحقيق کے ساتھ خريديں کيونکہ اس نے تمام صحيح اور ضعيف روايات کا استخراج کيا ہے ۔ کہتے ہيں يہ روايت صحيح السّند ہے ، فرمان رسول خدا(ص) ہے : "خدا آپ کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے اور آپ کی خوشنودی پر خوش ہوتا ہے” ۔ اسی طرح حاکم نيشاپوری کی کتاب «مستدرک» جلد 4 ، صفحہ 137 ، روايت نمبر 4783 ميں يہ مطلب ثابت اور قطعی ہے کہ خدا حضرت فاطمہ(ع) کے غضب پر غضبناک ہوتا ہے ۔ يہاں ہمارے پاس "بحار” ميں ايک معتبر اور صحيح السّند روايت موجود ہے اور اس کی نظير، اہل سنت کی بعض کتب ميں بھی موجود ہے ؛ روايت "بحار”جلد ۴۳ ، صفحہ ۱۷۰ پر موجود ہے : « سيدۃ النساء کی تاريخ » باب « جو کچھ ان کے ساتھ پيش آيا » روايت ميں ہے : ” پيغمبر اکرم (ص) کے اصحاب ميں سے ان دو افراد(ابوبکر و عمر) نے امير المومنين (ع) سے درخواست کی کہ سيدہ(ع) کے سامنے ان کيلئے سفارش کريں پس امير المومنين(ع) نے بھی جناب سيدہ (ع) سے درخواست کی اور جب يہ آپ(ع) کی ملاقات کے ليے آئے تو سوال کيا : اے دخترِ رسول خدا(ص) آپ کيسی ہيں؟ فرمايا : خدا کا شکر ہے ٹھيک ہوں ! پھر آپ(ع) نے ان دونوں سے فرمايا : کيا تم دونوں نے پيغمبر(ص) کو يہ فرماتے ہوئے نہيں سنا تھا کہ فاطمہ (ع) ميرے جسم کا حصّہ ہے جس نے اسے اذيت دی اس نے مجھے اذيت دی اور جس نے مجھے اذيت دی اس نے خدا کو اذيت دی کہنے لگے : جی ہاں فرمايا : خدا کی قسم!تم دونوں نے مجھے اذيت دی ہے”۔
    شايد آپ کہيں کہ يہ روايت تو بحار ميں ہے؟ جواب یہ ہے کہ يہی روايت ايک اہم شرح کے ساتھ ، ابن قتيبہ کی کتاب ” الإمامۃ والسياسيۃ "ميں وارد ہوئی ہے ليکن اس کتاب کے بارے ميں بہت کچھ کہا گيا ہے کہ آيا يہ کتاب ابن قتيبہ کی ہے يا نہيں ۔ انشاءاللہ کسی مناسب فرصت ميں ہم ثابت کريں گے کہ يہ کتاب ابن قتيبہ ہی کی ہے ، اس کے برخلاف جسے اموی، سلفی اور وہابی اذہان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہيں کہ يہ کتاب ابن قتيبہ کی نہيں ہے کيونکہ اگر يہ ثابت ہو جائے کہ کتاب ابن قتيبہ(متوفی ھ۲۶۷) کی ہے ۔ تو يہ ایک بہت زيادہ اہم کتاب ہو گی ، چونکہ يہ کتاب دوسری اور تيسری صدی ہجری کی ہے ۔ وہاں صفحہ نمبر ۱۷ پر بالکل واضح اور صريح روايت وارد ہوئی ہے روايت يہ ہے ، فرمايا :” آيا اگر ميں پيغمبر خدا(ص) سے کوئی حديث نقل کروں تو کيا تم اسے پہچان لو گے اور اس پر عمل کرو گے؟ کہنے لگے : ہاں فرمايا : تم کو خدا کا واسطہ ، کيا تم نے پيغمبر (ص) کا يہ فرمان نہيں سنا کہ فاطمہ کی خوشنودی ميری خوشنودی ہے اور فاطمہ کا غضب ميرا غضب ہے، جس نے ميری بيٹی فاطمہ(ع) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے فاطمہ(ع) کو خوش کيا اس نے مجھے خوش کيا جس نے فاطمہ(ع) کو غضبناک کيا اس نے مجھے غضبناک کيا کہنے لگے : جی ہاں ، ہم نے پيغمبر خدا(ص) سے سنا ہے فرمايا : پس ميں خدا اور فرشتوں کو گواہ بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کيا ہے اور مجھے راضی نہيں کيا اور جب ميں پيغمبر (ص) سے ملاقات کروں گی تو يقينًا ان کے حضور تمہاری شکايت کروں گی”۔
    البتہ روايت لمبی ہے اور پھر ابوبکر نے گريہ کيا وغيرہ وغیرہ ، جو اس وقت ہماری بحث کا حصہ نہيں ہے ۔ يہ مضمون بہرحال ثابت ہے اسی وجہ سے بخاری جب اس روايت تک پہنچا،اسی روش کی بنياد پر روايت کے ساتھ کيا کرتا ہے وہ اس کے مضمون کو جوڑ توڑ کر اور بصورت ديگر نقل کرتا ہے کہتا ہے : پس ابو بکر نے فاطمہ(ع) کا حق (فدک) دينے سے اجتناب کيا پس فاطمہ(ع) ابو بکر پر سخت غضبناک ہوئيں اور اس سے کنارہ کشی اختيار کر لی ۔ يہ روايت کا مضمون نہيں ہے ، يہ روايت کے بارے ميں اس کی اپنی سوچ ہے اور ہمارے ليے معنی و مفہوم کو نقل کررہا ہے يہ حديثِ رسول (ص) کی نص نہيں ہے ۔ اسی وجہ سے کہتا ہے کہ فاطمہ (ع) ابو بکر پر بہت ناراض ہوئيں ۔
    اگر تم سچے اور امانتدار ہو تو روايت کی نص کو نقل کرتے ، اس کے مضمون کو کيوں نقل کيا ہے؟ اس سے عياں ہوتا ہے کہ اسے پتہ تھا کہ روايت کی نص ،رسول اللہ (ص) کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے جواز کو ختم کر ڈالے گی کہتا ہے : "پس آپ(ع) نے اپنی رحلت تک اس (ابوبکر) کے ساتھ بات چيت نہيں کی جبکہ آپ(ع) پيغمبر(ص) کے بعد چھ ماہ تک زندہ رہيں اور جب آپ(ع) کی رحلت ہوئی ، تو آپ (ع) کے شوہر علی(ع) نے آپ (ع) کو رات کے اندھيرے ميں دفن کيا اور ابوبکر کو حاضر ہونے کی اجازت نہيں دی اور خود ہی ان پر نماز پڑھی”۔ واضح ہے کہ يہ روايت اسی پہلے مضمون کی حامل ہے ۔
    ہمارے استاد ، شہيد سيد محمد باقر صدر(رہ) ان روايات کے مضمون کو ذکر کرنے کے بعد خود حاشيہ نہيں لگاتے اور صرف چار آيتوں کو بغير حاشيہ کے ذکر کرتے ہيں اور اس کا تجزيہ و تحليل، سائل پر چھوڑ ديتے ہيں فرماتے ہيں : پس اسے خدا اور اس کے رسول(ص) کا خليفہ ہونے کی اجازت نہيں تھی ۔ کيا اب ابوبکر کو حق حاصل تھا کہ خليفہ ہو يا نہيں؟ کيوں اسے حق حاصل نہيں تھا ؟ صرف يہ آيات لے کر آتے ہيں ، منطقی استدلال کو ملاحظہ فرمائيں ، بغير کسی توہين اور گالم گلوچ کے ۔ پہلی آيت :” وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّـہ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَہ مِن بَعْدِہ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّـہ عَظِيمًا (احزاب53﴾” (اور تمہارے لئے جائز نہيں ہے کہ تم رسولِ(ص) خدا کو اذيت پہنچاؤ اور نہ يہ جائز ہے کہ ان کے بعد کبھی بھی ان کی بيويوں سے نکاح کرو بيشک يہ بات اللہ کے نزديک بہت بڑی (برائی گناہ کی) بات ہے)۔ نتيجہ يہ ہوا کہ جس نے بھی پيغمبر (ص) کو اذيت دی ، اس نے بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کيا ہے ۔ دوسری آيت :” وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّـہ لَھمْ عَذَابٌ ألِيمٌ ﴿توبہ61﴾” (اور جو لوگ اللہ کے رسول (ص) کو اذيت پہنچاتے ہيں ان کے ليے دردناک عذاب ہے)۔ تيسری آيت ، وہ خود حاشيہ نہيں لگا رہے ليکن ميں تشريح کر رہا ہوں :” يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّـہ عَلَيْھمْ(ممتحنۃ13) ” (اے ايمان والو! ان لوگوں کو اپنا سرپرست مت بناؤ جن پر اللہ نے اپنا غضب نازل کيا ہے)۔
    يعنی جس نے فاطمہ(ع) کو اذيت دی اس نے رسول خدا(ص) کو اذيت دی اور جس نے رسول خدا(ص) کو اذيت دی اس نے اللہ کو اذيت دی اور جس پر فاطمہ (ع) غضبناک ہوئيں ، رسول خدا(ص) بھی اس پر غضبناک ہوئے اور جس پر رسول خدا(ص) غضبناک ہوئے اللہ بھی اس پر غضبناک ہوا ۔ پس جس سے خدا غضبناک ہو کيا اس کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ مومنين کے امور کی باگ ڈورسنبھال لے يا نہيں؟ کيوں اسے حق نہيں ہے کہ وہ مومنين کے امور کا سرپرست بنے؟ کیوںکہ خدا فرما رہا ہے :” وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْہ غَضَبِي فَقَدْ ھوَیٰ ﴿طہٰ81﴾”(اور جس پر ميرا غضب نازل ہوا وہ يقينا ہلاک ہوگيا)۔

    • تاریخ : 2016/02/20
    • صارفین کی تعداد : 1016

  • خصوصی ویڈیوز