مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث (6)

  • پہلا سوال یہ تھا کہ :کیف التوفیق بین ان المعرفۃ معرفۃ اللہ وکیف انہ یکون المعرفۃ بالبِدء بکم (ان دو کو کیسے جمع کیا جاسکتا ہے کہ معرفت معرفت اللہ ہے اور یہ کہ معرفت کا آغاز آپ (علیھم السّلام)سے ہوتا ہے) دیکھیے جناب! ہمارے پاس معرفتِ خدا کے دو راستے ہیں . آپ منطق بھى پڑھ چکے ہیں؛ ایک إنّی ہے اور دوسرا لمیّ ہے.  اگر آپ لمّی کے ذریعے معرفتِ خدا تک نہیں پہنچ سکتے جیسا کہ روایت نے بھی بیان کیا ہے: اللّھم عرّفنی نفسک اور (معرفتِ لمّی کی بنیاد پر) ، تو اس کے ذریعے ہم کہاں پہنچیں گے؟ معرفتِ امام تک! پس معرفتِ امام اوّل ہو گی یا سوّم؟ سوّم ہو گی. پس وہ لوگ جو خدا کی معرفت تک پہنچنا چاہتے ہیں ان کے پاس دو راستے ہیں  ایک راستہ کیا ہے ؟ إنّی  کہ عموما اس روایت "من عرفکم فقد عرف اللہ” کی طرف جاتے ہیں، یہ روایت کی ابتدائی فہم کی بنیاد پر ہے.  ورنہ یہی روایت لمّی معنی بھی رکھتی ہے نہ کہ إنّی معنی. لیکن اس کا ظاہر إنّی معنی پر دلالت کر رہا ہے ؛ یعنی جو بھی خداوند متعال کو پہچاننا چاہتا ہے اس کو کہاں سے شروع کرنا چاہئیے؟ یہاں سے . دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ دعائے ابو حمزہ ثمالى کی ابتدائی سطور میں کیا پڑھتے ہیں؟ "بک عرفتک و انت دللتنی علیک” (میں نے تیرے ذریعے تجھے پہچانا اور تو نے ہی مجھے اپنی طرف رہنمائی کی)، یہ معرفت کون سی ہے ؟ یہ معرفت انّی نہیں ہے بلکہ معرفت لمّی ہے . اب آپ کو حق حاصل ہے کہ سوال کریں کہ ہم معرفت لمّی کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟  اس وقت ہم صرف کلیات بیان کر رہے ہیں اگر فرصت ہوئی تو اس کی تفصیل بھی بیان کریں گے .

    یہ اوّل ، اس جملے "بداء بکم” کا ایک اور معنی بھی ہے،  اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ "بداء بکم” یعنی  معرفتِ خدا کا مرحلہ امام(ع) کی معرفت کے بعد ہے ، نہیں  اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ خدا کو پہچاننا چاہتے ہیں تو آپ آئمہ کی رہنمائی کے ذریعے خدا کو پہچان سکتے ہیں. یہی کام جو ابھی ہم نے کیا ایسا نہ ہو کہ آپ اہل بیت (ع) کو نظر انداز کر دیں اور کہیں کہ میں خدا کو پہچاننا چاہتا ہوں یہ آپ کے لیے نتیجہ آور نہیں ہو گا. پس اہل بیت(ع) كى رہنمائی ہونی چاہئیے،جب اس مقام پر پہنچیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ آیا اہل بیت (ع) نے آپ کو خدا کی پہچان کروائی ہے یا اس نے خود اپنی معرفت عطا کی ہے ؛ لیکن کس کى رہنمائی کے ذریعے ؟ اہل بیت (ع) کی رہنمائی کے ذریعے.  جب وہاں پہنچیں گے تو معلوم ہوگا کہ منبع اور سرچشمہ کون تھا ؟  وہ خود تھا ، نہ کہ یہ ہستیاں ! جی ہاں آغازِ راہ میں آپ گمان کر رہے تھے کہ یہ ہستیاں ہیں یہ دوّم .

    سوّم : "من عرفکم فقد عرف اللہ”،  اس میں دو معنی ہیں.  تب معرفت نفس بھی مشخص ہو جائے گی جیسا کہ ایک دوست نے سوال کیا ہے. ” من عرفکم فقد عرف اللہ بعد ذلک” (جس نے آپ کو پہچان لیا پس اس کے بعد اس نے خدا کو پہچانا)؟  یہ اس کا ظاہری معنی ہے! ایک دوسرا معنی بھی ہے :” من عرفکم فقد عرف اللہ قبل ذلک” (کہ اس نے آپ کو پہچانا جس  کے  پاس پہلے معرفتِ خدا ہے)  ، یعنی آپ کو کوئی نہیں پہچان سکتا مگر یہ کہ پہلے خدا کو پہچان چکا ہو وہی  حدیث : "عرفنی رسولک فإنّك إن لم تُعَرّفنی رسولك لم أعرف حُجّتك…” جس نے آپ کو پہچانا وہ اس سے قبل خدا کی معرفت حاصل کر چکا ہے ، یعنی پہلے اس نے خدا کی معرفت حاصل کی ہے کہ آپ (ع) کو پہچاننے کے قابل ہوا ہے.

    یہ ایک دقیق معنی ہے ، میں آیت اللہ العظمٰی بہجت(رہ) کے گھر پر منعقدہ ایک مجلس میں بیٹھا تھا ، خدا ان پر رحمت کرے.  مجلس کے بعد کسی نے آکر آغا بہجت (رہ) سے سوال کیا، آغا نے اسی نکتے کو بیان کیا :  "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” ، ایک ظاہری احتمال یہی ہے کہ اگر آپ خدا کو پہچاننا چاہتے ہیں تو ضرورى ہے کہ پہلے خود کو پہچانیں. یہ اس کی إنّی روش ہے لمّی روش کیا ہے؟ آپ خود کو نہیں پچان سکتے مگر یہ کہ پہلے خدا کی معرفت رکھتے ہوں "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” ؛ یعنی اس کے پاس خدا کى معرفت تھی جس کی بنا پر وہ خود کو پہچاننے میں کامیاب ہوا. دوسرا سوال کہ جس میں "من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” کے بارے میں پوچھا گیا ، اس کا جواب بھی دے دیا گیا ہے کہ یہ اس مطلب کے ساتھ کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا.

    "حد” اور "عدّ” میں سے اصل اور بنیاد کیا ہے ؟ جواب : عزیزان! یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ، لیکن اصل کون ہے اور فرع کون ہے ؟ کون ملزوم ہے اور کون لازم ؟  میں بھی قائل ہوں کہ حدّیت اور عدّیت لازم و ملزوم ہیں؛ جیسا کہ امام (ع) فرما رہے ہیں . لیکن آیا جفت ہونا اصل ہے اور چار اس کی فرع ہے یا چار اصل ہے اور جفت فرع ہے ؟چار ملزوم ہے اور جفت ہونا لازم ہے؟  سوال : معدود ہونا لازم ہے یا ملزوم؟ جی ہاں بحث یہاں ہے، اس وقت عقلی بحث کو چھوڑ دیں میں اس میں وارد نہیں ہونا چاہتا میں اس وقت کس کے کلام سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں؟ امیر المؤمنین(ع) کے کلام سے  امیر المؤمنین(ع) عد(گنتی) کی نفی کے لیے "حد” کو حدِ وسط قرار دے رہے ہیں  ! کون اصل ہے اور کون فرع ؟ حد اصل ہے ! یعنی قیاس کی شکل اوّل یوں ہو گی: اللہ محدود ہے اور ہر محدود معدود ہے پس خدا کیا ہے ؟ در نتیجہ محدود ہو گا(اگرچہ یہ غلط نتیجہ ہے) نہ یہ کہ اللہ معدود ہے اور ہر معدود محدود ہوتا ہے  .آپ کہیں گے کہ آیا وہ غلط ہے ؟ اس وقت میری بحث غلط اور درست کے بارے میں نہیں ہے ، میری بحث اس وقت کہاں ہے ؟  نہج البلاغہ میں ہے ، نہج البلاغہ میں امام (ع) نے کس کو حدِ وسط قرار دیا ؟ "حد” کو حدِ وسط قرار دیا نہ کہ "عد” کو.  آپ کہیں گے کہ اس کو بھی تو قرار دیا جاسکتا ہے! جی ہاں! قرار دے سکتے ہیں ہم نے نہیں کہا کہ غلط ہے؛  میں یہ کہہ رہا ہوں کہ امام(ع) نے کس کو اصل اور ملزوم قرار دیا ہے اور دوسرے کو فرع اور لازم قرار دیا ہے  ؟ امام امیر المؤمنین (ع) کے کلام  اور اس کے ساتھ امام رضا(ع) کے کلام میں.

    پانچواں سوال : "معرفۃ اللہ ھو معرفۃ الامام”معرفتِ خدا وہی معرفتِ امام ہے . آغا ! جی ہاں ایسا ہی ہے! اس میں کسی قسم کی منافات نہیں ہے   .وہی روایت جسے ہم پڑھ چکے ہیں : اَللّہمَّ عَرِّفْنى رَسُولَكَ فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى رَسُولَكَ لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَكَ … الخ روایت یہی کہنا چاہتی ہے کہ معرفتِ امام (ع) کا راستہ کہاں سے ہے؟ معرفتِ خدا سے  اگر آپ امام(ع) کو نہیں پہچان پاتے تو آپ کی مشکل کہاں ہے معرفتِ خدا میں  یعنی معرفتِ خدا کا کامل ترین مصداق کہاں جلوہ گر ہوتا ہے ؟ معرفتِ امام میں  بالکل اسی طرح ہے اگر ہم خدا کو اچھی طرح نہیں پہچان پائے تو امام(ع) کو بھی نہیں پہچان پائیں گے.

     

     

     

    • تاریخ : 2017/01/22
    • صارفین کی تعداد : 1258

  • خصوصی ویڈیوز