مقالات و آراء

  • امام حسن عسکری(علیہ السّلام) بانیِ انتظار

  • امام حسن عسکری(ع) کے بارے ميں ايک کلی اصول ہے. جسے ميں ابتدا ميں بيان کر دينا چاہتا ہوں اور اس کے بعد ہم امام حسن عسکری(ع) کے بارے ميں گفتگو کريں گے.

    کلی اصول يہ ہے :

    ہميں يہ حق حاصل نہيں ہے کہ جب کسی بھی امام(ع) کی ذمہ داريوں کے بارے ميں بات کريں تو آئمہ(ع) کا ايک دوسرے سے موازنہ شروع کر ديں .ايک غلط سوچ جو اس وقت رائج ہے؛ وہ يہی ہے کہ مثلا جب آپ امام حسين (ع) کے بارے ميں بات کرتے ہيں تو کہتے ہيں کہ امام (ع) نے يہ يہ کام انجام ديئے .اور جب امام حسن(ع) کی بات کرتے ہيں تو کہتے ہيں کہ آپ نے يہ يہ.. کام انجام نہيں ديئے اور جا کر صلح کر لی  .امام(ع) نے يہ کام کيوں کيا ؟ يہ "کيوں” غلط ہے. کيوں غلط ہے ؟ کيونکہ اگر ان تمام امور کو اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہيں جو آئمہ (ع) نے انجام ديئے، تو ضروری ہے کہ اس زمانے کے سماجی ، ثقافتی اور سياسی حالات کا ادراک حاصل کريں کہ اس زمانے کے حالات کيا تھے کہ امام(ع) نے يہ کام انجام ديا اور وہ انجام نہيں ديا.

    لہذا امام رضا(ع) کے بارے ميں اکثر يہ کہا جاتا ہے کہ امام(ع) نے تقيہ کيا تھا ، نہيں جناب! ميرے خيال ميں امام (ع) نے  کوئی تقيہ نہيں کيا ،جب امام(ع) مدينہ سے خراسان تشريف لائے . نہيں! ہر گز کوئی تقيہ نہيں تھا.امام رضا(ع) کے حالات و واقعات اس چيز کا تقاضا کر رہے تھے کہ امام (ع) يہی کام انجام ديں جو آپ (ع) نے انجام ديا. ايسا نہيں تھا کہ تقيہ کيا ہو امام سجاد(ع) کے حالات اسی چيز کا تقاضا کر رہے تھے جو آپ (ع) نے انجام دی. پس اب آئيں امام حسن عسکری(ع) کی جانب کوئی آ کر ہم سے يہ نہ کہے کہ نہيں معلوم کيوں امام جعفر صادق(ع) سے تو تيس چاليس ہزار روايات نقل ہوئی ہيں ليکن ان آخری تين اماموں؛ امام جواد(ع) ، امام ہادی(ع) اور امام عسکری(ع) سے بہت کم روايتيں نقل ہوئی ہيں؟ جواب : آپ ملاحظہ فرمائيں کہ امام صادق(ع) کے حالات کيا تھے جو اس چيز کا تقاضا کر رہے تھے کہ امام (ع) ايک حوزہ علميہ کی بنياد رکھيں ؛ جہاں ہزاروں شاگرد تربيت حاصل کريں .ليکن امام جواد ، امام ہادی  اور امام عسکری(عليھم السلام) کے حالات کا بنيادی تقاضا يہی تھا کہ آپ(عليھم السلام) روايات بيان نہ کريں .نہ يہ کہ دوسروں نے آپ(عليھم السلام) کو منع کيا تھا ؛اگر منع نہ بھی کرتے تو آئمہ(ع) يہی کام کرتے جو انہوں نے انجام دئيے .

    لوگ کہتے ہيں کہ ان آئمہ(ع) کو موقع نہيں ديا گيا، نہيں جناب! موقع ملتا بھی تو يہی کام انجام ديتے. يعنی آيا حديث بيان کرتے يا نہ ؟  نہيں! حوزہ علميہ کی بنياد رکھتے يا نہ؟ نہيں! بنياد نہ رکھتے .کيوں؟ کيونکہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ رسول اسلام(ص) سے لے کر آخری امام (عج) تک تمام معصومين کی روايات موجود ہيں؛ اس حوالے سے  کہ ہمارے يہ بارہويں امام(ع) غائب ہيں يا حاضر ؟ حالتِ ظہور ميں ہيں يا غيبت ميں؟ يہاں تک کہ ہم پہنچتے ہيں اور عصرِ غيبت سے بہت نزديک کے زمانے کا جائزہ ليتے ہيں. اب ان آخری تين آئمہ(ع) بالخصوص امام حسن عسکری(ع) کی اصلی ذمہ داری کيا تھی؟ شيعہ تقريبا دو سو سال سے سيکھ چکے تھے کہ کس کے ساتھ رابطہ برقرار کريں ؟ خود امام (ع) کے ساتھ ، لوگ آپ(عليھم السلام) کی خدمت ميں حاضر ہوتے تھے اور اپنے سوالوں کے جواب دریافت کرتے تھے. پس ان آخری تين آئمہ(ع) کی اصلی ذمہ داری کيا تھی ؟ کس چيز کے ليے مقدمہ فراہم کريں؟ اس چيز کے ليے کہ آيا شيعہ تيس چاليس سال کے بعد اپنے امام(ع) کے ساتھ براہ راست رابطے ميں ہوں گے يا نہيں ؟ پس ضروری تھا کہ آپ(عليھم السّلام) بنيادی نوعيت کے کچھ کام انجام ديتے .

    توجہ کريں؛ پہلا کام : ضروری تھا کہ آپ(عليھم السلام) اپنے شيعوں کو يہ سمجھا ديتے  کہ اگر ہم نہ ہوں تو تم لوگوں کے ليے فکری اور عقائدی مشکلات اور  مسائل  بہت زيادہ پيچيدہ ہو جائيں گے اس کے ليے خود کو تيار کرو. اس وقت معصوم امام(ع) موجود تھے ہر دو يا تين ماہ کے بعد ان کی خدمت ميں حاضر ہو کر سوال کر ليا کرتے تھے .اب سوال کيا جاسکتا ہے يا نہيں ؟ نہيں اب راستہ بند ہو چکا ہے. پس ضروری تھا کہ آئمہ(ع) ان کو آمادہ کرتے کہ تمہيں مشکلات پر صبر و تحمل سے کام لينا ہے يہاں تک کہ امام (عج) ظہور فرمائيں .جيسا کہ ابھی آپ گھر ميں ہيں پھر گھر چھوڑ کر کہيں باہر (کے ملک ميں) چلے جاتے ہيں؛ (گھر والوں) کو کہتے ہيں: ديکھو! ميرے بعد بڑی مشکلات پيش آئيں گی. وہی کام جو امام حسين(ع) نے کيا جب آپ (ع) نے بی بی زينب(ع) سے گفتگو کی اور فرمايا کہ ہماری شہادت کے بعد آپ پر يہ مشکلات آنے والی ہيں. پس صبر و تحمل سے کام لينا اب ايک دن ، دو دن ،  ايک ہفتہ، دو ہفتے، چاليس دن ، دو ماہ جناب ايک سال ليکن اب ايک ہزار دو سو سال ہو چکے ہيں کہ امام(عج) سے ہمارا رابطہ منقطع ہے،ضروری ہے کہ صبر کريں ، منصوبہ بندی کريں. يہ وہ چيز تھی جس کے ليے آئمہ(ع) بالخصوص امام حسن عسکری(ع) نے آمادہ کرنا تھا ۔ملاحظہ فرمائيں! کس قدر سنگين ذمہ داری ہے ليکن افسوس کہ اس وقت شيعہ ثقافت ميں يہ چيز نظر  نہيں آرہی. يہ پہلا مطلب؛ ميں اس کو مزيد واضح نہيں کر سکتا ورنہ اس ميں بہت سی چيزيں ہيں .

    جناب دوسرا مطلب؛ اس پر اچھی طرح توجہ کريں. مطلب دوّم : "کان ينبغی ان يحتجب عن قواعدہ الشعبيۃ” (ضروری تھا کہ عوام الناس سے پوشيدہ رہيں)، يعنی آيا شيعوں کے ساتھ اپنے رابطے کو وسعت ديتے يا کم تر کرتے؟ کيوں؟! تاکہ شيعہ تيار ہو جائيں کہ اگر کل انہوں نے امام(عج) کو نہ ديکھا تو ان کا انکار ہی  نہ کر ديں اور يہ کہنے لگيں کہ بخدا ہم نے تو تيس چاليس سال سے  امام(عج) کو نہيں ديکھا.پس يہ مشق ضروری تھی لہذا جيسا کہ ہم نے  مقدمے ميں اشارہ کيا ہے ، کيا ضرورت اس امر کی تھی کہ امام (ع) بيٹھ کر درس ديتے اور شيعوں کے ساتھ ملاقاتيں کرتے يا  اس چيز کی تھی کہ لوگوں سے خود کو مخفی رکھتے؟ کيا کرتے ؟ مخفی رکھتے. اور شيعوں کے ساتھ کس طرح رابطہ برقرار کرتے ؟ براہ راست يا بالواسطہ؟ واسطے کے ذريعے ، براہ راست نہيں تھا. يہاں سے خواص نے کام کرنا شروع کيا.

    سوّم يہ کہ اگر آپ "وکالت” سے مربوط کتابوں کا مطالعہ کريں، تو آپ ديکھيں گے کہ نظام وکالت درحقيقت اہلبيت(ع) کے ان آخری چاليس پچاس سالوں ميں زندہ ہوا ہے. یعنی زمانہ غيبت ميں امام (عج) کے ساتھ رابطہ کس طرح ہونا چاہيے؟ محض واسطہ نہيں بلکہ وکالت اور نيابت . وہی نيابت عامہ جسے اس وقت علما ذکر کرتے ہيں؛ کی دليل يہ ہے. کيونکہ اہل بيت(ع) نے خود يہ نظام وضع کيا ہے کہ شيعوں کا آئمہ(ع) کے ساتھ رابطہ کيسے ہونا چاہيے ؟ وکلا کے ذريعے ہو، نطامِ وکالت. لہذا واقعا ميں سمجھتا ہوں کہ وہ ذمہ داری جو ان آخری تين آئمہ (ع)؛  امام جواد ، امام ہادی اور امام عسکری(عليھم السّلام) پر تھی، بہت زيادہ سنگين تھی. کيونکہ یہ سابقہ طريقہ کار کے برخلاف تھی. وہ سابقہ انداز يہ تھا کہ درس و تدريس کا سلسلہ ہوتا تھا اگر اجازت نہيں ملتی تھی تو درس نہيں ديتے تھے. ليکن ان آئمہ (ع) نے اپنے شيعوں کو تيار کرنا تھا تاکہ وہ اس چيز کو قبول کر ليں.

    ہميں اہل بيت(ع) کے بارے ميں ان نکات کو اچھی طرح سمجھنا چاہئيے اور ان کے زمانی ،  سياسی،  فکری، ثقافتی حالات و واقعات کا اچھی طرح مطالعہ کريں پھر ديکھيں کہ آپ(عليھم السلام) پر جو ذمہ داری تھی؛ وہ کيا تھی ؟

    • تاریخ : 2017/02/11
    • صارفین کی تعداد : 939

  • خصوصی ویڈیوز