مقالات و آراء

  • خلیفہ دوّم کی خانہ زہرا(ع) کو جلا ڈالنے کی دھمکی

  • يہ نکتہ بھی ذکر کر دوں جو بہت اہم ہے اور ان سوالات ميں سے ايک کا جواب ہے جو تفصيل سے پوچھے جاتے ہيں۔ يہی گھر ہے کہ پيغمبر(ص) جس کے دروازے پر کھڑے ہوتے تھے اور اس کے دونوں پٹوں کو پکڑ کر … "يأخذ بعوادتي الباب و يقول: انما يريد اللہ "(پٹوں کو پکڑ کر فرماتے تھے :”انما يريد اللہ”)۔ يہ وہی دروازہ ہے کہ يقينا صحابہ نے ايک يا دو يا دس بار يہ منظر ديکھا ہو گا يا نہيں ؟! يعنی آيا ممکن ہے کہ چھ ماہ تک پيغمبر(ص) نماز صبح کے وقت وہاں ٹھہرتے ہوں اور آنے والے صحابہ جو پيغمبر (ص) کی اقتدا ميں باجماعت نماز ادا کرتے تھے؛ انہوں نے اس منظر کو نہ ديکھا ہو!! وہ نہيں کہہ سکتے کہ جناب ہم نے نہيں ديکھا اسی دروازے کو …!!!۔اب آپ کو سمجھ آئے گی کہ مصيبت کس قدر بڑی تھی! ابن ابی شيبہ کی المصنف؛ میں ہے کہ عمر نے اسی دروازے اور اسی گھر کو جلانے کی دھمکی دی کہ جہاں پيغمبر چھ ماہ تک آ کر کھڑے ہو کر فرماتے: "اہل البيت !اہل البيت!”؛ انہوں نے کيا کام کيا؟ کس روایت کے ذریعے حجّت قائم کی جا سکتی ہے ؟روايت کو کيسا ہونا چاہئيے؟ ہم کہہ چکے ہيں کہ روايت کو معتبر ہونا چاہيے، صحيح ہونا چاہيے، کيسا ہونا چاہيے؟ صريح اور مجمع عليہ؛ جی ہاں! ان سب خصوصيات کو ہونا چاہيے۔ اور يہ روايت ان صفات کی حامل ہے، کيا ہے؟
    "قال فلما خرجَ عمر جاوھا فقالت تعلمون” کہتے ہيں: (جب عمر نکلا تو يہ لوگ آپ (عليھا السّلام) کی طرف آئے اور آپ(ع) نے سوال کيا:کيا تم جانتے ہو)؛عمر آيا ، سقيفہ ميں اوّل کا انتخاب ہونے کے بعد کچھ لوگ جمع ہوئے تھے، اب کيا کرنا چاہ رہے تھے يہ ايک الگ بحث ہے! "فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتی دخل علی فاطمۃ فقال"( جب عمر بن الخطاب کو معلوم ہوا تو باہر نکل آيا يہاں تک کہ سيدہ فاطمہ(ع) کے گھر پہنچا اور کہنے لگا)”يا بنت رسول اللہ صلی اللہ عليہ و الہ و سلم واللہ ما من أحد أحب إلينا من أبيك"( اے دخترِ رسول! خدا کی قسم آپ کے والد گرامی سے بڑھ کر ہميں کوئی محبوب نہيں ہے )،”وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك"(اور ہمارے نزديک آپ (ع) کے والد گرامی(ع) کے بعد آپ سے بڑھ کر کوئی محبوب نہيں ہے)”وأيم اللہ ما ذاك ” يہ قسم کھا کر کہہ رہا ہے؛ کون ؟ خليفہ دوّم !”وايم اللہ ماذاک بمانعي"(مگر خدا کی قسم! يہ چيز مجھے نہيں روک سکتی)يہ خيال نہ کريں کہ دخترِ پيغمبر(ص) ہونے کے ناطے آپ کی جو ہمارے نزديک قدر و منزلت ہے (وہ مجھے روک سکے گی)۔ کيونکہ روايت کا مقدّمہ يہی ہے اب ميں يہ نہيں کہنا چاہتا کہ يہ بات ظاہری تھی يا واقعی اور درست تھی! ميں ابھی اس ميں بحث نہيں کر رہا۔”ما ذاك بمانعي إن اجتمع ھؤلاء النفر عندك "اس وقت ميرا شاہدِ مثال يہ ہے کہ اس نے کہا:(اگر يہ افراد آپ کے ہاں جمع رہے تو ميرے ليے آپ کی قدر و منزلت اس سے مانع نہيں ہو گی) "إن أمرتھم أن يحرق عليھم البيت"، (کہ ميں اپنے ساتھيوں کو حکم نہ دوں کہ ان کو گھر سميت جلا ڈاليں!) کون سا گھر؟ يہی گھر کہ جس کا ذکر سورہ احزاب کی آيت نمبر33 ميں ہوا ، يہی گھر !اس کے باوجود کہ قرآن فرما رہا ہے : "انما يريد اللہ …” اور پيغمبر(ص) اس انداز سے اس گھر کی اہميت کے قائل ہيں اور واقعا اس طرح سے اس گھر کی عظمت کے قائل ہيں؛ وہ کہتا ہے کہ ميرے ليے اہم نہيں ہے کہ پہلے کی خلافت کے ليے اس قرآنی گھر کے ساتھ کيا کروں۔
    اب وہ کہتے ہيں کہ جناب ! اس نے يہ نہيں کہا ہے؛ ميں آپ(علیھا السّلام) سميت گھر کو جلاؤں گا بلکہ کہا کہ ان سميت گھر کو جلا دوں گا۔ فی الحال ميری بحث اس ميں نہيں ہے ميری بحث اس بيت ميں ہے جہاں پيغمبر اکرم(ص) کھڑے ہوتے تھے؛ کيا دوسرے خليفہ کو اس کا احترام کرنا چاہيئے تھا يا نہيں؟اب شايد آپ کہيں کہ آغا يہ تو محض دھمکی تھی!! توجہ کريں کہ يہی وجہ ہے کہ "احمد بن حنبل” جب اس روايت تک پہنچا تو ديکھا کہ پوری روايت نقل نہيں کر سکتا پس اس نے روايت پر قينچی چلا دی ، روايت کو دائيں بائيں سے کاٹ ديا۔اس نے "فضائل الصحابہ” ميں اس روايت کو ذکر کيا ہے، ليکن روايت کی مکمل تحريف کر ڈالی ہے۔
    کتاب”فضائل الصحابہ”، جز اوّل،پبلشر : دار ابن الجوزی ،صفحہ 445اوّل؛ حديث 532 : "لما بويع لأبي بكر بعد رسول اللہ كان علي والزبير يدخلان علی فاطمۃ بنت رسول اللہ فيشاورونہ” (وفات رسول خدا(ص) کے بعد جب ابو بکر کی بعيت کی گئی تو علی(ع) اور زبير سيدہ فاطمہ دخترِ رسول اللہ(ص) کے پاس آئے تاکہ ان کے ساتھ مشورہ کريں )، "فيشاورونھا فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب فدخل علی فاطمۃ فقال : يا بنت رسول اللہ "(جب عمر ابن خطاب کو پتہ چلا تو وہ حضرت فاطمہ (ع) کے پاس آيا اور کہنے لگا : اے دخترِ رسول خدا(ص) )”واللہ ما من أحد من الخلق أحب إلينا من أبيك"( آپ کے والد گرامی (ص) سے بڑھ کر ہميں کوئی محبوب نہيں ہے )”وما أحد من الخلق بعد أبيك منك أحب إلينا منک"( اور ہمارے نزديک آپ کے والد گرامی (ص) کے بعد آپ (ع) سے بڑھ کر کوئی محبوب نہيں ہے )”وکلّمھا"( اس نے آپ سے بات کی)؛ کيا کہا؟ يہاں سے احمد ابن حنبل نے کيا کيا ؟ روايت کو سينسر کر ديا۔کيوں؟ کيا آپ جانتے ہيں يا نہيں؟ ميں بعيد سمجھتا ہوں کہ اکثريت اس بات کو جانتی ہو۔ احمد ابن حنبل "متوکل عباسی” کا تعليمی مشير تھا۔ اور متوکل کو تو سب جانتے بھی ہيں کہ اہل بيت(ع) کے ساتھ کتنا بغض رکھتا تھا۔کيونکر ممکن تھا کہ وہ ايسی بات کہہ ديتا جو اہل بيت(ع) کے فائدے ميں ہوتی اور ان کے نقصان ميں! اب "وکلّمھا” اسی "کلّمھا” کا کيا مطلب ہے؟ يعنی اس نے دھمکی دی کہ اس گھر کو ….! يہاں پر وہ کہتا ہے کہ "وکلّمھا” اور بس!!، پھر کہتا ہے کہ : علی(ع) اور زبير حضرت فاطمہ (ع)کے پاس آئے پس آپ(ع) نے انہيں کہہ ديا: يہاں سے چلے جاؤ! ہميں مشکل ميں مت ڈالو!يہ اسی "فضائل الصحابہ” ميں موجود ہے۔روايت کے بارے ميں بھی کہتا ہے کہ سند ميں مذکور تمام راوی ثقہ ہيں سوائے ايک شخص کے۔ اور ہمارے نزدیک بھی يہ روايت صحيح ہے، معتبر ہے اور ہم نے اپنے مقام پر "المصنّف” کی اس روايت کے تمام راويوں کو ثقہ اور سند کو صحيح ثابت کيا ہے۔

    • تاریخ : 2017/02/25
    • صارفین کی تعداد : 1084

  • خصوصی ویڈیوز