مقالات و آراء

  • امامت کے بارے میں صاحبِ جواہر (رہ)کے نظریات

  • ميں نے مذہب کے ايک بزرگ فقيہ اور شيخ جو بلاشبہہ "مرحوم صاحب جواہر(رہ)” ہی ہيں؛ کی ايک بہترين ،دقيق ترين اور عميق ترين عبارت ديکھی ہے، ميری يہاں پر مراد فقاہت کا دقيق معنی ہے۔ کتاب "جواہر” کی جلد نمبر 13 ، صفحہ نمبر 73 پر يہ فرماتے ہيں :انصاف يہ ہے کہ ہم ان ہستيوں (عليھم الس‍لام) کی طرف يہ نسبت دينے کی جسارت نہ کريں ۔يعنی ہم ان کی طرف سہو يا (نماز کے وقت) سوئے رہ جانے کی نسبت نہيں دے سکتے۔ نہ صرف پيغمبر (ص) کی طرف، بلکہ پيغمبر(ص) اور آئمہ (عليھم افضل الصلوة و السلام) دونوں کی طرف۔
    کيوں؟ کہتے ہيں:ان آيات اور روايات کی وجہ سے جو ہم تک پہنچی ہيں جو پيغمبر اور آپ(ص) کی عترتِ طاہرہ کے تمام تر ناپاکيوں اور گناہوں سے منزّہ ہونے پر مبنی ہيں اور تمام برائيوں اور عيوب سے منزّہ ہونے پر اور پست قول و فعل اور لايعنی گفتار و کردار سے عصمت پر اور ان کے بلند ترين مراتبِ کمال تک رسائی پر اور ان کی تمام احوال و افعال ميں دشمنوں سے برتری پر اور يہ کہ ان کی آنکھيں سو جاتی ہيں ليکن ان کے قلب بيدار رہتے ہيں اور يہ کہ نيند اور بيداری ميں ان کی حالت ايک جيسی ہوتی ہے اور نيند، ان کے ادراک اور شعور کو تبديل نہيں کرتی اور يہ کہ وہ ان سب چيزوں کا علم رکھتے ہيں جو ابتدائے زمانہ سے آج تک واقع ہو چکی ہيں يا روز آخر تک واقع ہوں گی اور يہ کہ وہ (عليھم السلام) لوگوں کے اعمال پر شاہد ہيں اور يہ کہ دن اور رات کے فرشتے ، پيغمبر کے ہمراہ نمازِ صبح ادا کرتے ہیں ۔ فرشتے ہر نماز کے وقت آئمہ(ع) کے پاس آتے تھے اور کوئی ايسا دن ، کوئی لمحہ اور نماز کا کوئی ايسا وقت نہيں تھا مگر يہ کہ وہ (عليھم السلام) انہيں بلاتے تھے تاکہ ان کے ساتھ نماز پڑھيں اور يہ کہ انہيں روح القدس کی تائيد حاصل تھی جو ان کو آگاہ اور ثابت قدم رکھتا تھا اس دنيا کی سختياں انہيں غمزدہ نہيں کرتی تھيں اور لہو و لعب، نيند اور غفلت ان پر طاری نہيں ہوتی تھی اور وہ زمين کے شرق و غرب کی چيزوں کو ديکھتے تھے۔
    ان کے علاوہ ديگر بہت سے فضائل ہيں، جنہيں خدا کے علاوہ کوئی نہيں جانتا يہ مرحوم صاحبِ جواہر(رہ) کا عقيدہ تھا ۔اگر آپ سوال کريں کہ کيا آپ کا بھی يہی عقيدہ ہے؟ تو ميں کہوں گا: ميرا بھی يہی عقيدہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آپ کہيں گے:اچھا تو علی اللہ کے قائل ہو جائيں اور قصہ ختم! نہيں، عزيزو! جو لوگ کہتے ہيں يہ غلو ہے ، وہ لوگ خداوند متعال کی عظمت و اہميت ميں کمی کرتے ہيں ۔ ان کا خيال ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس علم غيب ہوتو وہ ربّ العالمين بن جائے گا۔ نہيں عزيزو! آپ کا مسئلہ يہ ہے کہ آپ کی نظروں ميں خداوند متعال کی ذات چھوٹی ہے اور آپ نے يہ تصور کر ليا کہ اگر مخلوق گزشتہ کا علم رکھتی ہو تو وہ ربّ العالمين ہو جائے گی۔ توحيد کی معرفت ميں مسئلہ ہے ، لہذا ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنی توحيد کو پختہ کريں۔ اسی وجہ سے امير المومنين(ع) فرماتے ہيں: دين کا آغاز، خدا کی معرفت سے ہوتا ہے اگر معرفت حاصل ہو گئی تو باقی مسائل بھی حل ہو جائيں گے۔

    • تاریخ : 2017/03/25
    • صارفین کی تعداد : 1070

  • خصوصی ویڈیوز