مقالات و آراء

  • آیت اللہ حیدری کی نظر میں دین فہمی کی راہیں اور قسمیں (۳)

  • بحث کے مفروضات اور منہج
    گزشتہ ابحاث میں پیش کردہ مسئلے ( دین فہمی میں قرآن اصل ہے یا روایات ؟!) کے جواب میں کچھ مختلف اور حتی متقابل مفروضے اور نظریے پیش کیے گئے ہیں کہ جن کی طرف آگے چل کر اشارہ کیا جائے گا اور آخرمیں ہم ان میں سے اپنے نظریے کا انتخاب کریں گے ۔
    پہلا مفروضہ : دین فہمی کا قرآن کریم میں منحصر ہونا (نظریۃ الاکتفاء بالقرآن وحدہ لا غیر)
    اس روش کے مطابق دین فہمی کے لیے قرآن کریم کافی ہے! اس نظریے کے قائل افراد کہ جو "قرآنیون” کے نام سے مشہور ہیں ، کا بنیادی دعویٰ یہ ہے کہ "قرآن و کفی” ۔ قابل ذکر ہے کہ یہ علمی فکر پاکستان سے شروع ہوئی ہے اور اس حوالے سے احمد صبحی منصور نے "القرآن و کفی؛ مصدرا للتشریع الاسلامی” کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے ۔ مختصر یہ کہ اس گروہ کے مدنظر اسلام کو "اسلام القرآن” کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ اس نظریے کے قائل افراد اپنے دلائل رکھتے ہیں ، منجملہ وہ کہتے ہیں : خداوند متعال نے فقط "قرآن” کو ہر قسم کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ رکھنے کا وعدہ اور ضمانت دی ہے نہ کہ روایات کی حفاظت کا ؛ لہذا جعل ، رد و بدل ، اشتباہ ، تصحیف و تقطیع وغیرہ سے دوچار ہونے کی وجہ سے احادیث بالکل قابل اعتماد اور لائق استناد نہیں ہے ۔
    ۲ دوسرا مفروضہ : دین فہمی کا روایات میں منحصر ہونا ( نظریۃ الاکتفاء بالحدیث وحدہ لا غیرہ)
    دوسرا نظریہ وہی "اخباریوں” والا ہے ۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے علماء کے نقطہ نظر سے دین کی شناخت میں بنیادی مآخذ روایات ہیں نہ کہ قرآن کریم ، کیونکہ قرآن کے مخاطب فقط اہل بیت (ع) ہیں اور ہم عام اور غیر معصوم افراد قرآن کو –روایات کے بغیر – نہیں سمجھ سکتے ۔ اخباری اپنے دعوے کے اثبات کے لیے اکثر وبیشتر اس حدیث سے استناد کرتے ہیں : «إِنَّمَا یَعْرِفُ الْقُرْآنَ مَنْ خُوطِبَ بِه‏». (کلینی، الکافی، ج ۱۵، ص ۶۹۹).
    محمد امین استرآبادی کا نطریہ :
    بطور نمونہ ملا محمد امین استر آبادی اپنی کتاب "الفوائد المدنیۃ” کے صفحہ نمبر ۲۵۴پر کہ جہاں "حدیث ثقلین” کے بارے میں بحث کرتے ہیں ، کہتے ہیں اگرچہ روایت کے متن میں آیا ہے کہ ” ما إن تمسّکتم بهما ” یعنی قرآن اور عترت ہر دو کے ساتھ تمسک ، لیکن ہمیں فقط اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ درنتیجہ قرآن وعترت دونوں کے ساتھ تمسک ہو جائے ! «و معنى الحدیث [الثقلین] کما یستفاد من الأخبار المتواتره أنّه یجب التمسّک بکلامهم»؛ حدیث ثقلین کا معنی جیسا کہ متواتر روایات سے استفادہ ہوتا ہے؛ یہ ہے کہ ان کے کلام سے تمسک واجب ہے۔
    (استرآبادی، محمد امین، الفوائد المدنیه، ص ۲۵۴).
    استر آبادی صراحت سے کہتے ہیں کہ تمسک "بھم” ہونا ضروری ہے؛ یعنی اہلبیت(ع) کے کلام کے ساتھ نہ کہ "بھما” جو قرآن و عترت دونوں کی طرف پلٹ رہی ہے ! وہ مزید کہتے ہیں : «إذ حینئذ یتحقّق التمسّک بمجموع الأمرین. و السرّ فیه: أنّه لا سبیل‌ إلى فهم مراد اللّه إلّا من جهتهم علیهم السّلام». (ایضا، ص ۲۵۵).کیونکہ اس صورت میں دونوں کے ساتھ تمسک حاصل ہو جائے گا۔ اس کا راز یہ ہے کہ اللہ کے مقصود کو سمجھنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے ان کے۔
    وہ حتی قرآن و روایات دونوں کی طرف رجوع پر صراحت کے ساتھ دلالت کرنے والی روایت کی بھی ایسی تشریح کرتے ہیں کہ آخر کار روایات کی طرف رجوع اصل قرار پاتا ہے اور قرآن کے ساتھ تمسک کی عملی طور پر نفی ہو جاتی ہے۔ یہ حال اس روایت کا ہے تو ان کے سامنے ان روایات کو پیش کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی جن میں اس طرح کی صراحت نہیں ہے۔
    جالب یہ ہے کہ استر آبادی اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور یہ دعویٰ کر ڈالا حتی اگر پیغمبر اکرم(ص) سے بھی کوئی روایت پہنچی ہو – خواہ متواتر ہو- تو اس کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے ؛ مگر یہ کہ اہل بیت (ع) نے اس کی تائید کی ہو : «ومن المعلوم أنّ حال الکتاب و الحدیث النبویّ لا یعلم إلّا من جهتهم علیهم السّلام، فتعیّن الانحصار فی أحادیثهم علیهم السّلام». (ایضا، ص ۵۹).

    یہاں سے ہی ہمارے لیے مشخص ہو جاتا ہے کہ اخباری کیوں متاخرین کی کتابوں کو معتبر ماننے پر مجبور ہوئے ؟ کیونکہ ایک طرف تو وہ قرآن کی طرف رجوع کا باب پہلے سے ہی بند کر چکے تھے- اب سبب جو بھی ہو ، جیسے اس کے ناقص ہونے یا اس کو سمجھنے کے عدم امکان کا عقیدہ وغیرہ !- اور دوسری طرف اگر وہ حدیثی منابع میں رجالی مبانی ، روایات کی جرح و تعدیل اور تصحیح و تضعیف کا استعمال کرنا اور احادیث میں اشکال اور بحث و تمحیص کا باب کھولنا چاہتے تو اس صورت میں پھر کوئی مآخذ بھی یقینی اور قطعی الصدور باقی نہ رہتا کہ اس کے ذریعے دین الٰہی کی شناخت حاصل ہو سکے۔ اسی وجہ سے سخت گیر اور انتہا پسند اخباریوں نے آ کر کتب اربعہ کی تمام روایات کو قطعی اور متواتر قرار دیا ۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ اخباری اس جہت سے کہ قرآن کے اصل ہونے اور اس کے اعتبار کو ساقط کر چکے تھے ، فطری سی بات تھی کہ نفسیاتی لحاظ سے – خواہ وہ خود آگاہ نہ ہوں- انہیں قرآن کا متبادل تلاش کرنا ہی تھا تاکہ اس منبع کے ذریعے دین خدا کی یقینی شناخت حاصل کر سکیں ۔اس گروہ نے اپنے تئیں سوچا کہ اگر کتب اربعہ – خاص کر اصول کافی- کی روایات کو ظنی مان لیا جائے تو مکتب اہل بیت (ع) کی بنیاد بھی ظنی اور غیریقینی ہو جائے گی ، حالانکہ قرآن ظن اور گمان پر مبنی عقیدے سے منع فرماتا ہے :” «إِنَّ الظَّنَّ لا یُغْنی‏ مِنَ الْحَقِّ شَیْئ» (یونس/ ۳۶). "اسی وجہ سے ان کا خیال ہے کہ کتب اربعہ کی تمام روایات صحیح اور معتبر ہیں تاکہ مکتب اہل بیت (ع) کی حقانیت اور قطعیت کے حوالے سے آسودہ خاطر ہو جائیں۔
    علامہ مجلسی کے نظریے کی وضاحت
    مذکور بالا نظریے کے مقابلے میں علامہ مجلسی جیسے میانہ رو اخباری بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ یہ نظریہ کہ کتب اربعہ کی تمام روایات یقینی اور متواتر ہیں ، قابل قبول نہیں ہے ۔ لیکن یہ دعویٰ ممکن ہے کہ یہ روایات صدور کے لحاظ سےقابل اطمینان ہیں : «لا اشکال فی الإطمئنان بالصدور». علامہ مجلسی بعض لوگوں کے تصور کے برخلاف، تمام روایات(خصوصا کافی کی احادیث)کے اہل بیت (ع) سے صادر ہونے پر یقین رکھتے ہیں ۔
    انہوں نے یہ بات کتاب "مرأٓۃ العقول” کے مقدمہ میں ذکر کی ہے ۔
    اب بعض افرد مجھ پر یہ اشکال کرتے ہیں کہ آپ علامہ مجلسی کی طرف جس بات کی نسبت دے رہے ہیں وہ درست نہیں ہے ؛ کیونکہ اگر وہ اصول کافی کی تمام روایات کو قبول کر لیتے تو انہوں نے صحیح ، حسن ، موّثق اور ضعیف کی بات کیوں کی ہے؟! دوسرے الفاظ میں ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ روایات کے صحیح یا ضعیف ہونے کی بحث بنیادی طور پر اصولیوں کے مبانی میں سے ہے اور اخباری اس قسم کے موضوعات میں بالکل وارد نہیں ہوتے ، پس معلوم ہوتا ہے کہ علامہ مجلسی اصولی تھے !
    جاری ہے …….
    اگلے حصے میں اس اشکال کا جواب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا !!

    • تاریخ : 2017/05/21
    • صارفین کی تعداد : 1212

  • خصوصی ویڈیوز