مقالات و آراء

  • تقویٰ کی اہمیت

  • تقویٰ کی اہمیت کے بارے میں  قرآن مجید کی آیات کو بیان کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ تقویٰ کے لغوی معنی و مفہوم کی طرف  اشارہ کریں ۔

    تقویٰ کا لغوی معنا

    مفردات میں راغب اصفہانی لکھتے ہیں :

    [وقی ، وقایہ ]یعنی کسی شئے کی  ضرر سے اور ہر اس چیز سے کہ جس سے اُسے نقصان کا اندیشہ ہو ، حفاظت کرنا ۔ قرآن کریم کی  آیات میں  آیاہے:

     فوقاھم اللہ : خدا تعالیٰ نے انہیں محفوظ کیا ۔

    و وقاھم عذاب السعیر : انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لیا۔

    و ما لھم من اللہ من واق : کوئی انہیں خدا کے غضب سے نہیں بچا سکتا ۔

    ما لک من اللہ من ولی و لا واق :خدا کے سوا تمہارا کوئی سرپرست اور محافظ نہیں ہے ۔

    قوا انفسکم و اہلیکم نارا :خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ۔

    تقویٰ یعنی اپنے آپ کو  ہر اُس چیز سے جس میں خوف اور پریشانی ہو بچانا اور محفوظ کرنا ہے۔ دینی متون اور شرعی مفاہیم میں تقویٰ سے مراد خود کو گناہ کے عوامل سے دور رکھنا اور ناروا اعمال سے بچانا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر بعض مباح اعمال سے بھی چشم پوشی کرنا ضروری ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ حلال و حرام کی سرحدیں تو واضح ہیں لیکن جو کوئی کھائی کے اردگرد چکر کاٹے گا ہو سکتا ہے وہ بھی کھائی میں گر جائے  ۔(۱)

    سید حیدر آملی تفسیر "محیط اعظم "میں لکھتے ہیں :

    تقویٰ کے کئی مرتبے اور درجات ہیں اور اہل ظاہر اور اہل باطن کے یہاں اس کی مختلف تعریف ہے :

    اہل ظاہر کی نظر میں تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی معصیت سے دوری اور اجتناب اور اپنی اُن شرعی ذمہ داریوں کو انجام دے جو خدا تعالیٰ نے اس پر واجب کی ہیں۔ یہ لفظ ” اتقا ” سے لیا گیا ہے جس کے معنی رکنا اور پرہیز کرنا ہیں ، اور یہ  تلخیوں کے سامنے رکاوٹ کھڑے کر کے انہیں آنے سے روکنے کے معنا میں ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے : ” اتقی السہم بالترس ”اس نے ڈھال کے ساتھ تیر کو روکا یعنی ڈھال کو تیر کے سامنے رکاوٹ بنایا ۔

    لیکن اہل باطن کی نگاہ میں تقویٰ  اس چیز سے اجتناب ہے جس کے بارے میں ذکر ہوچکا ہے بلکہ حلال نعمتوں اور دنیاوی  لذتوں سےبھی پرہیز کرنا سوائے ضرورت کی مقدار کے اور محرمات کا ارتکاب اور گناہ کو انجام دینا تو دور کی بات ہے۔(۲)

    قرآن مجید کی آیات کے مطالعے  سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مومن انسان گناہ کبیرہ کے مقابل  میں تقویٰ الٰہی کو اختیار کرے تو خدا تعالیٰ اس کے صغیرہ گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

    پروردگار عالم فرماتا ہے :

    ذَالِكَ أمۡرُ ٱللَّہ أنزَلَہُ إلَيۡكُمۡ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّہ يُكَفِّرۡ عَنۡہُ سَيِّأتِہ وَيُعۡظِمۡ لَہُ أَجۡرًا  (جو کوئی تقویٰ الٰہی اختیار کرے ، خدا تعالیٰ اُس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اسے اجر عظیم اسے عطا فرماتا ہے )( طلاق / ٥ )۔

    ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے:

    وَلَوۡ أنَّ أھلَ ٱلۡكِتَابِ آمَنُواْ وَٱتَّقَوۡاْ لَكَفَّرۡنَا عَنۡھُمۡ سَيّأتِھمۡ وَلأدۡخَلۡنَاھمۡ جَنَّاتِ ٱلنَّعِيمِ  (اور اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے اور ہم سے ڈرتے رہتے تو ہم ان کے گناہوں کو معاف کردیتے اور انہیں نعمتوں کے باغات میں داخل کردیتے) ( مائدہ / ٦٥ )۔

    تقویٰ کہ جس کا ذکر ایمان کے بعد ہوا ہے سے مرادمحرمات سے دوری اورایسے گناہوں سے اجتناب کرناہے کہ جیسے شرک اور دوسرے وہ کبیرہ گناہ کہ  جن پر پروردگار نے عذاب کا وعدہ دیا ہے ۔ اسی طرح ” سیئات ” جن کی بخشش کا پروردگار عالم نے وعدہ کیا ہے ، صغیرہ گناہ ہیں ۔

    جیسا کہ پروردگار عالم اس آیت کریمہ میں فرما رہا ہے  :

    إِن تَجۡتَنِبُواْ كَبَآئِرَ مَا تُنۡھوۡنَ عَنۡہُ نُكَفِّرۡ عَنكُمۡ سَيّأتِكُمۡ وَنُدۡخِلۡكُم مُّدۡخَلًا كَرِيماً (اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں باعزّت منزل تک پہنچادیں گے)( نساء / ٣١ )

    ان دو آیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ معصوم ( علیہ السلام ) کے اس فرمان  کہ جو تقویٰ کی لغوی تعریف کے بارے میں آیا ہے کہ” تقویٰ ، محرمات سے دوری اختیار کرنا ہے  ”  میں محرمات سے مراد گناہان کبیرہ ہیں ۔(۳)

     

    ۱) راغب اصفہانی ، المفردات فی غریب القرآن ، ص ٥٣٠ ، مادہ ” وقی ”

    ۲) سید حیدر آملی ، تفسیر المحیط الاعظم ، ج ١ ، ص ٢٧٨

    ۳)  المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٦ ، ص ٣٧ ؛ ج ١٩ ، ص ٣١٧

    • تاریخ : 2017/07/02
    • صارفین کی تعداد : 3843

  • خصوصی ویڈیوز