مقالات و آراء

  • تزکیہ نفس کی اہمیت (۲)

  • دوسرا حصہ :  علم اخلاق کی تعریف سے قبل ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے لفظ "اخلاق” کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کو جان لیں ۔

    پہلا مطلب : لفظ "اخلاق” کی لغوی تعریف

    کتاب "تاج العروس” میں ہے کہ لفظ "اخلاق”، خُلُق اور خُلْق کی جمع ہے، جس کا معنی ہے فطرت ، عادت ، خصلت وغیرہ ؛ یہ انسان کی اندرونی اور باطنی تصویر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کہ جو بصیرت سے درک ہوتی ہے؛ خَلق کے مقابلے میں کہ جو انسان کی ظاہری شکل و صورت کو کہا جاتا ہے اور یہ ظاہری آنکھ کے ساتھ قابل مشاہدہ ہے ۔

    دوسرا مطلب : لفظ اخلاق کی اصطلاحی تعریف

    ابن مسکویہ نے کتاب "تہذیب الاخلاق” میں لکھا ہے کہ اخلاق عبارت ہے:

    "ان راسخ اور پائیدار نفسانی صفات سے جو اس امر کا باعث بنتی ہیں کہ انسان سے آسانی کے ساتھ اور بلا سوچے سمجھے ایسے افعال صادر ہوں جو ان صفات کے شایان شان ہوں”

    تیسرا مطلب : علم اخلاق کی تعریف

    لفظ اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کے واضح ہونے کے بعد خود علم اخلاق کی تعریف کا مرحلہ آتا ہے۔

    علامہ طباطبائی، علم اخلاق کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ:

    "علم اخلاق وہ فن ہے جس میں ان انسانی ملکات کے بارے میں بحث  کی جاتی ہے جو نباتی، حیوانی اور انسانی قوا سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ فضیلت کے حامل ملکات اور رذیل ملکات کو پہچانا اور ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکے۔”(المیزان ، ج۱، ص۳۷۰) اور آخر کار انسان ان فضیلتوں سے متصف ہو کر ابدی سعادت پر فائز ہو جائے ۔

    لفظ فن جو مذکورہ بالا تعریف میں وارد ہوا ہے، سے مراد "علم” ہے ، اسی طرح لفظ "ملکہ”، ان صفات کا دوسرا نام ہے جو انسان کی ذات میں راسخ ہوتی ہیں، یعنی وہ صفات جو انسان کے اندر رچ بس چکی ہیں اور جو صفات انسان کی ذات میں راسخ نہیں ہوئیں انہیں "حال” سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

    آیت اللہ سید کمال حیدری، مقدمہ فی علم الأخلاق، ص ۳۳ – ۶۳.

    • تاریخ : 2017/07/08
    • صارفین کی تعداد : 1483

  • خصوصی ویڈیوز