مقالات و آراء

  • انسانی معاشروں کی سعادت و خوشبختی میں توحید کا کردار

  • واضح ہے قانون کی مدد کے بغیر انسانی معاشرے ہرگز سعادت و خوشبختی تک نہیں پہنچ سکتے ۔ دوسری طرف قانون بھی سوائے خدائے وحدہ لا شریک پر پختہ ایمان کے عمومی نہیں ہو سکتا اور اخلاق حمیدہ و پسندیدہ کو اپنائے بغیر ایمان کو پختگی نہیں مل سکتی۔ لہذا ” توحید”  ایسی جڑ اور بنیاد ہے کہ جس پر انسانی سعادت کا شجر پھلتا پھولتا ہے اورپسندیدہ اور نیک اخلاق اس درخت کے شاخ و برگ ہیں ۔ اور یہی شاخ و برگ اسلامی معاشرے میں خوش نما اور میٹھے رسیلے پھل اور پھول پیدا کرتے ہیں ۔

    پروردگار عالم فرماتا ہے :

    أَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ ضَرَبَ ٱللَّہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ أَصۡلُھا ثَابِت وَفَرۡعُھا فِي ٱلسَّمَآءِ (٢٤) تُؤۡتِيٓ أُكُلَھا كُلَّ حِينِۢ بِإذۡنِ رَبِّھا وَيَضۡرِبُ ٱللَّہُ ٱلۡأَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھمۡ يَتَذَكَّرُونَ(٢٥) وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيثَۃٍ ٱجۡتُثَّتۡ مِن فَوۡقِ ٱلۡأَرۡضِ مَا لَھا مِن قَرَارٍ (٢٦)
    کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے (24) یہ شجرہ ہر زمانہ میں حکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے اور خدا لوگوں کے لئے مثال بیان کرتا ہے کہ شاید اسی طرح ہوش میں آجائیں (25) اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے اور اس کی کوئی بنیاد نہ ہو (26) [ ابراہیم / ٢٤ ۔ ٢٦ ]                
    اس آیت شریفہ میں خدا تعالیٰ پر ایمان کو ایک درخت کی مانند قرار دیا گیا ہے کہ جس کی جڑیں مضبوط اور مستحکم ہیں اور بے شک یہ جڑ ” توحید ” ہے ۔ اس کا پھل کہ جو ہمیشہ پروردگار کے ارادے سے پیدا ہوتا ہے، عمل صالح ہے اور  اس کے شاخ و برگ اخلاق حمیدہ جیسے عفت ، شجاعت ، عدالت ، شفقت وغیرہ ہیں ۔
    اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے یہ کہنا پڑے گا کہ انسان کے لیے کمال و سعادت تک پہنچانا اور اس مقصد کو  حاصل کرنا کہ جس کی خاطر اسے خلق کیا گیا ہے صرف انسانی معاشرے میں اوردوسرے افراد کے ساتھ کہ جو زندگی کے مختلف امور میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں ممکن  ہے ۔ انسان اکیلے سب کام انجام نہیں دے سکتا ۔ یہ حقیقت معاشرے میں زندگی گذارنے والے انسان کو ایسےقوانین و ضوابط بنانے پر مجبور کرتی ہے کہ جو افراد  کے حقوق کو محفوظ کرسکیں اور انہیں ضائع ہونے سے بچاسکیں ۔
    دوسری طرف ان قوانین کو بطور دقیق نافذ کرنے کے سزاؤں والے  قوانین بھی بنانے ہونگے کہ جن کی بنیاد پر خلاف ورزی کرنے والوں اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو سزائیں دی جا سکیں اور انہیں کاموں کے برے انجام سے ڈرایا جا سکے ۔
    اسی طرح بعض دوسرے قوانین اور ضوابط بھی ضروری ہیں کہ جو افراد کو اچھے افعال دینے کی ترغیب دلائیں اور اس امر کا وقوع پذیر ہونا  حکومت اور ایسے مقتدر اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے  جو معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات قائم کرے ۔
    اس مقصد تک پہنچنے کے لیے انتظامیہکو پہلے جرم کی شناخت اور اس کی تعریف کرنا ہوگی ۔ اس کے بعد اس کے پاس مجرم کو سزا دینے کی قدرت اور اختیار بھی  ہونا چاہیے اور کتنی ہی حکومتیں ایسی ہیں جو جرائم کو پہچاننے سے عاجز ہیں ورنہ ان جرائم کو روکنا ممکن نہ ہوگا  کیونکہ قوانین و ضوابط خود بخود یہ قدرت نہیں رکھتے کہ وہ جرائم اور قانون شکنی کو روک سکیں اسی طرح اگر کسی حکومت کے پاس اتنی قدرت و طاقت نہ ہو یا وہ معاملات کو سنبھالنے میں کمزوری اور سستی کا مظاہرہ کرے تو مجرمین آسانی کے ساتھ قانون کی گرفت سے فرار کرنے میں کامیاب ہو جائیں  گے ۔ نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ مجرمین حکومت پر غلبہ پا لیں گے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کے اندر قانون شکنی ، برائیاں اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ کا رجحان بڑھ جائے گا ۔ اس سے بھی بدتر حالت اُس وقت ہوتی ہے جب  تمام قدرت و طاقت حکومت کے ہاتھ میں متمرکز ہو جائے اور حکومت کے تمام امور کو اپنے کنٹرول میں لے لے۔
    ایسی صورت میں عوام کمزور ہو جاتے ہیں اور حکومت کی اصلاح اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لیےاس پر دباؤ بڑھانے کی طاقت کھو بیٹھتے ہیں۔ ظالم ، سفاک اور طاغوتی حکمرانوں کی سرگذشت اور عوام کے ساتھ ان کے بے رحم رویے اور نا انصافی پر مبنی سلوک سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں میں ایسی مثالیں نظر آتی ہیں ۔
    اس بنا پر اگر آئین و قانون کی بنیاد عادلانہ ہو اور جزائی قوانین بھی ضروری اور قاطعیت کے حامل ہوں تب بھی حکومتی اعلیٰ حکام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کم ہی قانون کی گرفت میں آتے ہیں اور اُن کے لیے قانون شکنی کرنے اور قانون سے بچ نکلنے کے راستے موجود ہوتے ہیں۔
    یہیں پر ظلم اور معاشرتی برائیوں کو روکنے کے لیے انسان کے پسندیدہ اخلاق جیسے حق طلبی ، انسان دوستی ، عدالت خواہی ، عزت نفس اور شفقت و رحمت وغیرہ کا بنیادی کردار واضح ہوتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں قوانین اور معاشرتی ضوابط انسان کو قانون سے منہ موڑنے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے مگر یہ کہ وہ  اخلاق حمیدہ و پسندیدہ کی بنیاد پر تشکیل پائے ہوں اور اس پر ان کا بھروسہ ہو ۔
    اور صرف اخلاق بھی معاشرے کی سعادت کے لیے کافی نہیں ہیں اور انسان کو نیک اعمال پر نہیں ابھار سکتے  مگر یہ کہ ان کی بنیاد ” توحید ” پر ہو ۔ توحید  اسحقیقت پر ایمان ہے کہ انسان سمیت ساری کائنات ایک ہی ہستی نے خلق کی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے ۔
    وہ ایسا پروردگار ہے کہ اس کے لا متناہی علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور کوئی اس کی قدرت و طاقت پر غلبہ نہیں پا سکتا ۔ وہی ہے جس نے تمام موجودات کو بہترین صورت میں خلق فرمایا ہے اور اُسے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے  وہ بالآخر اِن سب کو اپنی طرف پلٹائے گا اور اِن کا محاسبہ کرے گا ۔ نیک و صالح اعمال انجام دینے والے افراد کو اُن کی خیر خواہی پر جزا عطا فرمائے گا اور بد کاروگنہگار لوگوں کو اُن کے برے کردار کے سبب سزا دے گا  اور یہ دو گروہ نعمات میں یا عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے ۔
    اگر اخلاق ایسے عقیدے پر قائم ہو تو انسان کو ہر وقت صرف مرضی پروردگار کے حصول کی ہی فکر لاحق رہے گی ۔ اور انسان اسی فکر میں رہےگا کہ نیک و صالح اعمال کو انجام دے  یوں تقویٰ انسان کے لیے گناہ کے مقابلے میں ایک باطنی رکاوٹ  بن جائے گا ۔
    اگر اخلاقی مفاہیم توحیدی چشمہ سے سیراب نہ ہوں تو انسان کا مقصد اس فنا ہونے والی دنیا کے متاع کے حصول ، نابود ہو جانے والی لذتیں اور مٹ جانے والے مقام و منصب کے حصول کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١ ، ص ١٥٥  )

                             

    • تاریخ : 2017/07/15
    • صارفین کی تعداد : 903

  • خصوصی ویڈیوز