مقالات و آراء

  • خدا تعالی پرہیز گاروں کا سرپرست ہے

  • وَٱللَّہ وَلِی ٱلۡمُتَّقِینَ (جاثیہ /۱۹)

    قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ خدا وند متعال عدل ، امور خیر کی انجام دہی ، صبر ، ثابت قدمی ، توکل، توبہ ، پاکیزگی وغیرہ جیسی صفات کو پسند فرماتا ہے ۔

    انَّ ٱللَّہ یحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِینَ ((بے خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے)) ( بقرہ / ١٩٥ )

    وَٱللَّہ یحِبُّ ٱلصّٰبِرِینَ ((خدا صبر کرنے والوں کو  دوست رکھتا ہے  ))( ال عمران / ١٤٦ )

    انَّ ٱللَّہ یحِبُّ ٱلَّذِینَ یقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہ صَفّا كَانَّھم بُنۡیانٌ مَّرۡصُوصٌ((جو لوگ اس کے راستے میں فولاد کی دیوار کی طرح ثابت قدمی دیکھاتے ہوئے جنگ کرتے ہیں ، بے شک خدا انہیں دوست رکھتا  ہے)) ( صف / ٤ )

    انَّ ٱللَّہ یحِبُّ ٱلۡمُتَوَكِّلِینَ ((بے شک اللہ توکل ( بھروسہ ) کرنے والوں کو دوست ہے)) ( ال عمران /١٥٩ )

    انَّ ٱللَّہ یحِبُّ ٱلتَّوَّابِینَ وَیحِبُّ ٱلۡمُتَطَھرِینَ ((بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک افراد کودوست رکھتا ہے)) ( بقرہ / ٢٢٢ )

    خدا تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں سے ایک تقویٰ ہے ۔ پروردگار عالم نے اس حوالے سے قران مجید میں ارشاد فرمایا : بَلَیٰ مَنۡ اوۡفَیٰ بِعَھدِہ وَٱتَّقَیٰ فَانَّ ٱللَّہ یحِبُّ ٱلۡمُتَّقِینَ ٧٦ ((ایسا ہے کہ جو کوئی اپنے وعدے کو پورا کرے اور  تقویٰ اختیار کرے تو خدا  تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے)) ( ال عمران / ٧٦ )

    جیسا کہ بعض عرفا نے کہا ہے  اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کے دل سے غفلت کے پردے اور حجاب ہٹادیتا ہے اور اسے قرب الٰہی کے راستے میں قدم رکھنے کی طاقت عطا فرماتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے جو اوصاف بیان کیئے جاتے ہیں  اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا مفہوم و معانی پیدا کرتے ہیں نہ کہ راہ و روش کو مدنطر رکھتے ہوئے  ۔ خدا کی بندوں سے محبت کی علامت یہ ہے کہ بندہ  غرور کی جگہ دنیا سے دوری اختیار کر نے اور عالم نور و ملکوت تک دسترسی حاصل کرنے کی توفیق  حاصل کر لیتا ہے  ۔ خداوند متعال سے انس پیدا کر لیتا ہے اور اس کے غیر سے دور ہو جاتا ہے ۔   جو موجب بنتا ہے کہ انسان کا سارا ہم و غم صرف یہ  ہو کہ وہ کس طرح خدائی بنے۔ (1)

    اگر خدا اپنے بندے سے پیار کرتا ہے تو اس کے تمام امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے  فرمایا : وَانَّ ٱلظّٰلِمِینَ بَعۡضُھمۡ اوۡلِیآءُ بَعۡضٍ وَٱللَّہ وَلِی ٱلۡمُتَّقِینَ ((ستم کرنے والے ایک دوسرے کے دوست ہیں ، جبکہ خدا تعالیٰ پرہیزگاروں کا سرپرست اور مددگار ہے)) ( جاثیہ / ١٩ )

    اس حالت میں اس قسم کے بندے  میں ولایت الٰہی کے اثار اور علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں ۔ اس بارے میں رب العالمین فرماتا ہے :

    الَآ انَّ اوۡلِیآءَ ٱللَّہ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡھمۡ وَلَا ہمۡ یحۡزَنُونَ ٦٢ ٱلَّذِینَ امَنُوا وَكَانُوا یتَّقُونَ ٦٣ لَھمُ ٱلۡبُشۡرَیٰ فِی الۡحَیوٰۃ ٱلدُّنۡیا وَفِی ٱلۡآخِرَۃ لَا تَبۡدِیلَ لِكَلِمَاتِ ٱللَّہ ذَلِكَ ھوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِیمُ ٦٤ ((جان لو کہ اولیائے خدا کو نہ کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں ۔ وہ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے ۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی اور اخرت میں خوشخبری ہے  اللہ  کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ، یہی بڑی کامیابی ہے  )) ( یونس / ٦٢ ۔ ٦٤ )

    یہ ایات شریفہ لفظ ” الا ” کے ساتھ شروع ہو رہی ہیں کہ جسے توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور  ایات میں جو کچھ بیان ہو ا ہے اس کی اہمیت  کو نمایاں کرتا ہے اور اولیائے خدا کی صفات اور خصوصیات  اور ان کی ولایت  کی نشانیاں بیان کر کے اور پروردگار عالم کے ہاں ان کے لیے جس مخصوص اجر کو  مدنظر رکھا گیا ہے کو بیان کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے ۔

    ” ولایت ” کے مختلف معانی بیان کیئے  گئے ہیں لیکن لغت  میں دو چیزوں کے درمیان موجود پردے کا ہٹنا ہے  اور ان دو چیزوں کے درمیان فاصلے کا ختم ہونا ہے ، اس طرح کہ پھر ان دو کے درمیان کوئی حائل باقی نہ رہے ۔ اس کے بعد اس لفظ ” ولایت ” کو بطور استعارہ دو چیزوں   کے آپس میں قرب کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا ۔ یہ قربت خواہ نسبی ہو یا مکانی وغیرہ  ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ ” ولی ”ان دونوں اطراف کے لیے استعمال ہوتا ہے کہ جن کے درمیان ولایت  کا رابطہ ہو خاص طور پر جب طرفین ایک دوسرے کی نسبت ایسی ولایت رکھتے ہوں کہ دوسروں کے ساتھ ان کا ایسا رابطہ و تعلق نہ ہو  ۔

    اسی مفہوم میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کا ” ولی ” اور سرپرست ہے ۔ کیونکہ اس نے اپنی ولایت کے ساتھ اپنے بندوں کے تمام معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے اور انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کو ضروری کاموں کے کرنے کا حکم دیتا ہے اور ناجائز اور برے کاموں سے روکتا ہے اور دنیا و اخرت کی زندگی میں ان کی  نصرت کرتا ہے ۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ہے :

    انَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَٱلَّذِینَ آمَنُوا فِی الۡحَیوٰۃ ٱلدُّنۡیا وَیوۡمَ یقُومُ ٱلۡاشۡھادُ ((بےشک  ہم اپنے پیغمبروں اور جو لوگ جو ایمان لائے ہیں  ان کی  دنیا کی زندگی میں اور جس دن گواہ گواہی کے لیے اٹھیں گے ، مدد کریں گے ۔  )) ( غافر / ٥١ )

    دوسری طرف مومن انسان بھی خداوند متعال کا  ” ولی ” ( بندہ اور پیرو کار ) ہے ۔ کیونکہ وہ پروردگار کے امر و نہی کے سامنے خود کو تسلیم کرتا ہے ۔ ایسا مومن خدا تعالیٰ سے معنوی برکات  جیسے ہدایت ، توفیق اور تائید حاصل کرتا ہے اور آخر کار بہشت اوررضوان الٰہی تک پہنچ جاتا ہے  ۔

    بنا بر ایں اولیائے خدا  مومنین ہیں اور پروردگار عالم خود کو مومنین کی معنوی و روحانی زندگی کا ولی قرار دیتا ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے :

    وَٱللَّہ وَلِی ٱلۡمُؤۡمِنِینَ((     اور اللہ ، مومنوں کا سرپرست ہے ۔ )) ( ال عمران / ٦٨ )

    لیکن اس ایت کے بعد جو ایت ذکر ہوئی ہےاوراس کی تفسیرکر رہی ہے وہ ولایت کو تمام مومنین کو شامل نہیں سمجھتی  ۔ اس لیے کہ ان کے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے بارے میں پروردگار عالم فرما رہا ہے :

    وَمَا یؤۡمِنُ اكۡثَرُھم بِٱللَّہ الَّا وَھم مُّشۡرِكُونَ ((ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں لاتے ، مگر یہ کہ[ ایمان لانے کے بعد ان کے دل میں شرک کا کوئی مرتبہ] پیدا ہو جاتا ہے ۔ )) ( یوسف / ١٠٦ )

    اس بنا پر  بعد والی ایت:  ” الذین امنوا و کانوا یتقون ” ((وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا))؛ ایسے لوگوں کاایمان اور تقویٰ کی خصوصیت کے ساتھ تعارف کرا رہی ہے ۔ اس کے باوجود یہ بتاتی ہے کہ ان لوگوں میں ایمان لانے سے پہلے پائدار تقویٰ موجود تھا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ایت میں پہلے ” امنوا ” کا ذکر  ہواہے پھر ” کانوا یتقون ”” یعنی وہ متقی تھے ، وہ پرہیزگاری کیا کرتے تھے "، کا اس  پر عطف کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایمان لانے سے پہلے پرہیزگاری والے کام انجام دیا کرتے تھے اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ابتدائی ایمان ان کے پہلے والے تقویٰ کی وجہ سے نہیں تھا ، یہ بھی ممکن ہے کہ ایمان اور تقویٰ دونوں اکٹھے ہی وجود میں ائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ تقوا خاص طور پر پائدار تقوا ایمان کے بعد وجود میں آئے ۔

    یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایت ” الذین امنوا و کانوا یتقون ” میں مفہوم  ایمان ، ایمان کے تمام مراتب کو  شامل نہیں ہے ، بلکہ ایمان کا کے صرف اس درجے کی طرف اشارہ  ہے کہ جس میں انسان حقیقی معنی میں اپنے پروردگار کی مرضی کے اگے سر تسلیم خم کر لیتاہے۔ اس کے بعد وہ خود کو ناراض ہونے یا اعتراض کرنے کا حق نہیں دیتا ۔یعنی  قضا و قدر کے تحت اور خدا کے حکم سےجو کچھ اس کی زندگی میں پیش اتا ہے ، اس پر وہ غمگین نہیں ہوتا اورپروردگار کے کسی حکم پر اعتراض نہیں کرتا۔ یہ وہی حقیقی اور کامل ایمان کا مرحلہ ہے کہ جہاں بندگی کا مرتبہ مکمل ہوتا ہے ۔

    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    1) محمد صالح مازندرانی ، شرح جامع لاصول الکافی و الروضۃ ، ج ٩ ، ص ٣٩٩

     

     

    • تاریخ : 2017/08/20
    • صارفین کی تعداد : 959

  • خصوصی ویڈیوز