مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں [سلسلہ وار مباحث(7)]

  • میزبان: میں نے جناب سید سے سیدۃ نساء العالمین (ع) سے متعلق عظیم نبی(ص) کے فرامین کے بارے میں سوال کیا تھا۔ پروگرام گزر چکا لیکن ہم کوئی حدیث نہ سن پائے لہٰذا ہم اس پروگرام کو ایک روایت کے ساتھ معطر کرتے ہیں اور ہم اس کی تفصیلات اور تحقیق کو اگلے پروگرام کیلئے چھوڑے دیتے ہیں ۔۔۔۔
    سید: بہت خوب، تین چار منٹ میں ایک روایت کی طرف اشارہ کروں گا اور اس کے بعد ناظرین کے سوالات سنیں گے، آج رات ہم اس کتاب کو شروع کریں گے اورعزیزان کوشش کریں کہ اس کتاب کو ویب سائیٹوں سے ڈاؤنلوڈ کر لیں؛ کتاب ” فضائل فاطمة الزهراء” مصنف: امام حافظ نیشاپوری۔۔۔۔
    صفحہ نمبر ۳۵ پر کہتے ہیں: اور روایت صحیح ہے کہ رسول اللہ (صلّی اللہ عليہ وآلہ) یہ "وآله وسلم” بین القوسین ہے؛ محقق کہتا ہے کہ میں نے اس کا اضافہ کیا ہے؛ یہ کتاب کے متن میں موجود نہیں ہے؛ روایت کس سے ہے؛ عائشہ بن طلحہ سے، انہوں نے ام المومنین عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: "ما رأيت أحداً كان أشبہ كلاماً وحديثاً من فاطمۃ برسول اللہ (صلّی اللہ عليہ وآلہ)” (میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو فاطمہ سے زیادہ بولنے اور بات کرنے میں رسول اللہ (ص) کے ساتھ شباہت رکھتا ہو)؛ پس آپ (ع) لوگوں میں سے رسول اللہ (ص) کے سب سے زیادہ مشابہ تھیں؛ اس حدیث کو حفظ کر لیں؛ کیونکہ میں اس حدیث کے مضمون و دلالت پر اگلے ہفتے تک نہیں رکوں گا "کانت اذا دخلت” (اور جب وہ وارد ہوتی تھیں) "کانت ": کی تعبیر لغت میں استمرار پر دلالت کرتی ہے یعنی ایک مرتبہ ایسا نہیں ہوا بلکہ جب بھی فاطمہ رسول اللہ (ص) کے سامنے حاضر ہوتی تھیں (جب بھی وہ آتیں تو ان کا استقبال کرتے (اولا) ان کی طرف بڑھتے تھے) ان کیلئے کھڑے نہیں ہوتے تھےبلکہ ان کی طرف بڑھتے تھے یعنی آگے کو بڑھتے؛ اب محترم ناظرین اس قضیے کو ذہن نشین کر لیں۔
    اب، کھڑے ہونے والے کون ہیں؟ سید الانبیاء والمرسلین، امام الاولیاء، افضل المخلوقات، اور ان کا سن مبارک ساٹھ سال ہے؛ اور یہ بابرکت بیٹی بیس سال سے کم کی ہیں؛ ان کا سن مبارک تیرا سال، سترہ سال ہے؛ میں چاہتا ہوں کہ محترم ناظرین تصور کریں اگر باپ کی عمر ساٹھ سال ہو اور اس کی بیٹی آ جائے جس کی عمر بارہ یا تیرہ یا چودہ سال ہو؛ تو شاید اگر بیٹی سلام کرے تو باپ سلام کا جواب بھی نہیں دیتا۔
    اب یہ رسول اللہ (ص) کا اخلاق نہیں ہے، دیکھیے! آپ (ص) نے کیا کام کیا (ان کا استقبال کیا اور ان کی طرف آگے بڑھے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھ کو بوسہ دیا) اللہ اکبر! مسئلہ کیا ہے؛ ایک دو مرتبہ نہیں؛ وہ صرف فاطمہ (ع) کے ہاتھوں کا بوسہ لینے کیلئے جھکتے ہیں۔ آپ واقعے کو تصور کریں (آپ(ع) کے ہاتھ کا بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے)
    میں واقعا ذہنوں کو قریب کرنے کی غرض سے مثال دیتا ہوں؛ ملاحظہ فرمائیں ، اس وقت اگر امت کے ایک مرجع تشریف فرما ہوں اور ان کے پاس کوئی شخص آتا ہے؛ آپ دیکھتے ہیں کہ مرجع اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے ہیں، اس کا استقبال کرتے ہیں، اسے اپنی جگہ بٹھاتے ہیں؛ آپ کیا کہیں گے؟ یہ کہیں گے کہ حتما یہ انسان بڑی شان والا ہے۔اب اگر ہم ڈپلومیسی کی زبان میں بات کریں؛ اگر امریکہ کا صدر یا بڑے منصب کی شخصیات صدارتی کرسی کو چھوڑ کر کسی شخص کا استقبال کریں پھر اس شخص کو اپنی جگہ پر بٹھائیں تو آپ ڈپلومیسی کے اعتبار سے کیا کہیں گے؟
    رسول اللہ (ص) زہرا (س) کے ساتھ ایسا کرتے تھے؛ کیوں؟ کیا ہوا؛
    عزیزو! اس کے ساتھ [مَا ینطِقُ عَنِ الْھوَی إِنْ ھُوَ إِلَّا وَحْی يُوحَی] کے قضیہ کا ضمیمہ کر لیں؛وہ ذاتی خواہش کی بنا پر کچھ نہیں کرتا جو کرتے ہیں وحی کے مطابق ہوتا ہے؛ اور ایسا ہی ہے کیونکہ وہ سید الانبیاء ہیں؛ ان کی سیرت قائم ہو گی جو طول تاریخ میں باقی رہے گی؛ امام نیشاپوری حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کہتے ہیں: پوری توجہ کیجئے؛ مکمل حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے شیخین ؛ صحیحین کے مؤلفین کی شرط کی بنا پر ؛ یعنی بخاری و مسلم کی شرط پر ہے؛ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں اور اس کی تشریح اگلے ہفتے پیش کریں گے۔

    • تاریخ : 2017/09/10
    • صارفین کی تعداد : 1116

  • خصوصی ویڈیوز