مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں [2-2]

  • میزبان: جناب سید! پس ہماری بحث جو فاطمہ زہرا (ع) کی شان اور مظلومیت کے حوالے سے ہے اور اسی طرح اس مظلومیت اور آپ (ع) کی جدوجہد کے اثرات کے حوالے سے ہے؛ اس کے وہ اثرات جو وفات نبی (ص) سے خلافت امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) کی درمیانی مدت پر مترتب ہوئے؛ اس عرصے کے دوران زہرا (ع) کی مظلومیت کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؛ آپ نے گزشتہ پروگرام میں نبی کریم (ص) کی حدیث یا اس نص پر بات کی جس میں منقول ہے کہ نبی (ص) آپ (ع) کا دست مبارک اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا بوسہ دیتے تھے؛ کیا ممکن ہے کہ آپ اس حدیث کی سند اور دلالت کے بارے میں بات کریں؟
    سید: میرے عزیزو! یہ حدیث بڑی سنگین حدیثوں میں سے ایک ہے؛ اور میں ابھی بیان کروں گا کہ ایسا کیوں ہے:
    اولا: کوئی شخص بھی اس حدیث کی سند میں تشکیک نہیں کر سکا؛ یہ بنیادی نقطہ ہے!
    ہاں! بعض نے اس حدیث کے بعض جملوں کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش کی ہے؛ مگر اس حدیث کی سند سے کوئی بھی کھلواڑ نہیں کر سکا؛ اور اس چیز کی دلالت محض اس حدیث کی سند کی عظمت، اہمیت اور قوت پر ہے جیسا کہ ناظرین کو یاد ہو گا کہ ہم نے اسے نقل کیا تھا؛ عزیزوں کو یاد ہو گا کہ ہم نے اس حدیث کو امام حافظ حاکم نیشاپوری کی کتاب فضائل زہراء (ع) سے نقل کیا ہے۔
    یقینا (حاکم نیشاپوری) ناظرین کو یاد ہو گا کہ میں نے پچھلے پروگرام میں حدیث اور علوم حدیث کے حوالے سے اس شخصیت کے مقام پر تفصیل سے بات کی تھی؛ یہ اہم مسئلہ ہے کیونکہ اب ہم بعض کو دیکھتے ہیں اور یہ بلاشبہہ اموی تفکر کے سبب ہے کہ جس کی بنیاد ابن تیمیہ نے ڈالی کہ وہ حاکم نیشاپوری کو اس طبقے کے آخر میں ڈال دیا جائے کہ جن پر علوم حدیث، احادیث پر حکم لگانے اور ان کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا حکم لگانے کے حوالے سے اعتماد کیا جاتا ہے؛ کیوں؟ ان احادیث کی عظمت اور اہمیت کے سبب کہ جنہیں حاکم نیشاپوری نے نقل کیا ہے؛ اگر آپ انہیں وہ قدر و قیمت دیں جو فرض کریں کہ بخاری یا مسلم یا بعض سنن کی ہے؛ تو اسلام اور صدر اسلام کے معارف میں فکری، عقائدی اور تاریخی اعتبار سے تحول ایجاد ہو جائے گا؛ خاص بات یہ ہے کہ ان کی وفات ۴۰۵ ہجری کی ہے؛ یعنی وہ اس سے نزدیک کے حالات سے مکمل طور پر مطلع تھے۔
    میزبان: چوتھی صدی کے اعلام میں سے تھے۔
    سید: جی ہاں! بہت خوب؛ پس میرے عزیزو! میری طرف توجہ کیجئے؛ میں عزیزوں کو گزشتہ بحث کے ساتھ ساتھ فقط کتاب "معرفة علوم الحديث”، تأليف :الحاكم النيسابوري، متوفى ۴۰۵ھجری کی طرف رجوع کرنے کی اپیل کرتا ہوں؛ حافظین کے حواشی کے ساتھ اور اس کی شرح و تحقیق "ڈاکٹر احمد بن فارس ثلوم "نے کی ہے جو جامعہ ملک فیصل کے شعبہ آداب میں تفسیر و قرآنیات کے معاون استاد ہیں؛ میں ایڈیشن کی طرف بھی اشارہ کر دوں تاکہ دوست مراجعہ کر سکیں؛ یہ دوسرا ایڈیشن ہے ۱۴۳۱ھجری کا؛ عزیزو! اس کتاب کے مقدمے میں کہتے ہیں؛ حاکم نیشاپوری کے بارے میں یہ تعبیر استعمال کرتے ہیں: یہ پہلی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ایک ہی تصنیف میں علوم حدیث کو جمع کیا؛ اسی لیے ان کے بارے میں صفحہ نمبر ۱۳ پر کہتے ہیں: "یہ وہی ہیں جنہوں نے اس فن کو علوم حدیث کا نام دیا اور جو ان کے بعد آئے ہیں؛ وہ انہی کی طرز پر کام کر رہے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں” پس وہ ان علوم حدیث کے باپ ہیں جو اس وقت علمائے اہل سنت کے پاس موجود ہیں۔یہ بہت اہم مسئلہ ہے!!
    اس کے باوجود وہ کس چیز کی کوشش کر رہا ہے؟ کہ حاکم نیشاپوری کی قدر و منزلت کو کم کر سکے؛ اسی لیے حاشیہ میں محشی کہتے ہیں: میں نے "مقدمة في دار العلوم” کے نام سے ایک علمی رسالہ دیکھا ہے؛ جس کے محقق” سید احمد حمید” ہیں؛ اور اس کا عنوان ہے: "حاکم”۔
    وہ کہتے ہیں: حاکم کی کتاب کو دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے علوم حدیث کا جائزہ لیا کیونکہ انہوں نے اس علم کا راستہ دکھایا اور جو کوئی بھی بعد میں آیا وہ اس انسان کے چشمہ علم سے سیراب ہوا” یہاں تک کہ عزیزو وہ صفحہ نمبر ۲۷ اور ۲۸ پر کہتا ہے: کچھ اعلام ذکر کرتے ہیں: "ہم نے حافظ اجل کہ جن کے صدق و امانت پر سب کا اجماع ہے؛ کی اس فن میں ایک کتاب "معرفۃ علوم الحدیث” کو دیکھا ہے۔
    جن کی اس فن میں صداقت و امانت پر اجماع ہے۔
    لہٰذا اس شخص کی سطح اس حد تک ہے؛ اور میں بات کو طول نہیں دوں گا کیونکہ وقت تنگ ہے؛ میرے عزیزو! حاکم نیشاپوری اپنی کتاب”فضائل فاطمة الزهراء” تحقيق علي رضا بن عبد الله بن علي رضا، میں کیا کہتے ہیں؛ ہم نے پچھلے پروگرام میں اشارہ کیا تھا کہ نام حقیقی ہے اور محقق بھی حقیقی ہے؛ اس کے صفحہ ۳۵ پر؛
    عزیزو میں روایت کو پڑھتا ہوں؛ حاکم نیشاپوری کی عبارتوں کو ملاحظہ کیجئے؛ کہ جس کی صداقت و امانت پر اجماع ہے؛ کہتے ہیں: "بلاشبہہ روایت صحیح ہے؛ لہٰذا کیا تعبیر ہے؛ روایت کیا ہے؟ صحیح ہے؛ کہ رسول اللہ (ص) آپ (ع) کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے؛ روایت کو عائشہ بنت طلحہ کے واسطے سے ام المومنین عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو کلام اور گفتگو میں فاطمہ (ع) سے زیادہ رسول اللہ (ص) سے مشابہہ ہو؛ اور وہ۔۔۔ عبارات کی طرف توجہ کیجئے؛ اور وہ جب آپ (ص) کی خدمت میں تشریف لاتیں؛ تو آپ(ص) ان کا استقبال فرماتے؛ اور ان کی طرف لپک کر جاتے؛ ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھتے اور آپ (س) کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے اور آپ (ع) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔
    اس حدیث کے متن پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ حاکم نیشاپوری حدیث کے آخر میں کہتے ہیں: یہ حدیث صحیحین کے مصنفین شیخین کی شرط کے مطابق صحیح السند ہے؛ اس کے ساری راوی ثقہ اور جید ہیں؛ محقق (علی بن رضا بن عبد اللہ بن علی رضا) نے اگرچہ اپنی علمی استطاعت کے مطابق یہ کوشش کی ہے کہ اس کتاب میں وارد ہونے والی اکثر احادیث کو ضعیف قرار دے بلکہ وہ حاکم نیشاپوی پر موضوع روایات نقل کرنے کی تہمت بھی لگاتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود وہ اس روایت کی سند میں کچھ نہیں کر سکا اور اسی لیے اس کے بارے میں کہتا ہے: یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی اصل، صحیح مسلم میں ہے؛ اس حدیث کا مضمون وہاں پر موجود ہے لیکن وہ اس کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں کر سکے۔

    • تاریخ : 2017/12/25
    • صارفین کی تعداد : 1520

  • خصوصی ویڈیوز