مقالات و آراء

  • قرآن کریم سے مقاماتِ حضرت فاطمہ زہراء(ع) کا اثبات (۱)

  • اگر میں سیدۃ نساء العالمین بی بی زہراء(ع) کی شان کے بارے میں گفتگو کرنا چاہوں تو دراصل اس کی متعدد روشیں اور راستے ہیں ، ایک راستہ خود قرآن کریم ہے مگر روائی روش کے بغیر۔
    قرآن کریم مقامات کو بیان کرتا ہے ، ایک مقام یہ ہے کہ انسان خدا سے راضی ہو ، ایک دوسرا مقام یہ ہے کہ خدا انسان سے راضی ہو ۔ جیسے جناب "حب” کا مسئلہ ہے " يُحِبُّھمْ وَيُحِبُّونَہ"، "قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـہ فَاتَّبِعُونِی يُحْبِبْكُمُ اللَّـہ ۔۔۔۔”
    پس دیکھیے خدا کے ساتھ انسان کی محبت کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ خدا بھی انسان کے ساتھ محبت کرتا ہے؛ ہو سکتا ہے کہ آپ خدا سے محبت کرتے ہوں لیکن خدا آپ سے محبت نہ کرتا ہو فرض کریں اگر کوئی شخص ظالم ہو ، "وَاللَّـہ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ”، درست ہے ؟! پس اگر وہ کہے کہ واللہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں، جی ہاں آپ محبت کرتے ہیں لیکن معلوم نہیں ہے۔۔۔ بلکہ خدا آپ سے محبت نہیں کرتا ، پس لازمی نہیں ہے کہ اگر آپ خدا سے محبت کرتے ہوں تو خدا بھی آپ سے محبت کرتا ہے۔
    لیکن اس کی حد وسط کیا ہے ؟ اس کی حد وسط پیغمبر (ص) کی اتّباع اور پیروی ہے "قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـہ فَاتَّبِعُونِی يُحْبِبْكُمُ اللَّـہ ۔۔۔۔”!!
    اب اگر خدا کسی بندے سے محبت کرتا ہو؛” ومازال عبدی يتقرب الی بالنوافل حتى أحبہ فإذا أحببتہ كنت سمعہ الذي يسمع بہ"( میرا بندہ نوافل کے ذریعے اس قدر میرے نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے …..)
    یہ قرب نوافل کا مقام ہے جسے عرفا نے پیش کیا ہے اب یہ ایک الگ بحث ہے !
    اب میں آپ کو اس کا کامل ترین مصداق بھی بتا دیتا ہوں ، اہلسنت کی کتب میں اس کا کامل ترین مصداق صرف امام امیر المومنین(ع) ہیں ۔
    عجیب ہے حتی ابن قیم بھی کہتا ہے کہ اس آیت (قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـہ ۔۔۔۔۔۔)کا مصداق صرف امیر المومنین ہیں !
    پس اس آیت کا مصداق کون ہے ؟ خود ان کی کتب کے تواتر کی رو سے ! اب یہ ایک الگ بحث ہے امیر المومنین (ع) کے مقامات سے متعلق
    پس جناب دیکھئے یہ کہ انسان خدا سے راضی ہو اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ خدا بھی انسان سے راضی ہو ۔ یہ ایک مطلب۔
    پس پہلا مطلب : ” رَّضِیَ اللَّـہ عَنْھمْ وَرَضُوا عَنْہ ” یہ دو مقام ہیں جنہیں ایک دوسرے سے جدا کر کے ثابت کرنے کی ضرورت ہے !
    ایک اور مقام بھی ہے نہ صرف یہ کہ خدا کسی سے راضی ہوتا ہے بلکہ خدا اس مرحلے پر فرماتا ہے : اے میرے بندے بتا کہ تیرے لیے ایسا کیا کروں کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے
    یہ ان پہلے دو مقامات سے بلند ہے ، پہلا مقام یہ کہ میں خدا سے راضی ہوں ، دوسرا مقام یہ کہ خدا مجھ سے راضی ہے ، تیسرا مقام؛ مجھے معلوم نہیں ہے کہ قرآن میں پیغمبر (ص) کے علاوہ کسی اور کے لیے ذکر ہوا ہے یا نہیں کہ میں تیرے لیے ایسا کیا کروں کہ تو مجھ سے راضی ہوجائے یہ اس ” وَرَضُوا عَنْہ ” سے جدا مقام ہے وہ پہلا مربتہ تھا اور یہ تیسرا مقام ہے جو زیادہ بلند ہے۔
    قرآن کریم نے تصریح کی ہے : "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ” کہ اس قدر تجھے عطا کروں گا کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے ۔۔۔یہ وہ پہلی رضایت نہیں ہے بلکہ یہ رضایت اس کے بعد ہے کہ جب خدا ان سے راضی ہو چکا ہے ۔ "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ
    میں نے قرآن کریم میں دقت کی ہے لیکن کسی جگہ نہیں ملا کہ خدا نے پیغمبر(ص) کو ایسا کیا عطا کیا ہے کہ پیغمبر خدا سے راضی ہو جائیں !؟
    (سوائے اس کے ) کیا عطا کیا ہے ؟ قرآن کریم میں فقط یہ ایک آیت ہے : ” إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ
    یعطیك ۔۔۔ اعطیناك الکوثر ۔۔۔ پس خدا اگر پیغمبر(ص)کی رضایت حاصل کرنا چاہے تو صرف ایک راہ تھی کہ آپ(ص) کو کیا عطا کر دے؟ کوثر !
    میری نظر میں کوثر ایک عام مفہوم ہے جس کا معنی ہے خیر کثیر !
    اگر آپ لغت کی طرف رجوع کریں تو معلوم ہوگا کہ کوثر کیا ہے ؟ خیر کثیر !
    جناب اس کے مصادیق کیا ہے ؟ چونکہ میرا ایک نظریہ ہے جسے میں نے تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے کہ عام طور پر قرآن مفاہیم بیان کرتا ہے اس کے مصادیق کو یا روایت بیان کرتی ہے یا تاریخ ، قرآن، کلی مفاہیم بیان کرتا ہے ” وَأَعِدُّوا لَھم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ ” ۔
    جناب "قوت” کیا ہے ؟اس زمانے میں ” وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ ” تھا؛ اس زمانے میں لیکن ہمارے زمانے میں؟ نہیں! میزائل نہیں بلکہ اس سے مراد ٹیکنالوجی ہے، سیکیورٹی معاملات !! یہ قوت ہیں یا نہیں ؟ اس وقت رہبر معظم کس قدر زور دے رہے ہیں کہ وہ لوگ اس وقت ہم پر تہذیبی حملے کر رہے ہیں زمینی حملہ کر سکتے ہیں ؟ نہیں، نہیں کرسکتے !
    یہ قوت ہے ! آپ اس زمانے پر نگاہ کریں روایات و مفسرین بھی یہی کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں بھی "قوت” یہی عسکری امور تھے۔
    حالانکہ ایسا نہیں ہے ، یہ کلی مفاہیم ہیں کوثر بھی ایک کلی مفہوم ہے آخرت میں اس کا مصداق نہر کوثر ہے ! حوض کوثر ہے آپ دیکھیں، حوض کوثر ہے؛ بعض نے کہا ہے کہ کوثر کیا ہے ؟ حوض کوثر اور بعض نے کہا فلاں فلاں !!
    انہوں نے مفہوم اور مصداق کو مخلوط کر دیا ہے لہذا میرے نزدیک اگر آپ قرآن کو بالعموم مفہوم و مصداق سے خارج نہیں کریں گے تو اس کی بہت ساری آیات ضائع ہو جائیں گی ۔
    کیونکہ جیسے آیت ” تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَھبٍ وَتَبَّ ” پس (اس طرح تو) یہ آیت ختم ہو چکی ہے؛ درست ہے ؟!
    يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ ” ، یعنی اگر آپ جنگ شروع کر کے کفار کو ختم کرنا چاہیں تو کہاں سے آغاز کریں ؟ ان سے جو آپ کے نزدیک ہیں ! پس اسلامی جمہوریہ ایران کہاں سے شروع کرے امریکہ سے شروع کرے یا پڑوسیوں سے ؟
    پس دیکھیں مفہوم اور مصداق کی بہت تاثیر ہے
    یہاں یقینا یقینا تمام مؤرخین ، مفسرین اور علمائے کلام کا اتفاق ہے کہ یقینا کوثر کا ایک مصداق بی بی زہراء(ع) ہیں۔
    ( جاری ہے )!

    • تاریخ : 2018/03/05
    • صارفین کی تعداد : 1404

  • خصوصی ویڈیوز