مقالات و آراء

  • انسان کے اعمال اور قدرتی حوادث کے درمیان رابطہ

  • قرآن مجید نے جن حقائق کی طرف متعدد آیات میں اشارہ کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ نظام طبیعت اور انسان کے اعمال کے درمیان ایک فطری اور تکوینی رابطہ پایا جاتا ہے ۔ خواہ یہ اعمال اچھے ہوں یا برے ہوں۔ اگر کوئی شخص یا معاشرہ اُس راستے پر چلے جو الٰہی فطرت نے ترسیم کیا ہے ، اور جو خدا تعالیٰ پر اعتقاد کا تقاضا ہے اور نیک اعمال انجام دے تو اِن پر خیر و برکت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور رحمت الٰہی ان پر نازل ہوتی ہے ورنہ نتیجہ برعکس ہو گا ۔
    ایک اہم سوال جو یہاں ابھرتا ہے یہ ہے کہ انسان کے لیے پیش آنے والے تمام اچھے برے حوادث کے قدرتی اور مادی علل و اسباب ہیں اس طرح کہ ۔ اگر ان مادی علل و اسباب میں سے کوئی رونما ہو جائے توان کا معلول بھی وجود میں آجائے گا خواہ انسانوں کے نفوس پاک اور صالح ہوں یا ناپاک اور پلید ہوں یا قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق خواہ انسان صراط مستقیم پر ہوں یا صراط مستقیم سے ہٹ جائیں ۔ اس بنا پر قدرتی طور پر پیش آنے والے حوادث اور انسان کے نیک اعمال یا برے اعمال کے درمیان کسی رابطے یا تعلق کا قائل نہیں ہوا جاسکتا ۔
    اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال عالم طبعیت میں موجود الٰہی سنن کا صحیح ادراک نہ ہونے کا نتیجہ ہے ۔ اس لیے کہ یہ کائنات اور اس کے تمام اجزا اور ان کے اندر پائی جانے والی تمام قویٰ سب ایک پیکر کے اعضا کی طرح آپس میں مرتبط اور جڑے ہوئے ہیں ۔ اس طرح کہ بعض اعضا کا سالم یا ناقص ہونا دوسرے اعضا کے کام کرنے یا کام چھوڑ دینے میں اثر رکھتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا : کائنات کے تمام اجزا خدا وند متعال اوراپنے مقررہ مقصد کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں ۔
    قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ہدَى(طہ / ٥٠ )
    موسٰی نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطا کی ہے اور پھر ہدایت دی ہے ۔
    اس بنا پر تمام اشیا کو اپنے مطلوبہ کمال کی طرف ہدایت کر دی گئی ہے اور ہر کوئی اپنی گنجائش اور اپنے وجود کے اندر پائے جانے والے وسائل کے مطابق اس ہدف تک پہنچنے پر قادر ہے کہ جس کے لیے اسے خلق کیا گیا ہے ۔ رب العالمین فرماتا ہے :
    وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَہا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ( یٰس / ٣٨)
    اور سورج اپنے ایک مرکز پر چل رہا ہے کہ یہ خدائے عزیز و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے۔
    نیز فرمایا :
    ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَہيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہا وَلِلأرْضِ اِئْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْہا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ( فصلت / ١١ )
    پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو بالکل دھواں تھا اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بہ کراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں۔
    کہا جاسکتا ہے کہ کائنات کے اجزا کے درمیان گہرے ارتباط پر دلالت کرنے والی اہم ترین آیت یہ ہے جس میں فرمایا: لَوْ كَانَ فِيہمَا آلِہۃ إِلا اللَّہ لَفَسَدَتَا( انبیاء / ٢٢ )
    اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے۔
    کیونکہ کائنات کا دوام اور پائیداری اس کے اجزا کے آپس میں جڑے ہوئے ہونے باہمی ارتباط پر منحصر ہے ۔ وہ اجزا جو آج بھی اس کائنات میں موجود ہیں اور وہ اجزا جو آئندہ اس کائنات میں پیدا ہونگے ، سب آپس میں مرتبط ہیں۔ اس لیے کہ ابتدائی مواد اُن کے وجود میں آنے کی راہ ہموار کرتا ہے ۔
    دوسری طرف خود یہ موجودہ اجزا اسی ترتیب کے ساتھ گذشتہ اجزا سے مرتبط ہیں ۔ اور جو اجزا ایک دوسرے کے ہمراہ باہم موجود ہیں وہ بھی فعل و انفعالات اور تاثیر میں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں ۔ یہ ارتباط بعض اجزا کے رشد اور پھلنے اور بعض اجزا کے ختم ہوجانے کا موجب بنتا ہے ۔ مثال کے طور پر دریا کے پانی پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اوپر آسمان کی طرف جا کر بادل بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد ماحولیاتی عوامل و اثرات کی وجہ سے بارش بن کر زمین پر برستے ہیں ۔ ان کی وجہ سے گھاس پھوس اور کھیتیاں اگتی ہیں ۔ جانور یہ کھاتے ہیں اور انسان بھی ان جڑی بوٹیوں ، سبزیوں اور جانوروں کے گوشت سے استفادہ کرتے ہیں ۔
    پس کائنات کے اجزا جو ایک زمانے میں موجود ہیں عرض میں ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور گذشتہ و آئندہ کے اجزا سے طولی ارتباط رکھتے ہیں اور یہ سب مل کر ایک بڑا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں اور ان سب کے درمیان ایک منظم نظم اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ اس مجموعہ کے اجزا وجود میں آنے ، زندہ رہنے ، پھلنے پھولنے اور تبدیل ہونے کے لیے ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ اگر فرض کریں اس جہان ہستی میں مختلف علل و اسباب کے کئی خدا ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس مجموعہ کے اجزا ایک دوسرے سے جدا ہوں گے ۔ کیونکہ ان فرضی خداؤں میں سے ہر خدا واسطہ یا اپنے معالیل کے زریعے اس کائنات میں مؤثر ہوگا پس یہ دیگر علل و معلولات سے جدا ہوں گے اور اس کا نتیجہ نظام تکوین کی خرابی اور فاسد ہونا ہے ۔(۱)
    پروردگار عالم کا ارشاد ہے :
    مَا مِنْ دَابَّۃ إِلا ہوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِہا ( ہود / ٥٦ )
    کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی اللہ کی گرفت میں نہ ہو ۔
    شاید یہی وجہ ہے کہ دوسری آیت میں فرماتا ہے
    الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّہ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِہمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہذَا بَاطِلا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران / ١٩١)
    جو اٹھتے بیٹھتے اوراپنی کروٹوں پر لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی خلقت میں غور و فکر کرتے ہیں، (اور کہتے ہیں:) ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے بے حکمت نہیں بنایا، تیری ذات (ہر عبث سے) پاک ہے، پس ہمیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
    ” ھذا ” ضمیر مفرد مذکر کے ساتھ آسمانوں اور زمین کی طرف اشارہ جوکہ جمع مؤنث ہیں ، شاید اس حقیقت کا بیان ہو کہ پوری کائنات پر حاکم ایک نظام ہے ۔
    نتیجہ یہ ہے کہ خداوند متعال نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اسی نے اُن سب کی تقدیر معین فرمائی ہے ، اس نے سب کو سعادت کے راستے کی طرف ہدایت فرمائی ہے ۔ اس نے کائنات اور اس کے تمام اجزا من جملہ انسان کو بیہودہ اور لغو پیدا نہیں کیا بلکہ اس نے سب کو اپنے قریب کرنے اور اپنی طرف پلٹانے کی خاطر پیدا کیا ہے اور منزل سعادت کا راستہ سب کو فراہم کیا ہے ۔ ہر چیز اپنی فطرت کے تقاضے سے اور پروردگار کے حکم سے اس کی سمت حرکت میں ہے ۔ پس ہر شئے کے سامنے اس کی سعادت کا راستہ موجود ہے اور اگر وہ فطرت کے راستے پر چلے تو وہ اپنی سعادت کے راستے پر ہو گا لیکن اگر اس کے اندر بعض حوالوں سے اور خاص طور پر اہمیت کی حامل جہات میں نقص پیدا ہو جائے اوراس کی تاثیر کم ہو جائے یا راہ راست سے انحراف پیدا ہو جائے تو اس کی تباہی کا نتیجہ دوسروں میں بھی وجود میں آئے گا اس کی طرف سے دوسروں پر جو اثرات پہنچتے ہیں وہ خود اس کی طرف بھی پلٹتے ہیں حتی ممکن ہے کہ وہ اثرات ان منحرف اجزا کے حالات کے ساتھ تناسب نہ رکھتے ہوں بلکہ یہ ایسی بلا اور مصیبت ہو جو بعض دیگر فاسد علل کی طرف سے اس تک پہنچی ہے۔
    اس صورت میں اگر وہ منحرف جزخود یا دوسروں کی مدد سے راہ راست پر آ جائے اور اس راستے پر آگے بڑھنا شروع کر دے تو پہلے والی نعمات اس کی طرف واپس آجائیں گی لیکن اگر منحرف اور نا صحیح راستے پر باقی رہے اور تباہی کے راستے پر چلتی رہے تو اس کی مصیبت اور سختی بھی اس کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ اگر اس کی سرکشی اور طغیان حد سے گزر جائے تو کائنات کے دیگر علل و اسباب بھی اس کے خلاف ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت کے ساتھ اُس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ اور اسے اس طرح جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں اور نیست و نابود کر دیتے ہیں کہ خود اُسے بھی خبر نہیں ہو پاتی ۔
    یہ ایک سنت الٰہی ہے کہ جسے پروردگار عالم نے نظام کائنات میں قرار دیا ہے اور انسان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ لہذا اگر کوئی امت یا قوم فطرت الٰہی کے صحیح راستے سے منحرف ہو جائے اور وہ اتنی دور چلی جائے کہ پھر اس کے لیے انسان کے اعلیٰ مقصد یعنی سعادت تک پہنچنا نا ممکن ہو جائے تو ایسی قوم دوسری اقوام کی تقدیر پر بھی برے اثرات چھوڑتی ہے ۔ اس لیے کہ ان بلاؤں اور مصائب کو وجود میں لانے والے تمام علل و اسباب باہم مرتبط ہیں ۔ ان سختیوں اور بلاؤں کے برے اثرات پہلے عامل پر بھی پڑتے ہیں اور یہ خود اس کی طرف پلٹتے ہیں اور ان مشکلات و مصائب کی خود اس کے اپنے انحراف کے علاوہ کوئی اور وجہ نہیں ہے اور اس کے نتیجے میں یہ دوسرے اجزائے کائنات کو بھی بلا اور مصیبت میں مبتلا کر دیتی ہے ۔ ایسی صورت میں معاشرے کے امور کے تسلسل میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اور معاشرے پر حاکم روابط اور قوانین میں کلی مشکلات اور دشواریاں وجود میں آجاتی ہیں۔ جیسے اخلاقی فساد، سنگدلی اور بے رحمی ، انسانوں میں احساس کا ختم ہو جانا ، اجتماعی مصائب اور قدرتی بلائیں جیسے باران رحمت کا نہ برسنا ، زمین کا فصل نہ اُگانا ، برکات کا نزول نہ ہونا ، سیلاب ، طوفان ، آندھیاں اور زلزلے ، آبادیوں کا زمین میں دھنس جانا وغیرہ ۔ یہ سب پروردگار عالم کی طرف سے نشانیاں ہیں تاکہ انسان بیدار ہو جائے اور اسے اپنی طرف پلٹا ئے اور وہ فطرت کے اس راستے پر پلٹ آئے کہ جس سے وہ دور ہوچکا ہے اور یہ سب مشکل امتحانات ہیں کہ جن کی نوبت آسان امتحانات کے بعد آتی ہے ۔
    آیت شریفہ : ظَہرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَہمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّہمْ يَرْجِعُونَ ( روم / ۴۱ )
    لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔
    اس آیت شریفہ میں دقت کریں تو اسے ہم اپنے مدعا پر بڑا مناسب گواہ بنا سکتے ہیں اس میں بیان کیا جا رہا ہے کہ انسان جو ظلم اور گناہ انجام دیتے ہیں وہ خشکی اور دریا میں فساد و تباہی کا موجب بنتے ہیں ۔ اس کے بعض اثرات جیسے جنگ و جدل ، لوٹ مار اور نا امنی بلا واسطہ طور پر خود انسان کی طرف پلٹتے ہیں اور۔ بعض گناہ بالواسطہ طور پر انسان اور اس کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ جیسے آب و ہوا میں ناگوار تبدیلی وغیرہ ۔(۲)
    ان آخری عشروں میں پیش آنے والے حادثات و واقعات کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں ، جیسےجنگیں ، بیماریاں بالخصوص ایسی بیماریاں جو پہلے کبھی نہ تھیں اور روایات میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہے اور قدرتی آفات کا آنا ، تو یہ سب اس قرآنی حقیقت کا واضح گواہ ہے۔
    قرآن مجید نے اس حقیقت کے اثبات کے لیے جن دلائل و براہین سے استفادہ کیا ہے درج ذیل ہیں :
    وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَمَا بَيْنَہمَا لاعِبِينَ *مَا خَلَقْنَاہمَا إِلا بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَہمْ لا يَعْلَمُونَ ( دخان / ٣٨ ۔ ٣٩ )
    اور ہم نے آسمانوں اور زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات کو کھیل تماشہ کرنے کے لئے نہیں پیدا کیا ہے ۔ ہم نے انہیں صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے لیکن ان کی اکثریت اس امر سے جاہل ہے۔
    مزید فرمایا :
    وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالأرْضَ وَمَا بَيْنَہمَا بَاطِلا ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ ( ص / ٢٧ )
    اور ہم نے آسمان اور زمین اور اس کے درمیان کی مخلوقات کو بے مقصدپیدا نہیں کیا ہے یہ تو صرف کافروں کا خیال ہے۔
    مذکورہ بالا آیات بتا رہی ہیں کہ جب خالق کسی چیز کو خاص مقصد و ہدف کی خاطر خلق فرماتا ہے تو پھر ہمیشہ اس کی کارکردگی پر نگاہ رکھتا ہے اور اگر اُس کے لیے کوئی مشکل پیش آجائے جو اس کے ، مقصد تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو تو خالق یا اس میں تبدیلی لا کر اس کی اصلاح کرتا ہے اور یا کلی طور پر اسے ہٹا کر کسی نئی چیز کو اُس کی جگہ لے آتا ہے ۔
    آسمانوں ، زمین اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے کہ جس میں انسان بھی شامل ہیں اسی طرح ہیں اور چونکہ پروردگار عالم نے انہیں بیہودہ اور بے مقصد خلق نہیں فرمایا بلکہ ان کی خلقت کا مقصد ان کی پروردگار کی طرف بازگشت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لا تُرْجَعُونَ ( مومنون / ١١٥ )
    کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤ گے؟
    اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خلقت کا مقصد خداوند متعال کی طرف بازگشت نہ ہو تو آسمان و زمین اور انسان وغیرہ کی خلقت بے مقصد اور ببیہودہ ہے ۔ ارشاد ہے:
    وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالأرْضَ وَمَا بَيْنَہمَا لاعِبِينَ (انبیاء۱۶)
    اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو کھیل تماشے کے لئے نہیں بنایا ہے۔
    اس بنا پر لطف و عنایت الٰہی کا لازمہ یہ ہے کہ ابتدا میں دعوت اور راہنمائی کے ذریعے پھر امتحان اور آزمائش کے ساتھ اورآخری مرحلے میں ایسے افراد جو اپنی خلقت کے مقصد کی پروا نہیں کرتے اور ہدایت کے راستے سے خارج ہو گئے ہیں کو نابود کر کے دوسری مخلوقات کی مانند انسان کو بھی اپنے مقصد خلقت کی طرف راہنمائی فرمائے کہ اس صورت میں خلقت انسان کے انفرادی اور اجتماعی کمالات محقق ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی امت نابود ہو جائے تو وہ دوسروں کے لیے آسانی کا سامان ہوتا ہے ۔
    پروردگار عالم فرما رہا ہے :
    وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَۃ إِنْ يَشَأْ يُذْہبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا أَنْشَأَكُمْ مِنْ ذُرِّيَّۃ قَوْمٍ آخَرِينَ( انعام / ١٣٣ )
    اور آپ کا پروردگار بے نیاز اور صاحبِ رحمت ہے -وہ چاہے تو تم سب کو دنیا سے اٹھالے اور تمہاری جگہ پر جس قوم کو چاہے لے آئے جس طرح تم کو دوسری قوم کی ذریت سے خلق کیا ہے۔
    آیت کا لب و لہجہ ملاحظہ کریں اس میں ایک قوم کی جگہ دوسر ی قوم لانے کا سبب اور عامل رحمت الٰہی کو قرار دیا گیا ہے ۔
    پروردگار عالم نے اپنی اس سنت ] انتقام اور ابتلا [ کو ایک غالب اور عام سنت قرار دیا ہے نہ ایک جزوی اور مغلوب روش ، ارشاد ہو رہا ہے :
    وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَۃ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ *وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الأرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّہ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ (شوریٰ / ٣٠ ۔ ٣١ )
    اور تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف کردیتاہے اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ہو اور اللہ کے سواتمہارا کوئی سرپرست اور مددگار نہیں ہے۔
    نیز فرمایا :
    وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ *إِنَّہمْ لَہمُ الْمَنْصُورُونَ *وَإِنَّ جُنْدَنَا لَہمُ الْغَالِبُونَ ( صافات / ١٧١ ۔ ١٧٣ )
    اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہےکہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی۔ اور بے شک ہمارا لشکر غالب آنے والا ہے۔

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ۔ مصباح یزدی ، تعلیقۃ بر نھایۃ الحکمۃ ، ص ٤٢٢ ۔
    2 ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٨ ، ص ١٩٦ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ۔

    • تاریخ : 2018/04/13
    • صارفین کی تعداد : 1220

  • خصوصی ویڈیوز