مقالات و آراء

  • لفظ "مولا” کا معنی اور امام علی (علیہ السلام) کی سیاسی امامت پر اس کی دلالت

  • صحیح ، صریح اور متفق علیہ حدیث "غدیر” کے مختلف صیغوں کے بارے میں بحث و تمحیص کے دوران یہ مشخص ہو جاتا ہے کہ لفظ "مولا” کے دو معنوں کو مدنظر رکھا جا سکتا ہے ۔
    پہلا معنی :”الاولی بالتصرف” یعنی حکومت کا زیادہ حقدار اور لائق
    اولی بالتصرف ایک ایسا معنی ہے کہ جسے ہم نبی اکرم(ص) کے اس قول سے سمجھ سکتے ہیں :” یا بریدۃ ألست أولی بالمؤمنین من أنفسھم؟ قلت: بلی یا رسول اللہ. قال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ”
    (اے بریدہ کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق اور اختیار نہیں رکھتا ؟ میں نے کہا : جی ہاں یا رسول اللہ ، تو آپ (ص) نے فرمایا: تو جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے)۔
    شیعب ارنئوط اس حدیث کے بارے میں کہتا ہے : "اس کی اسناد بشرط شیخین صحیح ہے "(1)۔
    دوسرا معنی : "الولی” بمعنی سرپرست
    "ولی” بھی سرپرست کے معنی میں ہے ، یہ وہ چیز ہے جس کی طرف ہم رسول اللہ (ص) کے اس فرمان گرامی سے متوجہ ہوتے ہیں : ” إنّ اللہ عزّ وجلّ مولای و أنا ولی کلّ مؤمن، ثمّ أخذ بید علی: من کنت ولیّه فھذا ولیّہ ”
    (اللہ عزوجل میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں ، پھر آپ(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ ولی ہے )
    طحاوی اس روایت کے بارے میں کہتا ہے : اس کے تمام رجال بشرط شیخین ثقہ ہیں (2)۔
    یہ دو لفظ امام علی (ع) کی سیاسی امامت کو بالکل واضح اور صریح طور پر ثابت کرتے ہیں ۔
    کلمہ اولی کی سیاسی امامت پر دلالت
    جو شخص اصل حدیث "غدیر” میں تدبر و تفکر کرتا ہے اچھی طرح جان جاتا ہے کہ رسول اکرم (ص) نے لفظ”مولا” سے اپنی مراد کو اسی حدیث میں بیان فرما دیا ہے اور خود رسول اللہ(ص) کے بیان کرنے کے بعد لغت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
    بہت ساری احادیث میں یہ وارد ہوا ہے کہ رسول اکرم (ص) نے غدیر خم پر موجود لوگوں سے یہ اقرار لیا ہے کہ رسول خدا(ص) خود ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر اختیار رکھتے ہیں اور پھر "فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ "، کی عبارت کو اس پر مترتب فرمایا ۔
    بطور نمونہ : ” یا بریده ألست أولی بالمؤمنین من انفسهم؟ قلت: بلی یا رسول الله. قال: من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ”
    (اے بریدہ کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟ میں نے کہا : جی ہاں یا رسول اللہ ، تو آپ (ص) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے)۔
    اس بنیاد پر ، رسول اکرم(ص) نے جب لوگوں سے یہ اقرار لے لیا کہ آپ(ص) ان کے نفسوں سے زیادہ ان پر اختیار رکھتے ہیں ، تو امام علی(ع) کا دست مبارک پکڑا اور فرمایا : پس علی بھی تمہارے مولا ہیں ۔ اس عبارت اور رسول خدا(ص) کے اس فعل کا معنی یہ ہے کہ حدیث غدیر میں امام علی ابن ابی طالب(ع) کی منصوص ولایت رسول خدا (ص) کی اسی منصوص ولایت کی شاخ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے تصریح کی ہے :” النبی اولی بالمومنین من انفسھم (احزاب/ ۶)”۔
    اب اس جہت سے کہ سورہ احزاب میں مذکور "اولویت” متعلق ذکر نہ ہونے کے سبب عمومی معنی دے رہی ہے؛ یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ ولایت تمام امور بشمول سیاسی حاکمیت اور دیگر معاملات پر بلا قید و شرط مشتمل ہے ۔
    اس بنا پر وہی ولایت اور اولویت جو قرآن کریم نے رسول اکرم(ص) کے لیے ثابت کی ہے اور اس کو بطور عام اور مطلق ذکر کیا ہے ، امام علی(ع) کے لیے ثابت ہے اس لیے کہ رسول اکرم (ص) نے ولایت علی(ع) کو اس پر مترتب فرمایا ہے ۔

    (1)مسند الامام احمد بن حنبل ، تحقیق : شعیب الارنئوط ، ج۳۸ ، ص۳۲

    (2)مشکل الآثار للامام الطحاوی ، ج۵ ، ص۱۸

    مطارحات فی الإمامۃ ، ص ۴۲۷ – ۴۳۲.

    • تاریخ : 2018/05/13
    • صارفین کی تعداد : 3003

  • خصوصی ویڈیوز