مقالات و آراء

  • قدرتی حوادث کے وجود میں آنے میں مادی اسباب کا کردار(2)

  • اس بحث کے آخر میں ضروری ہے ایک اہم سوال جو ذہن میں ابھر سکتا ہے، کے بارے میں بات کر لی جائے ۔ وہ یہ ہے کہ اگر عالم طبیعت میں موجود قوانین الٰہی ، انسان کے نیک اور بد اعمال کے تابع ہوں اور انسان کے نیک اور انسانی معاشرے کی فطرت کے مطابق اعمال یعنی ایمان اور عمل صالح ، برکات کے نزول کا موجب اور اس کے مقابل میں بے ایمانی اور برے اعمال انسان کی بدبختی کا سبب بنتے ہوں ، اگر ایسا ہی ہے تو بعض اقوام میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ راہ ہدایت سے ہٹی ہوئی ہیں ، راہ فطرت کے خلاف زندگی بسر کر رہی ہیں اور وہاں مذکورہ بالا قانون کا اجرا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس ان میں سے بعض اقوام خوشحال ہیں اور مادی نعمات اور زندگی کی آسائش میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟
    اس کے جواب میں ہم کہیں گے :
    پہلی بات یہ ہے کہ قرآن کریم بیان فرما رہا ہے کہ خداوند متعال دنیا میں انسانوں کے تمام برے اعمال کی سزا نہیں دیتا بلکہ انہیں صرف ان کے بعض برے اعمال کے نتائج میں گرفتار کرتا ہے ۔ ارشاد ہے :
    ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ ایدِی النَّاسِ لِیذِیقَھمْ بَعْضَ الَّذِی عَمِلُوا لَعَلَّھمْ یرْجِعُونَ (روم / ٤١ )
    لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا تاکہ انہیں ان کے بعض اعمال کا ذائقہ چکھایا جائے، شاید یہ لوگ باز آ جائیں۔
    یہ آیت بتا رہی ہے کہ انسان پر نازل ہونے والی مصیبتیں اور بلائیں اس لیے ہیں کہ خداوند متعال انسان کو اس کے بعض ناروا اعمال کی سزا دینا چاہتاہے اور ان کے بعض برے اعمال کے نتائج کا مزہ چکھا سکے ۔ اور بہتر تعبیر کے مطابق پروردگار ان کے اعمال کہ جو بلا کی صورت اختیار کر چکے ہیں کی مجسم صورت انہیں دکھانا چاہتا ہے ۔ { لعلھم یرجعون} (شاید وہ پلٹ آئیں)سے مراد بھی یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ دکھ اور بلائیں انسان کو شرک اور گناہ کے راستے سے ہٹا کر توحید اور خداوند متعال کی اطاعت کے راستے پر لے آئیں ۔(۱)
    بہر حال یہ سب انسان کے بعض اعمال کا نتیجہ ہیں ، انسان کے تمام اعمال کا نتیجہ نہیں ۔ اس لیے کہ پروردگار عالم اپنی بے کراں رحمت کے ساتھ انسان کے بہت سارے ناروا اعمال کو بخش دیتا ہے ۔ پروردگار عالم فرماتا ہے :
    وَمَا اصَابَكُمْ مِنْ مُصِیبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ ایدِیكُمْ وَیعْفُو عَنْ كَثِیرٍ ( شوریٰ / ٣٠ )
    اور تم پر جو مصیبت بھی آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف کردیتاہے ۔
    نیز فرمایا :
    اوْ یُوبِقُھنَّ بِمَا كَسَبُوا وَیعْفُ عَنْ كَثِیرٍ ( شوریٰ / ٣٤ )
    یا وہ انہیں ان کے اعمال کی بنا پرہلاک ہی کردے اور وہ بہت سی باتوں کو معاف بھی کردیتا ہے ۔
    خداوند متعال لوگوں کے بہت سے ناروا اعمال کو بخش دیتا ہے اور اس پر ان کی گرفت نہیں کرتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا کرتا تو اس روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ بچتا ۔
    ارشاد ہے :
    وَلَوْ یؤَاخِذُ اللَّہ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَھرِھا مِنْ دَابَّۃ وَلَكِنْ یؤَخِّرُھمْ إِلَى اجَلٍ مُسَمًّى فَاذَا جَاءَ اجَلُھمْ فَانَّ اللَّہ كَانَ بِعِبَادِہ بَصِیرًا ( فاطر / ٤٥ )
    اور اگراللہ تمام انسانوں سے ان کے اعمال کا مواخذہ کرلیتا تو روئے زمین پر ایک رینگنے والے کو بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مخصوص اور معین مدّت تک ڈھیل دیتا ہے اس کے بعد جب وہ وقت آجائے گا تو پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خوب بصیرت رکھنے والا ہے۔
    { بما کسبوا } کی عبارت سے مراد وہ گناہ ہیں جو انسان انجام دیتے ہیں اور آیت کا بعد والا حصہ جو سزا اور عذاب کو اس کا نتیجہ قرار دے رہا ہے ، اس مدعا کا گواہ ہے۔ جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ذکر ہوا ہے
    وَلَوْ یؤَاخِذُ اللَّہ النَّاسَ بِظُلْمِھمْ مَا تَرَكَ عَلَیھا مِنْ دَابَّۃ ( نحل / ٦١ )
    اگر خدا لوگوں سے ان کے ظلم کا مواخذہ کرنے لگتا تو روئے زمین پر ایک رینگنے والے کو بھی نہ چھوڑتا ۔
    آیت کے انداز بیان کو دیکھتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ ” دابۃ "(ہر حرکت کرنے والا جاندار) سے مراد صرف انسان ہو۔ اس لیے کہ انسان بھی حرکت کرنے والا ہے اور جاندار ہے ۔ اس اعتبار سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ اگر خداوند متعال انسان کا اُن کے اس ظلم و ستم کے بدلے جو وہ انجام دیتے ہیں ، مسلسل مؤاخذہ کرے تو روئے زمین پر کوئی انسان باقی نہیں رہے گا ۔ کیونکہ اکثر انسان اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور صالحین کی قلیل سی تعداد کہ جو انبیا اور ائمہ معصومین ہیں وہ وجود میں ہی نہ آسکیں گے ۔ اس لیے کہ ان کے آباء و اجداد بہت عرصہ پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکے ہونگے ۔(۲)
    دوسری بات یہ ہے کہ ایسی امتیں جو بندگی کے صراط مستقیم سے نکل چکی ہیں ، اُن کے بارے میں قرآن مجید نے جن سنن و قوانین الٰہی کو بیان کیا ہے ان میں سے ایک ” املا ” و ” استدراج ” ہے ۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    وَمَا ارْسَلْنَا فِی قَرْیۃ مِنْ نَبِی إِلا أَخَذْنَا أَھلَھا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّھمْ یضَّرَّعُونَ *ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیئَۃ الْحَسَنَۃ حَتَّى عَفَوْا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَاخَذْنَاھمْ بَغْتَۃ وَھمْ لا یشْعُرُونَ *وَلَوْ انَّ اھلَ الْقُرَى آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیھمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالارْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَاخَذْنَاھمْ بِمَا كَانُوا یكْسِبُونَ ( اعراف / ٩٤ ۔ ٩٦ )
    اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔
    ان آیات میں بطور خلاصہ گذشتہ امتوں کے بارے میں سنن اور قوانین الٰہی کو بیان کیا گیا ہے کہ ان میں سے اکثر امتیں فاسق تھیں ، اور خدا کی بندگی سے نکل چکی تھیں۔ اور انہوں نے ازل میں پروردگار عالم کے ساتھ کیے ہوئے وعدے وفا نہ کئے تھے ۔ یہ موجب بنی کہ ایک کے بعد ایک سنت الٰہی ان کے بارے میں جاری ہونے لگی اور ان کے بارے میں جاری ہونے والی یہ سنن درج ذیل ہیں :
    جب بھی خداوند متعال کسی پیغمبر کو کسی امت کی طرف بھیجتا ہے تو اس امت کو سختیوں اور مشکلات میں مبتلا کرتا ہے تاکہ اُن کا امتحان لے ۔ لیکن وہ ان نشانیوں "کہ جو انہیں خدا کی طرف پلٹنے اور توبہ و استغفار کی دعوت دیتی ہیں” سے روگردانی کرتے ہیں اور ان بیدار کرنے والی نشانیوں کی طرف توجہ نہیں کر تے اور۔ یہ خدا تعالیٰ کی سنتوں میں سے ایک ہے۔
    اگر یہ سنت الٰہی کارگر ثابت نہ ہو تو اس کے بعد دوسری سنت آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں انسانوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں ۔ اور وہ حق سے منہ موڑ لیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری زندگی اور دلفریب خوبصورتی سے دل لگا لیتے ہیں اور مادی لذتوں میں غرق ہو جاتے ہیں۔ یہ ” مکر خدا ” والی سنت الٰہی ہے ۔
    اس کے بعد تیسری سنت آتی ہے کہ جس کا نام ” استدراج ” ہے ۔ جس کا مطلب ہے ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدلنا اور ان کے دکھ اور غم کو خوشی میں تبدیل کرنا تاکہ وہ دن بدن اور لحظہ بہ لحظہ عذاب الہی سے قریب تر ہوتے جائیں یہاں تک کہ پھر جب وہ غفلت کی گہری نیند سو جائیں اور ہر مصیبت سے بے خبر ہو جائیں خدا تعالیٰ اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ،جب وہ خود کو مکمل امن و امان اور صحت و سلامتی میں تصور کر رہے ہوتے ہیں اور بزعم خود وہ اپنی ٹیکنالوجی اور جدید آلات کے ذریعے ہر قسم کے حادثے کا مقابلہ کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ، اور وہ اس پر پھولے نہیں سماتے۔(۳)
    پہلی سنت الہی کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے :
    وَمَا ارْسَلْنَا فِی قَرْیۃ مِنْ نَبِی إِلا اخَذْنَا اھلَھا بِالْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّھمْ یضَّرَّعُونَ (اعراف / ٩٤ )
    اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔
    یہ آیت کریمہ بتا رہی ہے کہ سنت الہی اور مشیت الٰہی یہ ہے کہ جب بھی پروردگار عالم پیغمبران الٰہی میں سے کوئی پیغمبر کسی آبادی میں لوگوں کی راہنمائی کے لیے بھیجتا ہے تو اس کے باسیوں کی سختیوں اور جانی و مالی نقصانات کے ساتھ آزمائش کرتا ہے ۔ تاکہ شاید وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جائیں اور بارگاہ رب العزت میں خشوع و تضرع اور گریہ و زاری کریں اور شاید ایمان و عمل صالح کی طرف انہیں دی جانے والی دعوت مؤثر ہو جائے ۔
    بنابر ایں آزمائشیں اور مصیبتیں انبیا کی دعوت کے لیے بہترین کردار ادا کرتی ہیں ۔ کیونکہ جب تک انسان آسائش اور نعمات میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے ، خود کو بے نیاز سمجھتا ہے اور جس نے یہ آسائشات اور نعمات مہیا کی ہیں ، اس سے غافل رہتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی نعمت اُس سے واپس لے لی جائے تو پھر اپنے فقر کا احساس کرتا ہے ، ذلت محسوس کرتا ہے اور تنگ دستی اور محتاجی اس پر غلبہ کر لیتی ہے ۔ ایسا انسان پھر اپنی فطرت کے تحت اپنے ہاتھوں کو اس کی بارگاہ میں پھیلاتا ہے ، گریہ کرتا ہے اور خضوع و خشوع بجا لاتا ہے ، جہاں سے اس کی مشکل آسان ہوسکتی ہے ، جو ذات اس کی حاجت کو پورا کرسکتی ہے اس ذات کی بارگاہ میں دست نیاز بلند کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ ایسی ذات سوائے پروردگار عالم کے کوئی نہیں ہے ، چاہے انسان اس حقیقت سے غافل ہو۔
    اس صورت حال میں اگر کوئی (جیسے پیغمبر خدا(ص)) اسے آگاہ کرے اور خبردار کرے اوراس کی راہنمائی کرے تو اس کے حق کی طرف ہدایت پانے کی امید زیادہ ہو جاتی ہے ۔
    خداوند متعال فرماتا ہے :
    وَ اذَا انْعَمْنَا عَلَى الإنْسَانِ اعْرَضَ وَناى بِجَانِبِہ وَإِذَا مَسَّہ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِیضٍ(فصلت / ٥١ )
    اور جب ہم انسان کو نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا اور اکڑ جاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔
    دوسری سنت الٰہی کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیئَۃ الْحَسَنَۃ حَتّی عَفَوْا وَقَالُوا قَدْ مَسَّ آبَاءَنَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ فَاخَذْنَاھمْ بَغْتَۃ وَھمْ لا یشْعُرُونَ (اعراف ۹۵)
    پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔
    آیت میں آسودگی اور خیر و نیکی کو تکلیف و سختی کی جگہ لانے سے مراد یہ ہے کہ خداوند متعال ، ہر اُس چیز کو جو انسان کے لیے دکھ و تکلیف کا موجب بنتی ہے جیسے مصیبت ، نا امنی اور خوف و ہراس اسے نعمت ، امن اور آسائش میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ ” حتی عفوا ” کی عبارت اس معنی میں ہے کہ انہیں جو آسائش اور آرام فراہم کیا گیا ، اس کے بعد انہوں نے مشکلات اور سختی والا زمانہ بھلا دیا ۔
    لہذا آیت کے معنی یوں ہونگے کہ خدا وند متعال نے ان کی مشکلات اور دکھوں کو آسائش اور آسانیوں میں تبدیل کر دیا اور وہ اس آسائش اور آسانیوں میں ایسے کھو گئے کہ انہوں نے اپنا سختیوں والا زمانہ بھلا دیا اور کہنے لگے : یہ آسانیاں اور وہ مشکلات زمانے کے ساتھ آتی جاتی رہتی ہیں ، یہ ایک قدرتی بات ہے ۔ سختیوں اور عذاب کے بعد آسائش اور آرام نے انہیں بارگاہ رب العزت میں زیادہ شکر ادا کرنے اور زیادہ جھکنے کا احساس دلانے کی بجائے [جوکہ پروردگار کی رضا کا موجب ہے ]انہیں زیادہ گستاخ بنا دیا ۔ نوبت یہانتک آن پہنچی کہ خداوند متعال نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی کہ پھر وہ حق کو نہ سن سکیں ۔
    فَأخَذْنَاھمْ بَغْتَۃ وَھمْ لا یشْعُرُونَ انسان کی مشیئت الہی اور کلام الہی کی نسبت نادانی کی طرف اشارہ ہے ۔ اسی لیے عذاب الہی کا نزول اچانک اور بغیر مقدمے کے ہوا ۔ جبکہ وہ تصور کر رہے تھے کہ امور کے علل و اسباب انہیں کے اختیار میں ہیں اور ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے علم کی بدولت اور اپنے ترقی یافتہ اوزاروں کی طاقت کی بنیاد پر اپنی ہلاکت اور اپنی نابودی کے تمام عوامل کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور انہیں خود سے دور کرسکتے ہیں ۔
    پروردگار عالم نے اس بارے میں فرمایا :
    فَلَمَّا جَاءَتْھمْ رُسُلُھمْ بِالْبَینَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَھمْ مِنَ الْعِلْمِ ( مومن/ ٨٣ )
    پھر جب ان کے پاس رسول معجزات لے کر آئے تو اپنے علم کی بنا پر ناز کرنے لگے۔(۴)
    تیسری سنت الٰہی ” استدراج ” کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    وَالَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھمْ مِنْ حَیثُ لا یعْلَمُونَ ( اعراف / ١٨٢ )
    اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔
    مفردات میں راغب اصفہانی لکھتے ہیں :
    ” سَنَسْتَدْرِجُھمْ ” کے معنی یہ ہیں کہ ہم انہیں آہستہ آہستہ تدریجاً کسی چیز سے نزدیک کرتے ہیں ۔(۵)
    اس طرح آیت کا مفہوم ہلاکت اور نابودی سے تدریجی طور پر قریب ہونا ہے۔ اور اس بات پر تاکید کہ اس تدریجی نابودی کو جو وہ خود بھی درک نہیں کرتے بتاتا ہے کہ یہ نزدیک ہونا مخفی طور پر تھا اور اسے دنیا کی ظاہری سرگرمیوں اور دلفریبی میں چھپا دیا گیا تھا ۔ لہذا وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے رہے اور اپنے اوپر ظلم کرتے رہے ، جس کے ذریعے وہ ہر لمحہ اپنی نابودی اور ہلاکت سے قریب تر ہوتے رہے ۔ ان تک یکے بعد دیگرے جو نعمتیں پہنچ رہی تھیں وہ اس لیے تھیں تاکہ وہ نعمات سے استفادے اور خوشی و مسرت میں یوں کھو جائیں کہ اپنے کاموں کی عاقبت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکیں ۔
    پروردگار عالم اس بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
    ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّیئَۃ الْحَسَنَۃ حَتَّى عَفَوْا ( اعراف / ٩٥ )
    پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے ۔ دوسرے الفاظ میں جب انہوں نے خدا کو اپنے ذہنوں سے محو کر دیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا تو اُن کے دلوں سے اطمینان اور سکون ختم ہوگیا ۔ انہوں نے اپنا اطمینان اور سکون واپس لانے کی خاطر دیگر علل و اسباب کا دامن تھاما ۔ لیکن روحی اضطراب اور دل کی پریشانی ان کی جان کا وبال بن گئی ۔ اُن کی کوششیں اور چارہ جوئی کی جد و جہد بے سود رہی ۔ یہی چیز ان پر عذاب کا موجب بنی۔ وہ خیال کرتے تھے کہ دنیاوی زندگی کی حقیقت یہی ہے حالنکہ وہ سعادت بخش زندگی کے مفہوم کو فراموش کر چکے ہیں ۔
    اس کے نتیجے میں وہ دنیا کی ظاہری چیزوں کو اکٹھا کرنے کے درپے ہوگئے ۔ حقیقت میں وہ اپنے عذاب میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ وہ خوش فہم یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی نعمات میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اسی طرح رہتا ہے جب تک وہ آخرت کے شدید اور ہمیشہ رہنے والے عذاب میں گرفتار نہیں ہو جاتے ۔ لہذا وہ پروردگار کی آیات کو جھٹلانے کے سبب ہر لمحہ عذاب سے قریب ہوتے چلے جائیں گے یہانتک کہ روز موعود [ قیامت] آ پہنچے۔(۶)
    ارشاد رب العزت ہے :
    الا بِذِكْرِ اللَّہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ( رعد / ٢٨ )
    آگاہ رہو کہ صرف یاد خدا سے دلوں کو آرام و اطمینان ملتا ہے ۔
    مزید فرمایا :
    وَمَنْ اعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی فَانَّ لَہ مَعِیشَۃ ضَنْكًا ( طہ / ١٢4)
    اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی ہے۔
    پھر فرمایا :
    وَلا یحْسَبَنَّ الَّذِینَ كَفَرُوا انَّمَا نُمْلِی لَھمْ خَیرٌ لانْفُسِھمْ انَّمَا نُمْلِی لَھمْ لِیزْدَادُوا اثْمًا وَلَھمْ عَذَابٌ مُھینٌ ( آل عمران / ١٧٨ )
    اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے، ہم تو انہیں صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ یہ لوگ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں اور آخرکار ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔
    نیز فرماتا ہے :
    فَلا تُعْجِبْكَ امْوَالُھمْ وَلا اوْلادُھمْ انَّمَا یرِیدُ اللَّہ لِیعَذِّبَھمْ بِھا فِی الْحَیاۃ الدُّنْیا وَتَزْھقَ انْفُسُھمْ وَھمْ كَافِرُونَ (توبہ / ٥٥ )
    تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں بس اللہ کاارادہ یہی ہے کہ ان ہی کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے۔
    اس آیت شریفہ میں پروردگار عالم اپنے رسول کو منافقین کی زیادہ دولت اور زیادہ اولاد پر حیران ہونے سے روک رہا ہے ، اس لیے کہ مال و دولت کا زیادہ ہونا یا اولاد کا زیادہ ہونا ، انسان کو مشغول کرنے کا سبب ہیں اور انسان کے لیے سعادت بخش نعمت نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ انسان کو عذاب اور سیاہ بختی کی طرف دھکیل رہا ہوتا ہے ۔ خداوند متعال نے انہیں ان ظاہری امور میں مشغول کر دیا ہے تاکہ دنیا میں بھی اپنے لیے عذاب کے اسباب فراہم کریں اور خدا انہیں کفر و بے ایمانی کی حالت میں دنیا سے لے جائے ۔
    انسان کی وہ زندگی ۔ جسے وہ اپنی سعادت اور آسائش کا باعث سمجھتا ہے ۔ اس وقت حقیقی سعادت ہو سکتی ہے جب اپنے صحیح راستے پر استوار ہو ۔ جب انسان اپنی زندگی کو علم نافع اور عمل صالح جیسے دائمی اثرات کے ساتھ لے کر چلے اور ہر ایسی چیز میں مشغول ہونے سے پرہیز کرے جو انسان کو نفع نہیں دیتی ۔ یہ وہ زندگی ہے جس میں موت نہیں آ سکتی ۔ ایسی آسائش اور آسانی کہ جس کے ساتھ کوئی رنج اور سختی ملی ہوئی نہیں ہے ۔ ایسی لذت جس میں کڑواہٹ نہیں پائی جاتی ۔ اور یہ خدا وند متعال کی ولایت کے زیر سایہ زندگی ہے ۔
    پروردگار عالم کا ارشاد ہے :
    الا انَّ اوْلِیاءَ اللَّہ لا خَوْفٌ عَلَیھمْ وَلا ھمْ یحْزَنُونَ( یونس / ٦٢ )
    آگاہ ہوجاؤ کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔
    جو شخص دنیا میں مشغول ہو جاتا ہے ، دنیا کی خوبصورتیاں جیسے مال و دولت اور اولاد اسے اپنے ساتھ مشغول کر لیتی ہیں ۔ جھوٹی امیدیں اور آرزؤئیں اسے فریب دیتی ہیں ، شیاطین اس کے نفس پر تسلط قائم کر لیتے ہیں ۔ تو وہ ایسی لذتوں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے کہ جن میں سے ایک لذت کو حاصل کرنے کی خاطر اُسے دوسری لذت کو چھوڑنا پڑتا ہے ۔ جن چیزوں کو وہ اپنے لیے خوشی اور سعادت کا باعث سمجھ رہا ہوتا ہے وہی اس کے لیے سخت ترین عذاب میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ ہم اپنی زندگی میں اپنے آس پاس میں ایسی کئی مثالیں دیکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا کسی انسان کی طرف زیادہ رخ کرتی ہے اور اس کی دولت اور اولاد میں اضافہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ انسان خدا کی بندگی سے دور ہو جاتا ہے ۔ ایسا شخص روحانی عذاب اور تباہی سے قریب ہو جاتا ہے ۔ اس حالت میں انسان روز بروز دنیا کی بھول بھلیوں اورپیچ و خم میں گرفتار ہوتا جاتا ہے کہ جو بعض اوقات لذت بخش اور بعض اوقات اس کے لیے تلخی کا سبب ہوتے ہیں ۔ یہ وہی چیز ہے کہ جسے غافل لوگ وسیع روزی اور پر آسائش زندگی سمجھتے ہیں لیکن در حقیقت یہ ایک طرح کی تنگی اور گھٹن ہوتی ہے ۔
    پروردگار عالم فرماتا ہے :
    وَمَنْ اعْرَضَ عَنْ ذِكْرِی فَإِنَّ لَہ مَعِیشَۃ ضَنْكًا وَنَحْشُرُہ یوْمَ الْقِیامَۃ اعْمَى (١٢٤)قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِی اعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِیرًا (١٢٥)قَالَ كَذَلِكَ اتَتْكَ آیاتُنَا فَنَسِیتَھا وَكَذَلِكَ الْیوْمَ تُنْسَى ( طہ / ١٢٤ ۔ ١٢٦ )
    اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا اس کے لئے زندگی کی تنگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا محشور کریں گے۔ وہ کہے گا کہ پروردگار یہ تو نے مجھے اندھا کیوں محشور کیا ہے جب کہ میں (دنیا میں) صاحبِ بصارت تھا۔ارشاد ہوگا کہ اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس آئیں اور تونے انہیں بھلا دیا تو آج تو بھی نظر انداز کردیا جائے گا۔
    بنابر ایں یاد پروردگار سے منہ موڑنے ، دنیا کی زندگی سے امید لگانے ، دنیا کی زندگی کو ہی سعادت بخش سمجھنے اور دنیاوی لذتوں اور آسائشوں کو حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے رہنے کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان آزمائشوں کے پیچ و خم میں پھنس جاتا ہے اور وہ جن چیزوں کو نعمت تصور کر رہا ہوتا ہے ، انہی کے ذریعہ اسے عذاب دیا جارہا ہوتا ہے اور آخرکار خدا کی بندگی سے خارج ہوجاتا ہے اور کافر و بے دین ہو کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ اس آیت شریفہ میں ہم پڑھتے ہیں :
    انَّمَا یرِیدُ اللَّہ لِیعَذِّبَھمْ بِھا فِی الْحَیاۃ الدُّنْیا وَتَزْھقَ انْفُسُھمْ وَھمْ كَافِرُونَ ( توبہ / ٥٥ )
    بس اللہ کاارادہ یہی ہے کہ ان ہی کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے۔
    پروردگار عالم اپنی ” املا ” اور ” استدراج ” والی سنت کے بارے میں فرماتا ہے :
    وَالَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیاتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھمْ مِنْ حَیثُ لا یعْلَمُونَ (١٨٢)وَامْلِی لَھمْ انَّ كَیدِی مَتِینٌ (اعراف / ١٨٢ ۔ ١٨٣ )
    اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔ اور ہم تو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں کہ ہماری تدبیر بہت مستحکم ہوتی ہے۔(۷)
    سورہ فاطر کی بعض آیات میں خداوند متعال انسانی معاشرے میں جاری اپنی بعض سنتوں کے بارے میں فرماتا ہے :
    وَاقْسَمُوا بِاللَّہ جَھدَ ایمَانِھمْ لَئِنْ جَاءَھمْ نَذِیرٌ لَیكُونُنَّ اھدَى مِنْ احْدَى الامَمِ فَلَمَّا جَاءَھمْ نَذِیرٌ مَا زَادَھمْ الا نُفُورًا *اسْتِكْبَارًا فِی الارْضِ وَمَكْرَ السَّیئِ وَلا یحِیقُ الْمَكْرُ السَّیئُ الا بِاھلِہ فَھلْ ینْظُرُونَ إِلا سُنَّۃ الاوَّلِینَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃ اللَّہ تَبْدِیلا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃ اللَّہ تَحْوِیلا *اوَلَمْ یسِیرُوا فِی الارْضِ فَینْظُرُوا كَیفَ كَانَ عَاقِبَۃ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھمْ وَكَانُوا اشَدَّ مِنْھمْ قُوَّۃ وَمَا كَانَ اللَّہ لِیعْجِزَہ مِنْ شَیءٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلا فِی الارْضِ انَّہ كَانَ عَلِیمًا قَدِیرًا ( فاطر / ٤٢ ۔ ٤٤ )
    اور ان لوگوں نے باقاعدہ قسمیں کھائیں کہ اگر ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا آگیا تو ہم تمام اُمّتوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے لیکن جب وہ ڈرانے والا آگیا تو سوائے نفرت کے کسی شے میں اضافہ نہیں ہوا۔ یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الٰہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔ تو کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ دیکھیں ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے جب کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور خدا ایسا نہیں ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی شے اسے عاجز بناسکے وہ یقینا ہر شے کا جاننے والا اور اس پر قدرت رکھنے والا ہے۔
    …………………………………………………..
    1۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٦ ، ص ١٩٦ ۔
    2۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ١٢ ، ص ٢٨٠۔
    3 ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٤ ، ص ١٩٥۔
    4 ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٨ ، ص ١٩٩۔
    5 ۔ المفردات فی غریب القرآن ، ص ١٦٧ ، مادہ ” درج "۔
    6 ۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٨ ، ص ٣٤٦۔
    7۔ المیزان فی تفسیر القرآن ، ج ٩ ، ص ٣٠٨ ۔

    • تاریخ : 2018/07/04
    • صارفین کی تعداد : 1278

  • خصوصی ویڈیوز