خبریں

 کیا قرآن میں "امامت" صرف سیاسی قیادت کے معنوں میں ہے؟

 

 

قرآن کریم میں امامت بنیادی نوعیت کے مضامین میں شمار ہوتی ہے اور اگر ہم اس کے حقیقی پہلو کا جائزہ لینا چاہیں تو ضروری ہے کہ میں اس بات کی طرف اشارہ کر دوں کہ اسلامی مذاہب اور علم کلام کی کتابوں نے امامت کے صرف ایک پہلو یعنی "امت کی قیادت اور سیاست میں امام کے کردار” پر اکتفا کیا ہے۔ میرے خیال میں اس یک جہتی نگاہ کے ساتھ، امامت اور اس کے کردار پر قرآنی نقطہ نگاہ سے ہر گفتگو، ناقص ہو گی؛ کیونکہ قرآنی نظریے کی رو سے امام اس سے بڑھ کر بنیادی کردار کا حامل ہے اور یہ کردار (امت کی قیادت اور سیاسی پہلو) اس بنیادی ترین کردار کی اساس پر قائم ہے جو قرآن نے امام کو دیا ہے۔ اگر ہم قرآنی نظریے کے عناصر اور اس کے شواہد کو دیکھیں تو بالکل واضح ہو جائے گا کہ قرآن کریم امامت کے لیے ایک اعلٰی و ارفع مقام و منزلت کا قائل ہے اور امت کی قیادت اور اس کے امور کی باگ ڈور کا منشا اُس بلندترین مقام کو قرار دیتا ہے، لیکن جب ہم موجودہ کتب بالخصوص کلامی اورعقائدی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ گویا امام کے ذمہ صرف ایک عہدہ ہے اور وہ فقط یہی سیاسی منصب ہے !
اسی غلط نظریے کی وجہ سے امامت کے بارے میں بارہا سوالات اٹھائے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے؛ منجملہ یہ کہ : آیا بیعت امامت کی شرط ہے؟ آیا شورٰی کے ذریعے امامت منعقد ہو سکتی ہے یا نہیں؟ آیا امامت سیاسی عہدے کی حد تک عصمت کی محتاج ہے یا نہیں؟ وغیرہ۔ یہ تمام سوالات اور اس ضمن میں پیش کی جانے والی بحثوں کا محور امام کا سیاسی کردار ہے اور یہ اسی کی شاخیں ہیں، حالانکہ شائستہ یہ تھا کہ یہ سوالات اس مقام و مرتبے کے حوالے سے کیے جاتے جو اس سے کہیں بالاتر اور بنیادی تر ہے۔
اس طرح ہم امام کے دو کرداروں کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں، پہلے کو "عقیدتی کردار” یا "عقائدی پہلو” کا نام دیں گے۔ عقائدی پہلو کا دقیق مطلب اس بات کو سمجھنا ہے کہ آیا امام کا وجود کے اعتبار سے نظام کائنات میں کوئی کردار ہے یا نہیں؟ اور امام کے دوسرے کردار کو "سیاسی پہلو” (یعنی سیاسی امور کو چلانے) سے تعبیر کیا جائے گا۔
ماخوذ از :” پژوهشی در پرسمان امامت” ص۳۰-۳۱

  • خصوصی ویڈیوز