خبریں

میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید کمال حیدری (دام) سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں : سلام علیکم! اس وقت عالم اسلام کو "تکفیر" کے مسئلے کا سامنا ہے ۔ حضرت عالی  کی نظر میں ہم اس مسئلے کو کیسے حل کریں ؟

 

جواب: آیت اللہ حیدری کے نزدیک ان حالات میں شیعہ سنی کے درمیان وحدت اور تقریب کی کوششیں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوں گی کیونکہ ایک طرف سے اہل سنت اپنے کلامی اور اعتقادی مبانی کے لحاظ سے شیعہ کی تکفیر کے قائل ہیں ( دو مسئلوں "خلفا کی مشروعیت” اور”عدالت صحابہ” کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے) اور شیعہ بھی اپنے اصولِ عقائد کی بنا پر سنی کو کافر قرار دیتے ہیں (اہل بیت (ع) کی امامت کے انکار کی وجہ سے)

لہٰذا حقیقی وحدت تک پہنچنے کا مبنٰی اور بنیاد یہ ہے کہ دونوں مکتب ایک دوسرے کی تکفیر اور ایک دوسرے کو جہنّمی قرار دینے سے پرہیز کریں اور اس کا فیصلہ (جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے) قیامت کے دن خدا پر چھوڑ دیں: «وَ قالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصارى‏ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ قالَتِ النَّصارى‏ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ هُمْ يَتْلُونَ الْكِتابَ كَذلِكَ قالَ الَّذينَ لا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ فيما كانُوا فيهِ يَخْتَلِفُونَ (البقرة: 113)» (اور یہود کہتے ہیں: نصاریٰ کا مذہب کسی بنیاد پر استوار نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں : یہود کا مذہب کسی بنیاد پر استوار نہیں، حالانکہ وہ (یہود و نصاریٰ) کتاب کی تلاوت کرتے ہیں، اس طرح کی بات جاہلوں نے بھی کہی، پس اللہ بروز قیامت ان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کرے گا جس میں یہ اختلاف کرتے تھے۔) بقره/ ۱۱۳

اور یہ ہدف (یعنی ایک دوسرے کی تکفیر سے دستبردار ہونا) کبھی پورا نہیں ہوگا مگر یہ کہ دونوں گروہ، اپنے اصولِ عقائد کو ایک اجتہادی اور نظریاتی امر سمجھیں (اور ساتھ ساتھ ان کی اہمیت کے بھی قائل رہیں اور ان کا اظہار بھی کریں)، نہ ایسا واضح، شفاف اور بدیہی مطلب کہ جس کے انکار کو بدیہیّات اور مسلّمات کا انکار قرار دیا جائے اور اس سے کفر لازم آئے!

اگر دونوں اس جدید اور علمی نقطہ نظر تک پہنچ جائیں یعنی اپنے ان مبانی کو اجتہادی اور نظریاتی مان لیں تو طبعا مخالف کے ان پر یقین  نہ رکھنے سے کفر لازم نہیں آئے گا کیونکہ نظریاتی اور اجتہادی امور میں بحث اور تبادلہ خیال کا راستہ کھلا رہتا ہے اور تفکیر کی بالکل کوئی گنجائش نہیں رہتی؛ اس لیے کہ ادّلہ کی بنیاد پرایک نظریے اور ایک علمی چیز کو قبول نہ کرنا اور ایک واضح اور یقینی امر کا انکار دو الگ چیزیں ہیں۔

اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ تکفیر کا مسئلہ بنیادی طور پر وہاں پیش آتا ہے جب کوئی شخص ایک اہم، ضروری، واضح اور آشکار امر کا مکمل ہوش و حواس  کے ساتھ انکار کر دے لیکن جب ایک بحث نظریاتی اور اجتہادی ہو گئی تو تکفیر خود بخود منتفی ہو جائے گی؛ کیونکہ کسی کو بھی عقلی اور شرعی طور پر حق حاصل نہیں ہے کہ ایک اجتہادی ، علمی اور غیر بدیہی مسئلے کے انکار پر اپنے مخالف کو (جبکہ وہ اس پر بہت سی ادّلہ بھی رکھتا ہو) کافر قرار دے یا زبردستی اس کو ان ادّلہ کے برخلاف جو اس کے لیے حجت ہیں؛ کوئی دوسرا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور کرے ،  جیسا کہ دو فقیہ جب علمی اور اجتہادی عمل جو بہت سارے مبانی اور ادلہ پر قائم ہوتا ہے، کو طے کرتے ہیں اور آخرکار دو جدا حکموں تک پہنچتے ہیں تو کسی ایک کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے کو گمراہ اور کافر قرار دے چونکہ یہ حکم ایک واضح اور دو اور دو چار والا مسئلہ نہیں تھا کہ دوسرے نے جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کی ہو اور اس کے برخلاف حکم صادر کیا ہو! بلکہ ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ اپنی روش اور استنباطی و استدلالی عمل کی بنیاد پر آخرکار ایک حکم اور جدا نظریے تک پہنچے ۔ پس اس میں ملاک اور معیار فقط اور فقط دلیل ہے ۔

خلاصہ یہ کہ حضرت آیت اللہ حیدری کے نزدیک شیعہ سنی کے درمیان حقیقی اتحاد صرف اس وقت قائم ہوگا کہ جب دونوں گروہ اپنے بنیادی عقائد کو اس طرح سے بدیہی، حتمی اور اظہر من الشمس نہ سمجھیں کہ اپنے مخالف کیلئے انہیں بلاچون و چرا تسلیم کرنا ضروری قرار دیں؛ بلکہ انہیں علمی اور نظریاتی مطالب کا ایک مجموعہ سمجھیں (البتہ ان کی غیر معمولی اہمیت پر بھی یقین رکھیں) اور مخاطب کو یہ حق دیں کہ ان کا دلائل کی روشنی میں جائزہ لے اور اگر وہ انہیں قابل قبول سمجھے تو ان کو اپنا لے اور اگر معقول نہ پائے تو قبول نہ کرے۔

  • خصوصی ویڈیوز