خبریں

معاشرے کی اصلاح  کیسے کی جانی چاہیے ؟

بطور کلّی تمام الٰہی اديان کے؛خواہ وہ توحيدی ہوں يا غير توحيدی – کيونکہ غير توحيدی دين بھی موجود ہيں -اگر وقت ملا تو آپ عزيزوں کے ليے واضح کروں گا، دو رکن ہيں: پہلا رکن يہ ہے کہ ہماری موجودہ حالت،مطلوب نہيں ہے۔ دوسرا رکن: مطلوب حالت،ہمارے پاس نہيں ہے۔اسے عربی ميں يوں کہا جائے گا: "الوضع الموجود غير مطلوب والوضع المطلوب غير موجود”۔ کوئی ايسا دين نہيں آيا جس نے يہ کہا ہو کہ تمہاری موجودہ حالت درست ہے ۔ہر آنے والے دين اور شريعت نے يہی کہا کہ تمہاری موجودہ حالت مطلوب نہيں ہے ضروری ہے کہ جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہيں (اور وہ اس وقت موجود نہيں ہے) اس تک پہنچيں ، يعنی اس منزل تک۔ ہر دين نے يہ دو مطلب؛اب يہاں پر اديان ميں فرق ہے ايک دين موجودہ حالت کو سو فيصد تبديل کرنا چاہتا ہے يا کوئی دوسرا دين اسی فيصد يا کوئی تيسرا بيس فيصد تبديلی لانا چاہتا ہے۔ پھر تبديلی کا طريقہ کار بھی دو طرح کا ہو سکتا ہے؛ يا اصلاحی ہے يا پھر انقلابی۔ يہ بھی اپنی جگہ ہمارے ليے قابل بحث ہے کہ مثال کے طور پر اسلام معاشرے کے حالات کو تبديل کرنا چاہتا ہے تو اس کا اصل طريقہ کيا ہے ؟ انقلاب يا اصلاح! اور يہ مسئلہ بہت اہم ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ ہم اگر اس وقت اپنے مطلوب معاشرے کا قيام عمل ميں لانا چاہتے ہيں تو اس کيلئے ہميں انقلاب کے راستے سے وارد ہونا چاہئيے خواہ وہ شب خون ہو يا کوئی اور چيز يا ضروری ہے کہ اصلاح کا عمل انجام ديں بہت سے علمااس بات کے قائل ہيں کہ اصلاح کی جانی چاہیے ” انما خرجت لطلب الاصلاح في أمۃ جدي” ۔ جبکہ بعض دوسرے افراد کا خیال ہے کہ اسلام ميں انقلاب(شب خون وغيرہ) کی بالکل گنجائش نہيں ہے۔ اور بعض کی سوچ اس کے برعکس ہے کہ راستے مختلف ہيں، يہ امور ہماری موجودہ بحث سے خارج ہيں۔
ہماری بحث يہ ہے کہ ہر آنے والا دين ان دو ارکان کو مدّنطر قرار ديتا ہے يہ کہ موجودہ حالت، مطلوب نہيں ہے اور جو مطلوب ہے اسے وجود ميں لايا جانا ضروری ہے۔ اب وہ دين انفرادی ہو يا اجتماعی، اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کيونکہ اديان ميں بھی فرق ہے کہ آيا ان کا اجتماعی پہلو غالب ہے يا انفرادی پہلو يا وہ سرے سے ہی انفرادی ہے اور اجتماعی پہلو سے خالی ہے يا اجتماعی ہے اور انفرادی بعد نہيں رکھتا۔۔۔۔

  • خصوصی ویڈیوز