مقالات و آراء

  • سائنس اور دین کا ٹکراؤ (۵)

  • سائنس اور دین کے باہمی ارتباط کے حوالے سے  ہم مذکورہ اقوال سے متفق نہیں ہیں۔ ہمیں مقام ثبوت اور مقام اثبات یا دوسرے لفظوں میں مقام واقع اور نفس الامر میں فرق کرنا چاہئیے۔

    اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو واقع اور نفس الامر کی سطح پر سائنس اور دین کے مابین تضاد محال ہے کیونکہ جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ دین اللہ کی طرف سے ہے اور اس کائنات و طبیعت کا بھی خالق اللہ ہے۔ لہٰذا ان کے مابین تضاد، تناقض اور ذاتی منافات ناممکن ہے۔

    البتہ اگر آپ قائل ہو جائیں کہ دین بھی انسانی ہے اور سائنس بھی انسانی ہے تو انسانی نتائج میں کبھی ٹکراؤ ہوتا ہے اور کبھی یہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ عصر حاضر کے علوم طبیعات جو انسان کی ایجاد ہیں؛ بذات خود ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔

    جیسے ڈارون کا نظریہ ارتقا ہے کہ بعض علمائے طبعیت اسے درست کہتے ہیں اور بعض اسے خطا و خرافات قرار دیتے ہیں۔

    مقام ثبوت پر جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ دین کا مصدر الٰہی ہے اور اس دین کو نازل کرنے والے معبود نے ہی کائنات، طبیعت اور اس پر حکمفرما قوانین کو خلق کیا ہے تو کیا منافات، تصادم اور ٹکراؤ کا فرض ممکن ہے؟! ہرگز نہیں! بلکہ یہ سالبہ بانتفاء موضوع ہے۔

    یہ مقام ثبوت کے حوالے سے ہے۔

    البتہ مقام اثبات پر بھی سائنس اور دین میں  ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ علمائے طبیعات اور علمائے دین میں ٹکراؤ ہے؟!

    انسان کے سامنے جب طبیعت کی کسی حقیقت کا انکشاف ہو جائے تو وہ خیال کرتا ہے کہ یہ واقع کے مطابق ہے حالانکہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

    فرض کریں کہ ڈارون سو فیصد اس پر یقین رکھتا تھا کہ اس کا نظریہ واقع کے مطابق ہے۔ دوسری طرف جو اسے خطا قرار دیتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ یہ نظریہ مخالفِ واقع ہے۔

    پھر خود واقع کیا یہ ہو گا یا وہ؟! جبکہ واقع تو ایک ہی ہے۔

    پس معلوم ہوا کہ یہ اختلاف واقع میں نہیں ہے بلکہ دینی افکار کے حوالے سے علماء کی رائے میں ہے۔ کہا جائے گا کہ یہ دین کے حوالے سے فلاں کی تعبیر ہے۔

    مقام اثبات میں ٹکراؤ یقینی طور پر ہے اور یہ ٹکراؤ صرف علمائے طبیعات اور علمائے دین میں نہیں ہے بلکہ اگر علمائے طبیعات کو دیکھا جائے تو ان میں بھی ٹکراؤ ہے اور خود علمائے دین میں بھی ٹکراؤ ہے تو پس علمائے طبیعت اور علمائے دین میں بدرجہ اولیٰ ہو گا۔

    یہ ایک دائمی معرفتی مسئلہ ہے کہ ہر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی تعبیر، اس کا فہم اور اس کی تفسیر ہی واقع ہے؛

    جب تک آپ اس بے بنیاد اصول سے چھٹکارا نہیں پائیں گے اس وقت تک ہم ایک دوسرے کو قتل کرتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو ذبح کرتے رہیں گے۔ آپ سارا زور لگا کر دوسرے کو میدان بحث و تحقیق سے ہی خارج کر دیں گے۔

    اس پر تہمت لگائیں گے۔’’باھتوھم‘‘ اور ’اکذبوا علیھم‘‘ جیسی روایات کا سہارا لیں گے۔

    اس طرز تفکر کی جڑ یہ ہے کہ میں خود کو حق جانتا ہوں۔ خود سے اختلاف کرنے والے کو حق کا مخالف قرار دیتا ہوں۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ فلاں حیدری کا یا فلاں کا اور فلاں کا مخالف ہے بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حق کا مخالف ہے۔

    ہم بارہا ذکر کر چکے ہیں کہ صاحب الحق اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے تھے۔ نبیؐ فرمایا: انا وایاکم لعلی ھدی او فی ضلل مبین۔ صاحب حق ایسا نہیں فرما رہے

    تو ہماری کیا حیثیت ہے کہ ایسا کہہ رہے ہیں۔

    عزیزو! خدا کی قسم، اگر آپ سید حیدری کے مبانی میں سے صرف یہ ایک مبنیٰ اخذ کر لیں تو آپ کیلئے علم معرفت شناسی کے اعتبار سے کافی ہو گا۔

    • تاریخ : 2019/02/20
    • صارفین کی تعداد : 1428

  • خصوصی ویڈیوز