ہم نے اپنے بہت سارے درسوں اور مباحث (ان میں سے بعض مباحث کتاب "علم الامام” اور کتاب "الراسخون فی العلم” میں شائع ہو چکے ہیں) میں اشارہ کیا ہے کہ قرآن کریم متعدد اور اعلٰی قسم کے علمی مراتب کا حامل ہے اور ان میں سے بلند ترین مرتبے کے کئی نام ہیں جیسے "ام الکتاب ، الکتاب المکنون ، اللوح المحفوظ اور الکتاب المبین”۔ یہ متعدد نام ایک ہی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں جو حقیقت مرتبہ "مفاتیح الغیب” یا مرتبہ "الخزائن الالھیۃ” کی نشاندہی کرتی ہے اور ہم مذکورہ بحثوں میں اس عظیم مقام کی کچھ خصوصیات پر روشنی ڈال چکے ہیں اور یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ امام معصوم (ع) اس مرتبے پر فائز ہیں جو قرآنی علوم کی تجلی ہے اور اسی طرح اس مرتبے کے خزینوں کی کنجیاں بھی انہی کے اختیار میں ہیں۔ دوسری جانب ان ابحاث سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ شرعی احکام کے دو مرحلے ہیں ایک جعل و اعتبار کا مرحلہ (جسے علم اصول فقہ میں مرحلہ ثبوت کا نام دیا جاتا ہے) اور دوسرا اس جعل کے اظہار کا مرحلہ ہے(جسے علم اصول فقہ میں مرحلہ اثبات کہا جاتا ہے) ، امام (ع) کے پاس پہلے مرحلے کا علم ہوتا ہے جو احکام کی تشریع کے حوالے سے اہم ترین مرحلہ شمار ہوتا ہے ، چونکہ اس مرحلے میں تشریع کے جواز اور ملاک کا پتہ چلتا ہے۔ جب ہم ان دونوں پہلؤوں کو ملا کر دیکھتے ہیں تو ہمارے لیے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام (ع) کو شرعی احکام کا علم اس معرفتی مرتبے کے نتیجے میں ملتا ہے جس پر امام (ع) فائز ہیں اور جو قرآن کا بلند ترین مرتبہ ہے لہذا الٰہی احکام و قوانین کی تشریع کا اختیار امام (ع) کو حاصل ہے ۔ امام (ع) کی ایک اور خصوصیت ہے جو انہیں قرآن کریم سے ممتاز کرتی ہے اور وہ ہے "ناطقیّت” جو قرآن کی "صامتیّت” کے مقابلے میں ہے۔ بلا شبہہ قرآن کریم معرفت کا بنیادی منبع شمار ہوتا ہے اور اسی طرح اس کے اندر کائنات کے عظیم حقائق پوشیدہ ہیں لیکن ان عظیم حائق کو کشف کرنے کے لیے اس کو قاری اور مفسر کی ضرورت رہے گی، جو اس کی تفسیر کرے، اس کے ساتھ گفتگو کرے اور اس سے سوال و جواب کرے بالفاظ دیگر یہ مقدّس کتاب صرف اپنی وجودی حیثیت سے عالم ہستی میں مؤثر اور فاعل نہیں ہو سکتی، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح مؤثر ہو سکتی ہے تو ہم کہیں گے کہ اس کی تاثیر صرف ایسی ہستی کے واسطے سے ہو گی جو مؤثر ہو، مُدرک ہو اور اس کے مراتب و حقائق سے بخوبی آشنا ہو اور یہ مطلب اس کے وجودِ صامت ہونے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے کیونکہ روایات کے ایک مجموعے میں اس کو قرآنِ ناطق کے مقابلے میں قرآنِ صامت سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآن ناطق کا مصداق اہل بیت(علیھم السّلام) ہیں۔ امیر المومنین (ع) سے روایت ہے : «ذلک الکتاب الصامت – أی القرآن – و أنا القرآن الناطق» (یہ کتاب – یعنی قرآن – صامت ہے اور میں قرآن ناطق ہوں) . اس مقام پر ان کی ناطقیت سے فاعلیت(مؤثریت) کا معنی سمجھ آتا ہے۔ پس آئمہ(علیھم السّلام) ایسے قرآن ہیں جو فاعل ہیں اور خود موثر ہونے کی قدرت رکھتے ہیں البتّہ اذن پروردگار سے جیسا کہ واضح ہے۔ ان کی ناطقیت کے اس گہرے مفہوم اور ان کی وسیع پیمانے پر تاثیر کی بدولت، معرفت کے تمام مصادر میں ان کا پہلا درجہ ہے خواہ وہ تشریع یا تکوین کی سطح کے (مصادر) ہوں اور خواہ حاکمیت کی سطح کے کیونکہ وہ ان تینوں کے مدار پر فاعل (موثر) ہیں۔ قرآن و اہل بیت (ع) کی صامتیّت اور ناطقیّت کا ایک اور معنی ہے جو انتہائی دقیق ہے اور وہ یہ کہ "ناطقیت” پوری کائنات کے انسانوں اور دیگر موجودات کے تمام سوالوں کے مختلف جواب پیش کرنے کی حکایت کرتا ہے لیکن صامت میں یہ صلاحّیت نہیں ہے ۔ اس آخری معنی سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن کریم تینوں مراحل (تشریع ، تکوین اور حاکمیت) میں اجمال اور تلخیص پیش کرتا ہے اور امام(ع) اس اجمال کی تفصیل اور اس تلخیص کی تشریح فرماتے ہیں ۔ جو کچھ بیان ہوا اس سے آپ کے سوال کا جواب کلی طور پر واضح ہو گیا ہے اور آپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ اس کلام کے بہت سے مقدمات اور تفصیلات ہیں جنہیں زیادہ وسیع و عمیق بیان کی ضرورت ہے، جس کے لیے آپ ان دو کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں جن کی طرف ابتدائے گفتگو میں اشارہ کیا گیا اور اس کے علاوہ اس حوالے سے ہماری دیگر تحقیقات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔