خبریں

آیا ولایتِ اہل بیت (علیھم السّلام)؛ اعمال قبول ہونے کی شرط ہے ؟

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں : اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ کی جاتی ( بحار الانوار ، ج۲۴ ، ص۱۹۷) ۔
علامہ مجلسی(رہ) اس بارے میں لکھتے ہیں : یعنی ہم نے لوگوں کو عبادت کا طور طریقہ سکھایا ہے یا یہ کہ کوئی بندہ بھی کامل عبادت بجا نہیں لاتا سوائے ہمارے اور یا پھر یہ کہ ہماری ولایت عبادت کے قبول ہونے کی شرط ہے ۔
امام(ع) کی عبارت سے یہ تینوں مطلب مقصود ہیں۔
پہلا مطلب ظاہری ہے ، دوسرا واقع ہوا ہے اور تیسرے کو برتری حاصل ہے ۔
پس آپ(علیھم السلام) کی ولایت سے تمام اعمال قبول ہوتے ہیں اور یہ چیز عجیب اور تعجب کا باعث نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی نے مادی و روحانی طہارت اور رو بقبلہ ہونے کو نماز کے صحیح ہونے کی شرط قرار دیا ہے جبکہ قبولیت تو بہت بڑی بات ہے ۔ ان شرائط میں سے ایک شرط آپ(علیھم السّلام) کی ولایت کو قبول کرنا ہے؛ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خداوند متعال کی عبادت ویسے ہی کی جائے گی جیسے وہ چاہتا ہے نہ کہ اپنے سلیقے اور منشا کے مطابق۔ ورنہ خدا شیطان کی اس تجویز کہ وہ آدم کے سامنے سجدہ کرنے کی بجائے براہ راست خدا کو سجدہ کرے گا؛ کو قبول کرلیتا۔ اس نے فرشتوں کا آدم کے سامنے سجدہ کرنا قبول کر لیا لیکن ابلیس کی جانب سے آدم کو چھوڑ کر سجدہ کرنا قبول نہیں کیا؛ چنانچہ اشارہ کیا گیا ہے کہ ہمارے اوپر واجب ہے اسی طرح خدا کی اطاعت کریں جیسے وہ چاہتا ہے نہ اس طرح جیسے ہم چاہتے ہیں۔
لہٰذا جب خدا فرماتا ہے کہ تمہارے اعمال اور عبادات کے مورد قبول ہونے کی شرط اہلبیت(ع) کی ولایت کو تسلیم کرنا ہے تو کوئی عجیب یا خلاف قاعدہ بات نہیں ہے ۔
پس ضروری ہے کہ ہم اپنی عبادات میں اس شرط کو پورا کریں تاکہ یہ قبول ہو سکیں۔
عبادات کی روح ، ص ۵۶

  • خصوصی ویڈیوز