جبر و تفویض سے نکل کر انسانی افعال کو نظریہ امر بین الامرین کے تحت درج کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود انسانی عقل اس نظریے کی دلدل میں دھنس جاتی ہے اور اس کی وجہ وہ التباس و اشتباہ ہے کہ جو چند ظاہری چیزوں اور عقائد کے مابین جمع سے حاصل ہوتا ہے۔
قضا و قدر کی دو صورتیں ہیں: علمی کہ جو کلامی اور فلسفی مباحث کے تحت ہوتی ہے اور عملی کہ جو افراد اور اقوام کے معاشرے، تاریخ، سیاست اور فطرت کے تحت ہوتی ہیں۔ بلاشبہہ درست بات کو سمجھنے کیلئے علمی انداز عملی صورتحال پر مقدم ہوتا ہے کہ جس سے یہ اشتباہ دور ہو سکتا ہے اور درست مفہوم تک پہنچا جا سکتا ہے اور مصنف نے اس کتاب میں یہی سعی کی ہے۔ البتہ علمی اور اجتماعی پہلوؤں میں ارتباط کے بُعد سے بھی غفلت نہیں برتی ہے۔
کتاب کی ابحاث کو ان عناوین کے تحت مرتب کیا گیا ہے:
1. عرض الإشكالیۃ المتحكّمۃ بالموضوع وتقدیم صیاغۃ علمیۃ لمحتواھا
2. القضاء والقدر فی القرآن والحدیث
3. القضاء والقدر فی اللغۃ والاصطلاح
4. تقدیم تفسیر نظری للمقولۃ ینتھی بحلّ الوجہ العلمی من الإشكالیۃ المطروحۃ.
5. دراسۃ القضاء والقدر فی إطار تیارات الفكر الاجتماعی الحدیث والمعاصر انطلاقاً ممّا قدّمہ ھذا الفكر من معطیات فی نطاق المدرسۃ الإسلامیۃ وخارجھا مع التلویح ببعض النقود للفكر الاجتماعی الغربی والاستشراقی
6. تناول معطیات عقیدۃ القضاء والقدر وآثارھا العملیۃ على المستویین التربوی والاجتماعی
7. الانتھاء إلى خلاصۃ تبرز أھمّ محتویات البحث ونتائجہ