ماضی کے عقائد عوام، دانشوروں، مفکرین اور تعلیم یافتہ لوگوں کی گردنوں پر سوار رہتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید قواعد تاسیس کیے جائیں تاکہ دل و دماغ ماضی کی زنجیروں سے آزاد ہو سکیں۔ البتہ اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ماضی کی علمی میراث کو بالکل ہی چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ ایک بنیادی خطا ہو گی۔ مگر ہم یہ بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہم پر حاکم قرار پائے کیونکہ اس کا مطلب عقائد، شریعت اور اخلاق میں اندھی تقلید ہو گا۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں تو پس ضروری ہوا کہ ہم ایسے افکار کو اختیار کریں کہ جن سے ہماری عقلی، فکری، ثقافتی، روحی اور عملی ضروریات پوری ہوں۔
ان امور کے باعث اس کتاب کی تالیف کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کا موضوع فکری اور دینی موضوعات میں سے اہم ترین ہے۔ اگر ہم عقائد کی بنیادی مباحث میں ماضی بعید کے قواعد سے خود کو آزاد کر لیں تو ہم اس راہ میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
یہ کتاب دس فصول پر مشتمل ہے جس کے چار محور ہیں؛ جو درج ذیل ہیں:
المحور الأوّل: التفقّہ والاجتہاد والتقلید
المحور الثانی: العقیدۃ بین التصدّی المرجعی وعنصر الزمان
المحور الثالث: بحوث تمہيدیّۃ فی التوحید ومسائلہ
المحور الرابع: بحوث تمہيدیّۃ فی مدرسۃ أہل البیت
خاتمۃ: فی طريقیّۃ الفطرۃ لتحصیل المعارف الإلہیّۃ