اب سوال يہ ہے کہ بنيادى طور پر جب ہمارے پاس ايک اجتہاد ہے اور ان کے پاس بھى اپنا ايک اجتہاد ہے.آيا ہم اپنا نقطہ نظر بيان نہ کريں کيونکہ يہ وحدت کے منافى ہے؟ وہ بھى اپنا نظريہ بيان نہ کريں کيونکہ وحدت کے منافى ہے؟ نہيں ! ہرگز نہيں!سب کو اپنا نقطہ نظر بيان کرنا چاہيے، جيسے فقہى مسئلے ميں آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ آغا اہل کتاب پاک ہيں يا نجس ؟ آپ کيا کہيں گے؟ اگر آپ کا نظريہ طہارت ہے تو آپ کہيں گے پاک ہے اور اگر اس کے نزديک نجس ہے تو وہ کہے گا کہ نجس ہے. ليکن آيا آپ کو حق حاصل ہے کہ دوسروں کى توہين کريں يا نہيں؟ يعنى وہ شخص جو آپ کى اجتہادى رائے کى بجائے کسى اور رائے تک پہنچا ہے کيا آپ کو اس کى توہين ، اس پر لعن طعن اور اس پر سبّ و شتم وغيرہ کا حق پہنچتا ہے يا نہيں؟ جواب : ميرے خيال ميں ہميں اپنے اجتہادات کو مضبوط دلائل کے ساتھ بيان کرنا چاہئيے. ليکن آيا محکم ادّلہ کے ساتھ بيان کسى کى توہين ہے يا حقيقت بيان کرنے کے مترادف ہے؟ بيانِ حقيقت ہے!
آپ کہيں کہ ہمارا نظريہ يہ ہے تو کيا ہم کہہ سکتے ہيں کہ يہ نتيجہ ہے؟ نہيں! ہر گز نہيں ہم نتيجے کے ذمہ دار نہيں ہيں بلکہ ہم کہيں گے کہ يہ ہمارا اپنا اجتہاد ہے اور نيتجہ قيامت کے دن خدا پر ہے. اس آيہ قرآن پر توجہ کريں ، ايک بہت اہم آيت ہے ،ملاحظہ فرمائيں : سورہ بقرہ ميں آيت نمبر 113 : "وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ”(يہود کہتے ہيں کہ نصرانى حق پر نہيں)، يہى اختلاف جو اس وقت شيعہ اور سنى کے درميان ہے پہلے کن لوگوں کے درميان تھا ؟ نصارٰى اور يہوديوں کے درميان تھے، پروٹسٹنٹ اور کيتھولک کے درميان تھا. کيتھولکس کہتے تھے حق ہمارے ساتھ ہے اور پروٹسٹنٹ کيا کہتے تھے؟ حق ہمارے ساتھ ہے. (اور اس بنا پر ) تين چار صديوں تک يورپ ميں ايک دوسرے کو قتل کرتے رہے. يہاں تک کہ ساٹھ يا ستّر سال پہلے اس نتيجے تک پہنچے کہ تم اپنے اجتہاد پر عمل کرو اور ہم اپنے پر. لہذا اب مسيحيّت صرف يہ نہيں کہتى کہ صرف پروٹسٹنٹ يا کيتھولک بلکہ کہتى ہے کہ تمام اديان کو اپنے اجتہاد پر عمل کا حق حاصل ہے اور نجات بھى ہم سے مختص نہيں ہے.
"وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ”(يہود کہتے ہيں کہ نصرانى حق پر نہيں اور نصرانى کہتے ہيں کہ يہودى حق پر نہيں، حالنکہ يہ سب لوگ تورات پڑھتے ہيں). اس ميں علما نے اختلاف کيا ہے عام لوگ نہيں تھے. علما کہتے تھے کہ تم جہنمى ہو وہ کتہے تھے تم جہنمى ہو. قرآن کہتا ہے؛ آيا يہ کلام علمى ہے يا علمى نہيں ہے کہ آپ کہيں تم جہنمى وہ جہنمى؟! "كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ” (ايسي ہى باتيں وہ لوگ بھى کہتے ہيں جو بے علم ہيں)، جو بھى کہے کہ تمہارے پاس کچھ نہيں ہے آيا يہ کلام علمى ہے يا غير علمى؟ قرآن کيا کہتا ہے؟ غير علمى ہے! آپ کسى کو يہ کہنے کا حق نہيں رکھتے کہ تم کچھ بھى نہيں ہو.
بلکہ آپ کہيں ميرااجتہاد يہ کہتا ہے اور وہ بھى کہے ميرا اجتہاد يہ کہتا ہے اور بات ختم!! اب سنيے! پس آغا ان اختلافات، روز قيامت، جنت و دوزخ اور حق و باطل کا کيا بنے گا؟ قرآن جواب ديتا ہے ؛ پس اگر کوئى کہے کہ روز قيامت کيا ہوگا؟ آپ کو اشتباہ ہے کہ يہ جنتى ہے اور وہ جہنمى ہے ، خدا روز قيامت فيصلہ کرے گا کہ کون اہل بہشت ہے اور کون اہل جہنم ہے”فَاللَّـهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”(خدا ان سب کے درميان روزِ قيامت فيصلہ کرنے والا ہے).