آیت اللہ العظمیٰ سید کمال حیدری دام ظلہ کے دفتر کی جانب سے اکمال دین، نظام امامت کے اعلان اور مولائے متقیان علیؑ کی پیغمبرؐ کے دست مبارک سے تاجپوشی کا پرمسرت دن سب مسلمانوں کو مبارک ہو۔
قابل ذکر ہے کہ يہ رسول اللہؐ كا پہلا اور آخرى حج تھا اس لىے اس كو حجة الاسلام اور حجة الوداع بھى كہا جاتا ہے۔ اس حج كى ىہ خصوصىت بھى تھى كہ رسول اللہؐ كى سىیرت طىبہ سے مناسك حج جاننے كی بہترىن فرصت تھی۔
١٠ھ میں جب رسول خدا ؐ نے حج کرنے کا ارادہ کیا تو لوگوں میں عام اعلان کرایا۔ اس خبر کو سن کر حج پر جانے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد مدینہ میں جمع ہو گئی۔ اسی حج کو حجّۃ الوداع (کیونکہ آنحضرت ؐ کا آخری حج تھا) حجّۃ الاسلام، حجّۃ البلاغ(کیونکہ وہاں آیت ”بلّغ“ نازل ہوئی تھی)، حجّۃ الکمال اور حجّۃ التّمام(کیونکہ آیت اکمال و اتمام نازل ہوئی تھی)؛ بھی کہتے ہیں۔ ہجرت کے بعد آنحضرت ؐ کا یہی پہلا اور آخری حج تھا۔ شنبہ کے دن ٢٤ یا ٢٥ ذیقعدہ کو غسل کر کے، تیل لگا کر، لنگی اور ردا پہن کر پا پیادہ روانہ ہوئے، آپ ؐ کے ہمراہ آپ ؐ کی ازواج بھی تھیں جو محملوں میں تھیں نیز آپ ؐ کے اہل بیتؑ سارے مہاجرین و انصار اور مشہور و غیر مشہور قبائلِ عرب کے افراد بھی ساتھ تھے۔
مناسک حج ادا کرنے کے بعد جب مدینہ کی طرف پلٹے تو وہ سارا مجمع آپؐکے ہمراہ تھا اور جب جمعرات ١٨ ذی الحجہ کو جحفہ کے قریب ”غدیر خم “ میں پہنچے جہاں سے اہل مدنیہ، مصریوں اور عراق جانے والوں کے راستے جدا ہوتے ہیں تو جبرئیل امین یہ پیغام لے کر حاضر ہوئے:
{ياأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ}
اورآنحضرت ؐ کو حکم دیا کہ علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ علیؑ کی اطاعت ہر ایک پر واجب ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ؐ نے علیؑ کا ہاتھ پکڑ کے اتنا بلند کیا کہ دونوں کے بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب نے علیؑ کو پہچان لیا۔ اس کے بعد فرمایا:
اے لوگو! مومنین کے نفوس پر خود ان سے زیادہ کسے اختیار ہے؟
سب نے کہا: اللہ اور رسول ؐ سب سے بہتر جانتے ہیں۔
فرمایا:إِنَّ اللَّهَ مَوْلايَ وَأَنَا مَوْلى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنَا أَوْلى بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ.
یعنی اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں،پس جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔
اس کی تین بار تکرار کی اور احمد بن حنبل کے بقول چار مرتبہ کہا۔
اس کے بعد فرمایا:اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ وَأَحبّ مَنْ أَحبَّهُ وَأَبغض مَنْ أَبْغَضَهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ من خذلَهُ وَأَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ أَلاَ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِب. اے معبود! تو اس کو دوست رکھ جو اس (علی) کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو اس (علی) سے دشمنی کرے،تو اس کی مدد کر جو اس (علی) کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو اس (علی) کو چھوڑ دے اور حق کو اس طرف موڑ جدھر وہ (علی) مڑے۔ اس بات سے حاضرین،غائبین کو باخبر کر دیں۔
دعا ہے کہ خداوند عالم ہمیں دنیا میں ولایت امیر المومنینؑ پر کاربند فرمائے اور آخرت میں ان کی شفاعت سے نصیب فرمائے۔