حضرت آیت اللہ سید کمال حیدری (مدظلّہ) کی زندگی پر ایک اجمالی نظر
آیت اللہ سید کمال حیدری سن ۱۳۷٦ھ بمطابق ۱۹۵٦عیسوی کو کربلا معلیٰ کے ایک علمی اور روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ مرحوم سید باقر السید حسن السید عبد اللہ کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں ۔ آپ کا سلسلہ نسب امام زین العابدين(ع) سے ملتا ہے اور آپ ۵ بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں جبکہ آپ کے تین بھائی سيّد صالح ، سيّد محمّد اور سيّد فاضل ۱۹۸۲ میں بعثی حکومت کے ہاتھوں درجہ شہادت پر فائز ہوئے . آپ صغر سنی سے ہی غیر معمولی ذہانت اور عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے جن کی بدولت آپ نے پرائمری ، مڈل اور ہائی سکول کے امتحانات اعلٰی نمبروں کے ساتھ پاس کیے یہاں تک کہ آپ کے اساتذہ اور ساتھی بھی آپ کی علمی صلاحیتوں کی تعریفیں کیا کرتے تھے۔ آپ سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے اور بچپن سے ہی آپ کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو سن رسیدہ لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ انہیں صلاحیتوں کی وجہ سے آپ کے والدین آپ کو ڈاکٹر یا انجنیئر بنانا چاہتے تھے لیکن جس مذہبی گھرانے میں آپ نے آنکھ کھولی اور کربلا کی جس پر برکت فضا میں آپ نے سانس لینا سیکھی اس کا اثر یہ ہوا کہ اسلامی تعلیم کے ساتھ پہلے سے موجود والہانہ محبت اور رغبت کی وجہ سے آپ نے کاررسالت کی ذمہ داریوں کو اپنے دوش پر اٹھانے کا فیصلہ کیا اور دینی تعلیم کا آغاز کیا ۔
علمی زندگی
آپ نے اسلامی تعلیم کا بقاعدہ آغاز کربلا معلٰی سے کیا اور اس ابتدائی مرحلے میں آپ نے الشیخ حسین نجل اور علامہ الشیخ علي العيثان الاحسائی سے کسب فیض کیا جس کے بعد آپ نے اپنے استاد شیخ علی العیثان کے مشورے پر مزید تعلیم کے لیے نجف اشرف جانے کا فیصلہ کیا جو اس وقت علوم آل محمد (ع) کا سب سے بڑا اور اہم ترین مرکز تھا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں آپ اپنے علمی مدارج کواحسن طریقے سے طے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو صحیح سمت میں گامزن کر سکتے تھے۔
آپ نے نجف میں سطوح عالیہ کی تعلیم کا آغاز کیا اور اس مرحلے میں آیت اللہ سید محمد تقي الحکيم(رہ) اور آیت اللہ سید شہید عبد الصاحب الحکیم(رہ) جیسے علما کے دروس میں شرکت کی ۔ اپنی ذہانت اور محنت کی وجہ سے جلد ہی فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کے لیے آمادہ ہو گئے جس کے بعد آپ نے آیت اللہ سید شہید باقر الصدر (قدس اللہ سرّہ) ، آیت اللہ سید ابو القاسم موسوی الخوئی (قدس اللہ سرّہ) ،آیت اللہ شیخ مرزا علی الغروي (قدس اللہ سرّہ) اور آیت اللہ سید نصر اللہ المستنبط(قدس اللہ سرّہ) جیسے عظیم فقہاء کے درسوں میں شرکت کا آغاز کیا ۔ اس دوران آپ آیت اللہ شہید باقر الصدر کے کافی قریب رہے اور اکثر علمی بحثوں ، سوال و جواب اور مختلف مسائل میں مناقشہ آرائی کے لیے اپنے استاد کے محضر سے استفادہ کیا کرتے تھے ۔ شھید باقر الصدر کی منحصر بہ فرد شخصیت نے آپ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور آپ کےاندر جو علم اور فِکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے ،شھید صدر کے افکار ہی تھے جنہوں نے آگے چل کر آپ کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ معین کر دیا ۔
اس علمی سفر کے ساتھ ساتھ آپ اپنے سیاسی اور اجتماعی فرائض سے بھی غافل نہیں رہے اور اس وقت جب کہ بعثی حکومت کی جانب سے شیعہ نشین علاقوں بالخصوص کربلا اور نجف پر شدید دباؤ تھا اور ملک میں ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول طاری تھا آپ حکومت کی سفاکیت اور مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ؛ اس وقت بھی آپ کا شمار حوزہ علمیہ نجف کے فعال طلبا میں سے ہوتا تھا ، انہی سیاسی سرگرمیوں کا نتیجہ تھا کہ آپ حکومت کی نظروں میں آگئے اور آپ کی ہر نقل و حرکت کو نوٹ کیا جانے لگا جس کے بعد آپ نے عراق کو چھوڑ نے کا فیصلہ کیا اور کویت کے راستے شہر مقدس قم تشریف لے آئے اور یہاں مستقل طور پر قیام فرمایا ۔
قم تشریف لانے کے بعد آپ نے دوبارہ اپنے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کیا ، اس عرصہ میں آپ نے آیت اللہ میرزا جواد تبریزی (قدس سرّہ)اور آیت اللہ شیخ حسین وحید خراسانی (مدظلّہ) کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کے ساتھ ساتھ تفسیر ، فلسفہ اور عرفان کے حوالے سے آیت اللہ جوادی آملی(مدظلّہ) اور شیخ حسن زادہ آملی (مدظلّہ) کے سامنے زانوئے تلمذ خم کیا ۔
اس دوران آپ نے اسلامی علوم کی تدریس کا بھی باقاعدہ آغاز کیا اور اب تک آپ کئی کتابوں کی تدریس کر چکے ہیں جن کو اختصار کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے :
· فقہ اسلامی سے مربوط کتابیں : شہید اوّل کی کتاب "لمعہ دمشقیہ” (۳۴۵ درس ) ، شیخ انصاری کی کتاب "مکاسب محرمہ”(۱۸۷درس ) ، ” کتاب مکاسب ” باب بیع (۲۲۹ درس ) ،”کتاب مکاسب "کا درس خارج (٦۰ درس) ، فقہ کا درس خارج (جس کے ۲۰۰ سے زائد درس ہو چکے ہیں اور ابھی تک جاری ہیں )
· اصول فقہ سے مربوط کتابیں : تین جلدوں پر مشتمل ” حلقات” نامی شہید باقر الصدر کی کتاب (۴۰۴ درس ) ، آیت اللہ سید محمد تقی الحکیم کی کتاب”الاصول العامة للفقہ المقار”(۷۰ درس)، شیخ انصاری کی کتاب "الرسائل”(۹۰درس) اور اصول کا درس خارج (جس کے ۵۵۰ سے زائد درس مکمل ہوچکے اور ابھی تک جاری ہیں )۔
· اسلامی فلسفہ سے مربوط کتابیں : علامہ طباطبائی کی کتابیں ؛ "بدایة الحکمة”(۱۱٦ درس ) اور نھایة الحکمة(۳۳۵درس) ، آیت اللہ شیخ مصباح یزدی کی کتاب "المنھج الجديد لتعليم الفلسفة”(۱٦۸ درس)، ملا صدرا کی کتاب "الاسفار” ؛ پہلی جلد (۳۷۲درس) ، دوسری جلد (۸۰ درس ) ، آٹھویں جلد(۱۵۰ درس) اور نویں جلد(۲۴۰ درس )
· المنطق : شیخ مظفرکی کتاب "المنطق” (۱۰۵ درس)، علامہ سبزواری کی کتاب "منظومہ منطق” کے نفس سے مربوط مباحث (۷۰ درس ) ۔
· کلام اسلامی : مقداد سيوری کی کتاب "شرح باب حادی عشر” (۳۰ درس) ، باب "توحید” ( ۱۱۷ درس) ،باب "عدل الہی”(۱۱۸درس) ، باب "امامت”(۱۷۴ درس) ۔
· عرفان : ابن رکہ اصفہانی کی کتاب "تمہید القواعد”(۱٦۸ درس) ، شرح فصوص الحکم (۴۵۰درس) ۔
· تفسیر قرآن کریم : تفسیر قرآن کریم کے مقدمات (۱۱۸ درس)، تفسیر سورہ الحمد ( ۱۷ درس ) ، تفسیر آیت الکرسی (٦۴درس) ، تفسیر سور ہ آل عمران (٦۴ درس) ، تفسیر سورہ یوسف (۳٦ درس) اسی طرح قرآن کے مختلف موضوعات من جملہ ؛ نفس ، شفاعت ، اعجاز قرآن ، انسان کامل سے مربوط تفسیری دروس (۱۲۰درس )
· اخلاق اور تہذیب نفس : امام خمینی (رہ) کی کتاب "جہاد اکبر” کی شرح (۴۰ درس )۔
ان کے علاوہ بھی اب تک آپ فکر ، ثقافت ، عقائد اور تاریخ جیسے موضوعات پر ۴۰۰ سے زائد لیکچر دے چکے ہیں ۔
آپ جن شخصیات سے زیادہ متاثر ہیں ان میں امام خمینی(رہ) ، شھید باقر الصدر(رہ) اور علامہ طباطبائی(رہ) شامل ہیں ۔آپ کو فارسی زبان پر بھی عبور حاصل ہے لیکن آپ کے سارے درس عربی میں ہوتے ہیں اور آپ کی درینہ خواہش ہے کہ شیعہ مدارس میں پائے جانے والے خالص اور عمیق اسلامی علوم بالخصوص علامہ سید محمد حسین طبابائی(رہ) اور امام خمینی(رہ) کے افکار و نظریات کو عرب دنیا میں منتقل کیا جائے۔
آپ ان بزرگ علماء میں سے ہیں جن کو خدا وندا عالم نے مکتب اہل بیت (علیھم السلام) کی خدمت کرنے کی توفیق دی آپ نےعلم اصول ،علم فقہ ، علم حدیث و درایہ ، علم فلسفہ و کلام ، تفسیر قرآن کریم اور ادبیات کی تدریس کے ساتھ ساتھ ان موضوعات پر منفرد انداز میں قلم بھی اٹھایا ہے ۔
آپ کو یہ توفیق بھی حاصل ہے کہ آپ گزشتہ ایک دہائی سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف پروگراموں میں عقلی اور نقلی ادّلہ کے ذریعے مکتب اہل بیت (ع)کی حقانیت کو ثابت کرنے اور وہابیت جیسے منحرف فرقوں کے شبہات کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے سامنے ان کے حقیقی چہروں سے پردہ فاش کر رہے ہیں ۔آپ کے دلائل میں اتنا وزن ہے کہ ہر باشعور شخص ان کا قائل ہوجا تا ہے یہی وجہ ہے کہ مکتب اہل بیت (ع) کے سر چشمہ عصمت و طہارت سے پھوٹنے والا قطرہ آج ایک ایسے دریا کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی طلاطم خیز موجیں پورے زور و شور سے وہابیت کے علمی مراکز کو لرزہ بر اندام کر رہی ہیں ۔
درس و بحث کا طریقہ کار
اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہی اجتہاد ایک دشوار اور محنت طلب کام ہے اس طرح کہ عام طور پر صرف ایک فقہی مسئلہ کے استنباط کے لیے اجتہاد کے اس عمل میں مختلف وسائل ، علوم اور معارف کو بروئے کار لایا جاتا ہے اور جب کسی مسئلے کا استنباط کیا جاتا ہے تو اس دوران ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے سے مربوط مباحث اور مقدمات کی بازگشت دوسرے مختلف علوم من جملہ ؛ علم رجال ، علم حدیث ، علم لغت ،علم تفسیر اور علم کلام سمیت فلسفہ اور منطق کے بعض قواعد کی طرف ہوتی ہے ۔
اس لیے کوئی بھی فقیہ تب تک ایک صحیح فقہی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ان تمام دینی معارف میں مہارت حاصل نہیں کرلیتا ورنہ وہ کبھی ابھی اپنے مقلدین کی صحیح رہنمائی نہیں کرےگا کیونکہ فقہ دین کا جز ہے اور جب تک کل کے بارے میں تصور واضح نہیں ہو گا تب تک جز کو سمجھنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی کسی صحیح نتیجے کی امید کی جا سکتی ہے ۔
اس بنیاد پر آیت اللہ سید کمال حیدری نے اعلم کی تقلید کو شرط قرار دیا ہے اور اعلم سے ان کی مراد ایسا فقیہ ہے جو حلال و حرام سے مربوط احکام میں صاحب نظر ہونے کے ساتھ ساتھ تمام دینی معارف میں بھی تبحر علمی اور استنباط پر قدرت رکھتا ہو ۔ یہ چیز گزشتہ علما کی سیرت میں بھی نمایاں نظر آتی ہے کیونکہ ان میں سے اکثر ایک ہی وقت میں اپنے زمانے کے مفسر قرآن ، متکلم اور فقیہ شمار ہوتے تھے جن میں سے شیخ مفید ، سید مرتضی ، شیخ طوسی ، علامہ حلي اور علامہ مجلسی کا نام قابل ذکر ہے ۔
اور شاید اس قسم کے فقہی نطریے کا فقدان اس بات کا باعث بنا کہ بہت سے ایسے موضوعات اور علمی مسائل غفلت کا شکار ہوگئے جن کے حل و فصل کی ذمہ داری فقیہ کے کندھوں پر عائد ہوتی تھی ۔ کیونکہ ان میں سے بہت سارے موضوعات کئی ایسی نئی مہارتوں کے محتاج ہیں جن کے بارے میں ابھی تک ہمارےمدارس میں قلم نہیں اٹھایا گیا اورہم خود بھی سوشیالوجی ، علم نفسیات اور علم فلکیات ان جیسے دیگر علوم کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتے لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے ہاں رائج تقلیدی روش میں ان علوم کا فقدان نظر آتا ہے اور انہیں کسی قسم کی اہمیت نہیں دی جاتی ۔
ہم اس فقدان سے جنم لینے والے اثرات کو اپنی آج کی زندگی کے اہم ترین علمی اور عملی مسائل میں ملاحظہ کر سکتے ہیں جیسا کہ توضیح المسائل کی کتابوں کا عام لوگوں کو درپیش عملی اور سماجی چیلنجز سے دور ہونا ہے یعنی عام زندگی کے بہت سارے ایسے مسائل جن کے بارے میں مستقل طورپر کتابوں یا پھر ویب سائیٹوں کے ذریعے کثرت کے ساتھ خصوصی سوالات کیے جاتے ہیں توضیح المسائل میں ان کے بارے میں اشارہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی لو گ فقیہ سے ان کا براہ راست جواب سن پاتے ہیں ۔
یہاں اس بات کی جانب اشارہ کرنا مناسب ہے کہ کچھ چیزیں اس حالت سے مستثنی بھی ہیں یہ معمولی استثنا اس عمومی اور غالب مظہر کی حد بندی نہیں کرسکتا جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں ۔
آیت اللہ سید کمال حيدری کے نزدیک دینی نصوص کے مطالعے اور ان کی سمجھ بوجھ کے لیے زمان و مکان بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ؛ بے شک علم فقہ ایک "پریکٹیل علم” کے عنوان سے حکم کے صدور میں کار فرما سیاسی ، نفسیاتی ، تربیتی اور سماجی عوامل سمیت دیگر شرائط سے غافل نہیں رہ سکتا اسلیے فقیہ کو چاہیے کہ مناسب شرعی حکم دینے یا موقف اختیار کرنے سے پہلے ان عوامل کے بارے میں دقت کے ساتھ بحث کرے اور ان کی چھان بین کے لیے بھرپور کوشش کرے ۔
آپ کی رائے کے مطابق اگرچہ کہ روایات کی سند میں دقت ایک ضروری امر ہے لیکن مضمون کی طرف توجہ کیے بغیر صرف سند کو معیار قرار دینے سے بہت ساری روایات اپنے اعتبار سے ساقط ہو جائیں گی اسلیے آپ کے نزدیک اگر مضمون متواتر اور دیگر نصوص کے ذریعے اس کی صحت پر قرائن موجود ہوں تو اس کی سند میں دقت کرنا ضروری نہیں ہے اور اس روش کے ذریعے ہم بہت ساری ایسی روایات کی تصحیح کر سکتے ہیں جن کو مشکل سندی کی وجہ سے ناقابل اعتبار قرار دیا گیا ہو ۔
جیسا کہ آپ نے عقیدے کی بنیاد پر بہت سارے راویوں کو ضعیف قرار دینے کی روش پر بھی تجدید نظر کی ہے آپ کی نظر میں راویوں کی تضعیف پر مشتمل اس روش میں بہت ساری چیزیں موضوعاتی نہیں ہیں بلکہ ان کی بازگشت اس زمانے میں رائج فکری و مذہبی اختلافات کی طرف ہے جیسا کہ اس زمانے میں قم کے علمائے حدیث بہت سارے راویوں کو "غلو” کی بنیاد پر ضعیف قرار دیتے تھے جبکہ ان کی اصطلاح میں رائج "غلو” کا اطلاق آج مذہب کی بہت ساری بدیہی چیزوں پر بھی ہوتا ہے ۔
اسی طرح گزشتہ گفتگو کی روشنی میں بعض علمی بحثوں اور مطالعات سے جنم لینے والے اس نظریے کا بطلان بھی لازم آتا ہے جس کے مطابق ایسے راوی جنہوں نے حلال اور حرام سے متعلق روایات نقل کی ہیں وہ مذہب اہل بیت (ع) کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ عقیدےاور دیگر موضوعات کے بارے میں روایات نقل کرنے والے راوی درحقیقت صرف ائمہ کے روحانی و باطنی مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بہت ساری روایتیں فاقد اعتبار ہیں ۔
اس نظریے کے جواب میں آپ فرماتے ہیں : اس قسم کی تقسیم کسی وسیع تر نقطہ نظر کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ در حقیقت یہ تقسیم علوم آل محمد (ع) کو حلال و حرام کے دائرے میں محدود کرنے کے مترادف ہے جبکہ ائمہ اہل بیت(ع) تمام دینی معارف کے بارے میں گفتگو اور اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے اور اپنے اصحاب میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کے فکری افق اور اہتمام کے مطابق کلام کرتے تھے ۔
مرجعیت کا اعلان
اسلامی تعلیمات سے گہری اور دقیق آشنائی کے سبب آپ نے اس پر آشوب دور میں اسلامی تعلیمات اور افکار کی ترجمانی کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے مرجعیت کا اعلان کیا ہے ۔
اس ضمن میں آپ نے تشیع کے فکری ، معاشی ، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی تناظر میں ولایت اجتماعی کا نظریہ پیش کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جن ممالک میں تشیع کی اکثریت ہے وہاں پر نظام ولایت کے نفاذ کے لیے اقدام کرنا چاہیے لیکن پاکستان جیسے ممالک جہاں شیعہ اقلیت میں ہیں وہاں ولایت اجتماعی کے عنوان سے ایک مرجع تقلید کے زیر نظر تعلیم ، ثقافت ، اقتصاد اور سیاسی میدان میں تشیّع کی پیشرفت کے لیے کوشش کرنی چاہیئے اور مقامی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیئے ۔ جیسا کہ آئمہ اہل بیت (ع) کے زمانے میں جب ظاہری خلافت غصب کر لی گئی تو اس وقت آئمہ اطہار(ع) نے ولایت اجتماعی کے عنوان سے تشیّع کی بقا اور ترویج کے لیے مختلف طریقوں سے کام کیا ۔