پہلے اصول میں یہ مشخّص ہوا کہ امامت اور نبوت قدرت کے کارخانے میں قیادت، مرجعیت اور قضاوت کی طرح دو اجرائی منصب ہیں ۔ اب ان الٰہی مناصب کا ضامن کیا ہے (اور ان کا بھروسہ کس چیز پر ہے)؟ ممکن ہے کہ وسائل اور پراپیگنڈہ وغیرہ دنیوی عہدوں کی ضمانت فراہم کرتے ہوں لیکن ان الٰہی مناصب کا ضامن علم اور تقوا ہے اور اس سرمائے کی بنیاد پر افراد کو منصب دیا جاتا ہے ۔
اس ضامن کو "مقام ولایت” سے تعبیر کیا گیا ہے ؛ پس اگر سوال کیا جائے کہ مقام ولایت اور مقام نبوت و امامت کے مابین فرق کس چیز میں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبوت اور امامت ، اجرائی مقامات ہیں جن کا تعیّن مقام ولایت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، مثلا اس شخص کو نبی ہونا چاہیے یا نہیں ، امام ہونا چاہیے یا نہیں ، اگر مقامِ نبوت پر فائز ہو سکتا ہے تو کیا اولو العزم ہوگا یا نہیں ۔
قرآن صراحت سے فرماتا ہے : «وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ» (ہم نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے) (اسراء:۵۵) یہ برتری کس چیز میں تھی؟ اس برتری کا تعلق اجرائی مقامات کے ساتھ نہیں ہے چونکہ تمام انبیا خدا کی جانب سے مبعوث کیے گئے تھے اور ان کی اطاعت واجب تھی ۔ «لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ» (ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے) (بقره: 136) اطاعت کے مسئلے میں فرق نہیں کرتا کہ یہ نبی ہیں یا امام ، یا یہ آیت : «أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ» (اللہ کی اطاعت کرو! اور رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو) (نساء:59)، فرض کریں "اولو الامر” کا مصداق صرف اہل بیت (ع) ہیں لیکن ان کے مراتب بھی مختلف ہیں ، اس کے باوجود اطاعت میں سب مساوی ہیں ۔ پس نتیجہ یہ نکلا کہ برتری کا معیار نبوت یا امامت نہیں ہے بلکہ مقام ولایت ہے، لہذا اگر کہا جائے کہ امیر المومنین(ع) باقی انبیاء سے افضل ہیں تو آپ کا ذہن ان کے اجرائی مناصب کی طرف نہ جائے ۔
اہل سنت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارے آئمہ امام نہیں ہیں کیونکہ حمل شایع کے تحت امامت کے معنی حکومت کرنا ہے اور ہمارے آئمہ (ع) نے تو حکومت نہیں کی پس ان کے پاس امامت نہیں ہے! جیسے ایک عالم اور مرجع ، مرجع حمل شایع کے تحت ایک ایسا عالم ہے جس کی تقلید کی جاتی ہو پس اگر اس کا کوئی مقلد نہ ہو تو وہ مرجع نہیں ہوگا ۔ البتہ یہاں ہماری کوتاہی ہے کہ ہم نے امامت کی اچھی تعریف پیش نہیں کی، ہم نے پہلے دن سے ہی امامت کی یہ تعریف کی کہ امامت لوگوں کے دنیوی اور اخروی امور کو چلانے کا نام ہے ، اسی تعریف کی بنیاد پر ہی انہوں نے کہا ہے کہ آپ کے آئمہ امام نہیں ہیں چونکہ انہوں نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں لی پس وہ امام نہیں ہیں خواہ ان کے پاس اس کام کی صلاحیت بھی تھی۔ ہمارے اور ان کے مابین جو بنیادی ترین اختلافات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے بقول : آپ کا علمائے اہل بیت (ع) کو امام کہنا غلط ہے اور یہ کہ صرف امامت کی صلاحیت رکھنے سے کوئی امام نہیں بن جاتا ۔
اب اگر ہم مبنٰی کو بدل کر نبوت اور امامت کو اجرائی مقامات کی بجائے مقام ولایت کے تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آئمہ بالفعل ان وجودی مقامات کے حامل ہیں ۔
پس دوسرا اصول یہ ہے کہ الٰہی نظام کے اندر ہر اجرائی مقام کا معیار علم اور تقوا ہے جس کو ولایت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
البتہ مہم یہ ہے کہ وہ قوسِ صعود میں ولایت کے اعلٰی مراتب تک پہنچے نہ کہ قوس نزول میں ! یعنی اس دنیا میں آنے کے بعد ان مراتب کو حاصل کرے چونکہ قوسِ صعود کی تعبیر اس دنیا سے مربوط ہے پس اگر کوئی اس دنیا میں نہیں آتا تو بنیادی طور پر اس کے لیے قوس صعود کا تصور ہی نہیں ہو گا ، لہذا ملائکہ قوسِ صعود کے حامل نہیں ہو سکتے وہ جیسے تھے ویسے ہی رہیں گے نہ ان کے پاس آغاز ہے اور نہ ہی کمال ۔ لیکن جو آغاز کرنا چاہتا ہے اور کسی مرتبے تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کو اسی دنیا سے شروع کرنا پڑے گا اور یہ اس عالمِ دنیا کے افتخارات میں سے ہے ۔ لہذا پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :”لا تسب الدّھر فانّ الدّھر ھو اللہ”(1) ترجمہ: زمانے کو برا بھلا مت کہو کیونکہ زمانہ ہی (وجہِ) خدا ہے۔ یہ کہ بعض اس بازار(دنیا) میں نقصان اٹھاتے ہیں تو اس کی وجہ بازار کا بد ہونا نہیں ہے بلکہ یہ لوگ تجارت کے صحیح طریقہ کار سے اچھی طرح آشنا نہیں ہیں ۔ امام ہادی(ع) نے فرمایا : "سوق ربح فیھا قوم و خسر فیھا آخرون”(2) (ایک ایسا بازار ہے جس میں بعض فائدہ اور بعض نقصان اٹھاتے ہیں) گڑبڑ آپ کے اندر تھی جو آپ نے صحیح استفادہ نہیں کیا ۔
یہاں (دنیا) سے شروع کرنا چاہیے اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ "من السنن التی لا تتبدل ولا تتغیر”(ان سنتوں میں سے ہے جن میں تبدیلی نہیں آتی) ، خدا کی کچھ ایسی سنّتیں ہیں جنہیں وہ تبدیل کرنے کی اجازت اپنی ذات کو بھی نہیں دیتا ، البتہ اگر وہ ان کو تبدیل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے لیکن فرماتا ہے :”وعد علی اللہ” یہ وعدہ الہی ہے ،اس وعدے کو کس نے وضع کیا ہے ؟ فرماتا ہے کہ میں نے ہی اس کو وضع کیا ہے اور میں ہی اس کو ہر تبدیلی سے محفوظ رکھوں گا "کتب علی نفسہ”(اس نے اپنے اوپر واجب کر لیا ہے) (انعام:۱۲) خدا سب سے زیادہ قانون کا پابند ہے اور اس نے کسی استثنا اور تبصرے کی گنجائش باقی نہیں رکھی اور وہ اپنے آپ کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا ۔
ان موارد کو "سنن الھیہ” کہا جاتا ہے جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا: «۔۔۔ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلًا» (سو آپ اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے، اور نہ ہی اﷲ کے دستور میں ہرگز کوئی پھرنا پائیں گے، (فاطر: 43) ان میں کسی قسم کی تبدیلی پیش نہیں آئے گی ۔
ہماری اصطلاح کے مطابق تکوینی قوانین میں سے ایک اہم ترین قانون اور قرآنی تعبیرِ کے مطابق اہم ترین سنت الٰہی یہ ہے کہ اللہ کی جانب صعود کا آغاز یہاں (دنیا) سے کرنا ضروری ہے اور مرحلہ وار مختلف مراتب و منازل تک پہنچا جائے «إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ» (اچھے اور پاکیزہ کلام اس کی طرف بلند ہوتے ہیں) (فاطر: 10). ۔ یہاں سے آغاز کرنا چاہیے چونکہ نظامِ وجود کے اعتبار سے یہ اسفل السافلین ہے «لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ» (ہم نے انسان کو بہترین ساخت و انداز کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ پھر اسے سب سے نچلے مرحلے کی طرف لوٹا دیا۔) (تین: 4-5). یہ اس معنی میں ہے کہ ہم نے انسان کو پہلے قوسِ نزولی میں خلق کیا اور اس کے بعد بتدریج اس کو نیچے لے کر آئے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پر پہنچ گیا یہ اخلاق یا اقدار کی پستی نہیں ہے بلکہ وجودی اسفل السافلین ہے بعض نے اس سے غلط مطلب اخذ کیا اور خیال کیا ہے کہ یہ اقدار کی پستی ہے حالانکہ یہ آیت متعدد قرائن کی روشنی میں وجود کے بارے میں گفتگو کر رہی ہے نہ کہ اقدار کے بارے میں اور بہت سارے موارد میں ان دو کو آپس میں مخلوط کر دیا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسفل السافلین توہین ہے جبکہ توہین اس صورت میں ہوگی جب اس کا تعلق اقدار کے ساتھ ہوگا نہ کہ وجود کے ساتھ ۔
مثلا اب اگر ہم جماد کو جماد کہیں جو یقینی طور پر نبات سے بھی نیچے ہیں اور نبات حیوانات سے کم مرتبہ ہیں اور حیوان بھی انسان سے نچلے درجے پر ہے ؛ اب یہاں ان کی پستی کو ظاہر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ ان کی ظرفیت اور حقیقت کو بیان کرنا مقصود ہے لیکن اگر کسی شخص کو فاسق کہا جائے تو یہ پہلے مطلب کے برعکس ہے کیونکہ فاسق کہنے سے اقدار پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا ہے لیکن اگر کسی چیز کو جماد کہا جائے تو کیا واقعا اس کی حیثیت پر اعتراض کیا جا رہا ہے؟ نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے ، کیونکہ موجودات کو جمادات ، حیوانات اور انسان میں تقسیم کرنا(علم منطق کی رو سے) ایک نوعی تقسیم ہے لیکن انسان کی فاسق ، فاجر اور طاہر میں تقسیم، اقدار پر مبنی ہے۔ لہٰذا یہاں پر توہین یا احترام کی لفظیں استعمال نہیں کی جا سکتیں۔
پس اگر ہم اسفل السافلین کو ایک وجودی مرتبے پر حمل کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن اگر ہم اسے اقدار کے معنی میں لیں تو کیسا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ «فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ» قوسِ نزول ہے جو یہاں پہنچتی ہے کہ جو اسفل السافلین اور قوس صعود ہے اور یہی (دنیا) آخری منزل ہے اس کے بعد کوئی چیز نہیں ہے اب جب آپ دنیا میں آگئے تو آپ کے لیے صعود کا تدریجی سفر طے کرنا بھی ضروری ہے ۔
یہاں پر قرآن کی تعبیر بہت عجیب ہے اور میں نے یہ نکتہ صرف اہل سنت کی تفسیر "بیضاوی” میں دیکھا ہے جو بہت مناسب، دقیق اور عمیق تفسیر ہے ۔
البیضاوی کہتا ہے : قرآن میں کوئی ایسی تعبیر نہیں آئی جس میں کہا گیا ہو : «اِلَیَّ اِلَیَّ» بلکہ کہا : «تَعَالَوْا» ، پیغمبر(ص) لوگوں سے فرمایا کرتے تھے : تعالوا (آجاؤ) ؛ یہ لفظ لغت کی رو سے اس معنی میں ہے کہ اس زمانے میں جب لوگ ٹیلوں پر زندگی بسر کرتے تھے اور غروب کے وقت بلندی پر آ کھڑے ہوتے تھے اور ٹیلوں سے نیچے اتر کر کھیل کود میں مصروف اپنے بچوں کو یہ آوازیں دیتے تھے : تعالوا تعالوا۔۔۔۔ یعنی کیا ؟ یعنی اوپر آجاؤ ! لیکن ہم آج تعالوا کا معنی (آجاؤ) کرتے ہیں حالانکہ یہ اس سے مختلف ہے ، قرآن انسان سے کہہ رہا ہے : تعالوا(یعنی اوپر آجاؤ) یہ لغوی پہلو ہے جس کی طرف توجہ ضروری ہے کیونکہ ممکن ہے کہ "آجاؤ” ایک مساوی جگہ سے دوسری مساوی جگہ تک جانا ہو یعنی یہاں سے وہاں لیکن یہ حائز اہمیت نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اپنے نچلے مقام سے جدا ہو کر بلند مقام تک پہنچو۔
لہٰذا عظیم عرفا کے بقول عوام کے حوالے سے عالم کا یہ فریضہ ہے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بلند کرے نہ یہ کہ خود بھی ان کے ساتھ نیچے چلا جائے، یہ تو شرانگیزی ہے۔۔۔ بدقستمی سے اس فرمان «امرنا ان نکلم النّاس علی قدر عقولهم»(3) کا غلط مطلب نکالا گیا ہے ، اس سے مراد آپ کا اپنی سطح سے نیچے آنا نہیں ہے بلکہ ایسی روشوں سے استفادہ کرنا ہے جس سے ان لوگوں کی فکری سطح بلند ہو۔
اس حوالے سے بہت ساری صحیح اور معتبر روایات موجود ہیں جن میں امام معصوم (ع) فرماتے ہیں : «انّ الایمان عشر درجات»(4) یعنی ایمان کے دس درجے ہیں۔ عالم کا فرض یہ ہے کہ وہ کس طرح لوگوں کو درجہ بدرجہ، زینہ بزینہ اوپر کو لائے ، آئمہ کا بیان کس قدر زیبا ہے ۔ معصوم فرماتے ہیں : «فلا تسقط من هو دونک»(5) اب جب تم نے ایک درجہ ترقی کر لی ہے اور اوپر آ گئے ہو تو ان لوگوں کے بارے میں بہت محتاط رہو جو تم سے ایک درجہ نیچے ہیں کہیں ان کا مذاق مت اڑانا اور انہیں توہین آمیز نگاہ سے نہ دیکھنا !
اگر آپ نے اپنے سے نچلے درجے کے شخص کے ساتھ ایسا سلوک کیا «فیسقطک من هو فوقک»(6)تو یاد رکھنا جو شخص تم سے اوپر کے درجے پر ہے، تم سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ تم تو کچھ بھی نہیں ہو اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اہل بیت(علیھم السّلام) فرماتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو ہم بھی کچھ نہیں ہیں چونکہ خداوند متعال جو سب سے اعلٰی مرتبہ پر ہے ہم سے یہی کہے گا ۔اب کیا کرنا چاہیے؟ فرماتے ہیں : اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو بلند کرو «ارفعه الیک برفق»(7) ، جب آپ کا بچہ سیڑھی سے اوپر جانا چاہتا ہے تو آپ کس طرح اس کی مدد کرتے ہیں ؟ آیا پیار سے اس کو اوپر چڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں یا اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر کھینچ لیتے ہیں؟ اسی روش ،اسی مہربانی اور دقت کے ساتھ لوگوں کا ہاتھ بھی پکڑیں اورانہیں اوپر لے آئیں ۔
لیکن افسوس ہے ان پر جو ایسا نہیں کرتے، وہ اشتباہ کرتے ہیں کہ اپنے سے نچلے درجے کے افراد کی توہین کرتے ہیں اب خواہ یہ توہین روحانی لحاظ سے ہو یا نفسیاتی اور اعتقادی لحاظ سے، اب کیا کرنا چاہیے؟ «ومن کسر مؤمناً فعلیه جبره» یہاں صرف توبہ و استغفار ثمر آور نہیں ہو گا کیونکہ آپ کو اس کی حوصلہ شکنی کی تلافی کرنا ہو گی ۔ یہ ہیں تعلیمات اہل بیت (ع) ۔
پس تیسرا اصول یہ ہے کہ جو شخص قوس صعود میں وجودی مراتب کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اس کو "انسان کامل مکمِل”سے تعبیر کیا گیا ہے ، اب وہ نہ فقط کامل ہے بلکہ اس کا فرض بنتا ہے کہ دوسروں کی شخصیت کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے «فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ» پس (اے رسول! (ص) جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ خود اور وہ لوگ بھی جنہوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں) (هود: 112) ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم عالم بن گئے تو اب ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی علم ، اس کے نتائج اور اس کے وجودی مقامات اس چیز کا تقاضا کرتے ہیں کہ دوسروں کا ہاتھ پکڑیں اور ان کو اوپر لے کر آئیں ۔
یہ سب تو نظریاتی حوالے سے لیکن مصداق کی نشاندہی کرنا اب عقل کا کام نہیں ہے کہ وہ مشخص کرے کہ کس نے اس چوٹی کو سر کیا ہے ؛ آیات اور روایات نے صرف ایک شخصیت کا ذکر کیا ہے : «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى» (پھر وہ قریب ہوا اور زیادہ قریب ہوا) (نجم 8) کسی پیغمبر اور امام کے بارے میں اس طرح نہیں کہا گیا ، اور خود آئمہ(ع) نے بھی اپنے بارے میں ایسی تعبیر استعمال نہیں کی یہ مقام اس مطلق انسان کامل کے ساتھ مخصوص ہے ۔ حضرت ابراہیم (ع) بھی انسان کامل تھے لیکن دوسروں کی نسبت انسان کامل ؛ دیگر پیغمبر اور آئمہ (ع) بھی سب انسان کامل ہیں لیکن دوسروں کی نسبت مگر جو مطلقا انسان کامل ہے صرف پیغمبر ختمی مرتبت(ص) ہیں ۔
(1) جامع الاخبار ص۱۶۰
(2) تحف العقول ص ۴۸۱
(3) کافی ج۱،ص۲۳
(4) کافی ، ج۲ ، ص ۴۵
(5) ایضا
(6) ایضا
(7) ایضا