مقالات و آراء

  • کیا سلفیت اور وہابیت کی حقیقت ایک ہے ؟

  • بعض اسی وہمی روش کی بنا پر کہتے ہیں کہ سلفيت دراصل وہابيت ہی ہے اور ہم اس مطلب کو چينلوں ، تقريروں اور تحريروں ميں مشاہدہ کر رہے ہيں کہ وہ لوگ سلفيت اور وہابيت کو ايک ہی چيز سمجھتے ہيں ۔ ايک جملہ میں کہا جاسکتا ہے کہ "سلفيت ” قرآن و سنت کو سمجھنے کی ايک روش ہے جیسے اخباریت اور اصولیت ، اسی طرح یہ بھی قرآن و سنت کو سمجھنے کا ايک طريقہ ہے ؛ ليکن وہابيت منہج نہيں ہے بلکہ ايک مذہب ہے جس کی بنياد "ابن تيميہ”نے رکھی اور "محمد بن عبد الوھاب” نے اس کی ترويج کی ہے ۔ بسا اوقات وہابيت ہر اس شخص پر کفر و گمراہی کا فتویٰ لگاتی ہے جو اس مکتب کو قبول نہیں کرتا،اگر وہابيت وہی سلفيت ہوتی اور سلفيت بھی يہی وہابيت ہوتی تو ان سب کو ايک اصول پر متفق ہونا چاہیے تھا درحالنکہ وہابيت بہت سارے سلفيوں پر کفر اور گمراہی و ضلالت کا حکم لگاتی ہے اور اس مطلب پر شاہد يہ ہے کہ اشاعرہ معتزلہ کے مقابلے ميں ہيں اور اہل سنت و الجماعت کے سلَف ميں سے ہيں ليکن وہابی کہتے ہيں کہ يہ گمراہ ہيں اور ان کا اہل سنت کے ساتھ کوئی واسطہ نہيں ہے ۔جبکہ اشاعرہ کہتے ہيں کہ ہم اہل سنت و الجماعت ہيں اور سلف (گزشتہ افراد) کی روش پر يقين رکھتے ہيں ۔

    یہاں بعض منابع کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے :

    پہلا مورد : علامہ "البانی” اپنی کتاب "الفتاوی المنھجيۃ اسئلۃ حول السلفيۃ” ۴۱ ميں کہتا ہے "ضروری ہے کہ قرآن و سنّت کو سلف صالح يعنی تابعی اور تبع تابعی، کی روش کے مطابق سمجھا جائے” یعنی قرآن و سنت کا وہ فہم جو پہلی تين صديوں سے ہم تک پہنچا ، ہم پر حجت ہے یہ وہی فکر ہے جو مکتبِ اہل بيت(ع) کے پيروکاروں ميں پائی جاتی ہے کہ پہلی تين يا چار صديوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ (ع) کے اصحاب ، پيروکاروں ، علما اور مجتہدين کا فہم ہم پر حجت ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ہاں اجماع حجّت قرار پايا ،شہيد صدر کے نزدیک بھی چوتھی صدی کے اواخر تک کا اجماع معتبر ہے اور اس کے بعد کے اجماع اور شہرت کی کوئی حيثيت نہيں ہے ۔

    اور اس کے بعد وہ تکفيريوں کے بارے ميں گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور اس دور کے خوارج پر سخت حملہ کرتا ہے جنہوں نے مسلمانوں پر کفر کا حکم لگايا اور ان کو قتل کيا ۔ اسی وجہ سے البانی کو سعودی عرب سے نکال ديا گيا اور اسے کہا گيا کہ تمہارا وہابيت سے کوئی تعلق نہيں ہے اور واقعا وہ وہابی نہيں تھا ،وہ محمد بن عبد الوھاب کا معتقد نہيں ہے درحالانکہ اس کی رگ رگ سلفی ہے ليکن جيسا کہ وہ خود کہتا ہے کہ وہ اہل علم سلفی ہے اور حتی اس وقت سعودی عرب ميں بھی وہابيوں کی ايک بہت بڑی تعداد علمی سلفيت کی دعويدار ہے نہ کہ تکفيری سلفيت کی جس کا بانی ابن تيميہ تھا ۔

    وہ مزید کہتا ہے کہ ميں نے ان ميں سے بہت سارے افراد کے ساتھ ملاقات کی ہے اور حاليہ سفر کے دوران ان کے بزرگوں ميں سے ايک کے ساتھ بحث و جدال بھی کيا بحث کے دوران اس نے واشگاف الفاظ ميں کہا ہے کہ وہ آيت کی تفسير کو کوئی اہميت نہيں ديتا خواہ وہ دسيوں صحابہ سے نقل ہوئی ہو” يعنی سلف کی روش کو قبول کرتا ہے يا نہيں؟ نہيں! اس کے بقول قرآن و سنت محور ہے ! اب صحابہ نے قرآن و سنت سے کيا سمجھا، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہيں، ان کا فہم اور اجتہاد ہمارے ليے حجت نہيں ہے ۔

    دوسرا مورد : عبداللہ بن يوسف الجديع اپنی کتاب «العقيدۃ السلفيۃ في كلام رب البريۃ»، کے صفحہ نمبر ۳۶ پر کہتا ہے : "عقائد اور احکام ميں سلف صحابہ کا طريقہ، سب سے بہترين طريقہ ہے اور بلاشبہہ يہی درميانی راستہ، زيادہ عالمانہ و حکيمانہ اور زيادہ صحيح ہے” اور اسی اساس پر يہ نظريہ وجود ميں آيا کہ جو بھی اس روش سے خارج ہوگا اس کا لازمہ ايک نئی فقہ اور نيا عقيدہ ايجاد کرنا ہے ۔

    وہابی کون ہيں ؟

    وہابيت منہج نہيں ہے بلکہ ايک مکتبہ فکر ہے جس کا ايک خاص اعتقادی اور فقہی نظام ہے ،منہج اور فکری مکتب کے درميان بہت زيادہ فرق ہے۔ وہابيت بلاشبہہ ابن تيميہ کا فکری مکتب ہے نہ کہ محمد بن عبد الوھاب کا وہ تو ابن تيميہ کے مبانی کا احيا کرنے والا تھا ۔

    ۱) "علامہ عبد اللہ بن محمد الغنيمان” جو سعودی عرب کے بڑے علما ميں سے ہے ، اپنی کتاب "السبائك الذہبيۃ بشرح العقيدۃ الواسطيۃ”، میں کہتا ہے : "محمد بن عبد الوھاب کو اس کام کی وجہ سے شيخ الاسلام کہا جاتا ہے جو اس نے انجام دیا ہے (يعنی توحيد کی دعوت) ” حقيقت يہ ہے کہ شيخ محمد کی دعوت شيخ ابن تيميہ کی دعوت کا تسلسل تھا ۔ چونکہ اس نے ابن تيميہ کی کتابوں سے استفادہ کيا اور ان لوگوں نے اس (عبد الوھاب) کی کتابوں سے استفادہ کيا اور ابھی تک کر رہے ہيں یہاں تک کہ "محمد حامد الفقی” اور مصر کے ديگر علما نے کہا :”ابھی تک ہم اہل توحيد اور اہل سنت کو ابن تيميہ سے محبت کے ذريعے پہچانتے ہيں اور انہيں دوسروں سے الگ کرتے ہيں ، پس جو بھی اس کے ساتھ بغض رکھتا تھا ، ہم نے جان ليا کہ وہ اہل توحيد اور اہل سنت ميں سے نہيں ہے اور جو بھی اس سے محبت کرتا تھا ، ہم نے جان ليا کہ وہ اہل توحيد اور اہل سنت ميں سے ہے”

    دوسرے لفظوں میں جس نے بھی ابن تيميہ سے محبت کی بے شک اس نے رسول خدا(ص)سے محبت کی اور جس نے بھی آپ(ص) سے محبت کی بے شک اس نے خدا سے محبت کی ! وہی صحيح روايات جو امير المومنين علی (ع) کے بارے ميں وارد ہوئی ہيں کہ "مومن کے سوا کوئی آپ (ع) سے محبت نہيں کرتا اور منافق کے سوا کوئی آپ(ع) سے دشمنی نہيں کرتا ” ،آج وہ کہہ رہے ہيں کہ محور ابن تيميہ ہے اور اس سے محبت نہيں کرتا مگر موحد اور اس سے دشمنی نہيں کرتا مگر مشرک! اس کا سلفی روش کے ساتھ کوئی تعلق نہيں ہے ۔

    ۲) "عبد الكريم محمد التوجری” اپنی کتاب "غربۃ الاسلام” ،جلد۱ ، صفحہ نمبر ۲۱۶ اور ۲۱۷ ميں کہتا ہے : ” روئے زمين پر حقيقی اسلام کے پيروکار(يعنی ابن تيميہ کے پيروکار) کم اور مستضعف ہيں ،اکثر اسلامی ممالک ميں اہل شر و فساد کے درميان اجنبيوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہيں ۔ اکثر اسلامی ممالک ايسے سمندر ميں زندگی بسر کر رہے ہيں جو خدا کے ساتھ انواع و اقسام کے شرک سے بھرا پڑا ہے مثلا شام ، مصر ، مراکش ، عجمی ممالک ، ہند، بحرين ، قطيف اور ديگر دور دراز کی سرزمينوں پر نگاہ کریں "۔

    ۳) کتاب «نقض عقائد الاشاعرۃ والماتريديۃ» ميں "خالد علی المرضی الغامدی” صحفہ ۷ پر کہتا ہے : "اس مذہب(اشاعرہ)کی اشاعت نے اکثر اسلامی ممالک کو اپنی لپيٹ ميں لے ليا ہے بلکہ نوبت يہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اہل سنت کو سلفی ، اشاعرہ اور ماتريديہ ميں تقسيم کر ديا گيا ہے” پھر اسی کتاب کے صہحے نمبر ۲ ۱ پر کہتا ہے "اور واضح ہے کہ اشاعرہ اور ماتريديہ گمراہ فرقوں ميں سے ہيں”۔ "ماتريديہ” اشاعرہ کی ايک شاخ ہے جو اشاعرہ کی نسبت معتزلہ سے زيادہ نزديک ہے ورنہ ماتريديہ اشاعرہ سے ہٹ کر کوئی نئی چيز نہيں ہے ، مکتب اہل بيت (ع) کے اصولی علما کی طرح جو اخباريوں کی نسبت عقلی بحث سے زيادہ نزديک ہيں ۔

    پس مختصر طور پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ سلفی روش اور سلفيت ايک چيز ہے اور وہابيت جو ابن تيميہ کے پيروکار ہيں ، ايک الگ چيز ہے ۔

    درس عمليۃ الاستنباط الفقہي (499) سے ماخوذ ۔

    • تاریخ : 2015/05/23
    • صارفین کی تعداد : 1481

  • خصوصی ویڈیوز