آیت اللہ العظمٰی شہید باقر صدر کی نظریاتی بنیادوں کا استقرا گزشتہ تین دہائیوں سے ہمیشہ ان کے عزیز اور لائق شاگردوں کے مطمع نظر رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مبانی آج بھی معاشرے کی نظریاتی ضروریات کو بہتر انداز سے پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انسان کی سماجی زندگی کے نظم و انتظام کے حوالے سے اسلام کی برتری کو آشکار کرتے ہیں۔
اس انٹرویو میں حوزہ علمیہ قم و نجف کے فاضل مدرس، شہید باقر الصدر کے خاص شاگرد اور عصر حاضر کے ممتاز مفکّر آیت اللہ سید کمال حیدری نے بھی اس بارے میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ہم اس انٹرویو کے لیے وقت دینے پر آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔
سوال: آپ کی اجازت سے ہم انٹرویو کا آغاز اس سوال سے کریں گے کہ آپ شہید صدر سے کیسے آشنا ہوئے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے آپ کے سامنے استاد شہید صدر کے کچھ حقوق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائی ۔ شہید صدر سے میرا تعارف ایک اچھے شاگرد کے عنوان سے ہوا ۔ ابتدائی تعلیم مکمّل کرنے کے بعد میں نے نجف کا رخ کیا اور اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے "کلیۃ الفقہ” میں داخلہ لے لیا۔ یہاں شیخ یوسف فقیہ بھی ہمارے استاد تھے۔ آپ آیت اللہ شہید صدر کے بہترین شاگردوں میں سے تھے اور اس مدرسے میں ہمیں فقہ پڑھاتے تھے۔ ہمارے درمیان استاد اور شاگرد والا رابطہ قائم ہو چکا تھا۔ اس بنا پر میں نے ان سے معلومات لینا شروع کر دیں کہ اب ہم نجف تو آ چکے ہیں، یہ فرمائیں کہ ہمیں کس استاد کے درس میں شرکت کرنی چاہئیے؟ تو اس کے جواب میں شیخ یوسف، شہید صدر کی بڑی تعریف کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں ںے شیخ یوسف سے سوال کیا: آپ جو ہمیں آقا باقر الصّدر کے درس میں شرکت کے لیے کہتے ہیں؛ کیا وہ مجتہد ہیں یا نہیں
یہ کس سنّ کی بات ہے؟
یہ ۱۹۷۶ء کی بات ہے۔ انہیں میرا سوال بہت عجیب لگ رہا تھا۔ کہا کہ آپ کے سوال کا جواب دینے سے قبل میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ آغا شیخ یوسف کا کچھ عرصہ قبل لبنان میں انتقال ہو چکا ہے، خدا ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ کہنے لگے: اس وقت جب نجف اشرف میں آیت اللہ العظمٰی حکیم کی مرجعیت کا دور تھا ایک شخص جو ان کو نہیں جانتا تھا ، آ کر ان سے کہنے لگا : کیا آقا حکیم مجتہد ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آقا حکیم دوسرے خدا ہیں۔ یہ جواب اس شخص کے لیے بہت عجیب تھا۔ وہ کہنے لگا: یہ کیسا جواب ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جب آپ ایک مرجع تقلید کے اجتہاد کے بارے میں سوال کریں گے تو آپ کو اسی طرح کے جواب کی توقع رکھنی چاہیئے !
اس کے بعد آقا یوسف فقیہ نے مجھ سے کہا : یعنی کیا مطلب کہ وہ مجتھد ہیں یا نہیں ؟ اس وقت آقا باقر الصدر کے زیرِ نظر مجتہد پروان چڑھ رہے ہیں اور ان کا ہر شاگرد بذات خود مجتہد ہے لہذا میں نے بھی شہید صدر کے درس میں شرکت کا فیصلہ کر لیا اور جب میں سطوحِ عالیہ کے دروس تمام کر چکا؛ تو سب سے پہلے جس درس میں شرکت کی وہ شہید صدر کا درس تھا اور یہ درس ان کی نظر بندی اور شہادت تک جاری رہا ۔ یعنی تقریبا پانچ سال تک میں نے شہید صدر سے کسبِ فیض کیا ہے ۔ میں اس دوران ان کے فقہ اور اصول کے درسوں میں شرکت کیا کرتا تھا ۔ جس وقت میں نے شہید کے درس اصول میں جانا شروع کیا تو اس وقت اصول کے دوسرے دورے کی "مطلق و مقید”کی بحث اپنے آخری مراحل میں تھی۔ یہ درس "تنبیہاتِ اشتغال”کی درمیانی بحثوں تک جاری رہا اور اسی بحث پر منقطع ہو گیا ۔ فقہ کا درس بھی جہاں تک مجھے یاد ہے طہارت ، وضو اور ان سے مربوط مسائل تک جاری رہا اور انہی بحثوں پر منقطع ہو گیا ۔
سوال : براہ کرم شہید صدر کے نظریات و افکار پر کچھ روشنی ڈالیں
مرحوم آیت اللہ العظمٰی شہید باقر صدر واقعا اپنی ذات میں ایک مخزن علوم اور دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتے تھے ۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے یا کسی بھی مسئلے کے بارے میں تحقیق کا ارادہ کرتے تھے تو ان کی بحثوں میں ابتکار اور تازگی نظر آتی تھی ۔ فقہ ، اصول ، منطق ، معرفت شناسی اور اقتصاد کے مبانی میں شہید صدر کی روش دوسروں سے بہت متفاوت ہے ۔ جب ہم دوسروں کی بات کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ بنیادی طور پر یہ روش موجود ہی نہیں تھی، نہیں ! ایک کلّی تقسیم بندی کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا چاہیئے کہ تحقیق کی روش دو طرح کی ہے۔ ایک یہ کہ تحقیق جزئی نوعیت کی ہو یعنی ہم ایک مسئلے کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں، اس میں غور و فکر کریں اور دقّت سے کام لیں لیکن یہ کہ اس فکری نظام میں یہ مسئلہ کہاں واقع ہے؟ دیگر مسائل پر کیا اثر مرتب کرتا ہے؟ اور خود دوسرے مسائل سے کس قدر متاثر ہوتا ہے؟؛ مذکورہ روش میں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ یہ تحقیق کی ایک روش ہے ۔
دوسری روش یہ ہے کہ ہم منہجی انداز سے تحقیق کریں یعنی ہمارے پاس ایک فکری منہج ہو اور تمام مسائل کا ایک فکری نظام کے تحت جائزہ لیں۔ یہ سب چیزیں سلسلہ وار اور باہم مربوط ہوں۔ یہاں ذہن نزدیک کرنے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک مرتبہ انسان کسی شہر میں داخل ہوتا ہے، شہر کے اس داخلی چوک کا نام پوچھتا ہے پھر ایک سڑک پر آ جاتا ہے اور اس کی گلیوں کو تلاش کرتا ہے اور اس کے بعد بند گلیوں کا کھوج لگاتا ہے لیکن اسے شہر کی دوسری سڑکوں ، چوکوں، اہم مراکز اور اداروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتیں۔ اگرچہ اس کے پاس کافی معلومات ہیں لیکن ان کا دائرہ کار اسی ایک چوک اور سڑک تک محدود ہے ۔ ایک روش یہ ہے۔
اسی طرح ممکن ہے کہ جب آپ کسی شہر کے بارے میں سوال کریں تو آپ کو ایک ہیلی کاپٹر پر سوار کر کے فضا سے ہی شہر کے تمام چوک ،اس کی سڑکیں، گلیاں، مراکز اور ادارہ جات دکھا دئیے جائیں ۔ اب ممکن ہے کہ شہر کی کسی خاص جگہ کے بارے میں آپ کی معلومات نسبتا کم ہوں لیکن اب آپ کی کلی معلومات ایک دوسرے سے مربوط ہو کر ایک نظام کا حصہ بن گئی ہیں ۔ مثلا فلسفہ میں ملا صدا کے مبانی محدود ہیں لیکن انہوں نے انہی چند مبانی کے ساتھ ایک فلسفی ، کلامی اور تفسیری نظام تشکیل دیا ہے جو گزشتہ ۴۰۰ سال سے علما کیلئے کشش کا باعث ہے ۔ البتہ یہ اتنی آسانی سے ہر کسی کو میسر نہیں ہوتا کیونکہ جب تک آپ کسی علم کے مبانی پر کامل عبور حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک منہجی طرز تفکّر ممکن نہیں ہے لہذا آپ کے پاس ایک ایسا مربوط فکری نظام ہونا چاہیئے جس کی بنیاد پر فلسفہ ، فقہ ، کلام اور اقتصاد کے تمام مبانی آپ کی دسترس میں ہوں۔ اس صورت میں اگر آپ ایک رائے اور نظریے کا اظہار کریں تو آخر تک اس کا دفاع کرنے کے قابل ہوں گے اور اس کے آثار کو دوسروں کے سامنے بیان بھی کریں گے۔ شہید صدر کی بہت سی باتیں دوسروں کے کلمات میں بھی موجود ہیں۔ میں اس بات کو بالکل نہیں مانتا کہ انسان آ کر صفر سے شروع کر سکتا ہے ۔ اگر کوئی اس طرح کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے علم کی حقیقت کا پتہ نہیں ہے؟ علم صفر سے شروع نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ آئے اور علم میں کچھ مطالب کا اضافہ کر گئے۔ ممکن ہے کہ آپ بھی ایک فیصد یا دو فیصد ، اس سے کم یا اس سے زیادہ اثرات مرتب کریں اور کسی چیز کا اضافہ کر دیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ دوسروں کے مطالب کی اپنے فکری نظام میں تحلیل کر کے انہیں ایک دوسرے قالب میں پیش کریں۔ یہ درست ہے کہ مطلب میں فرق آ جاتا ہے لیکن مبانی جوں کے توں رہتے ہیں۔
خدا شہید صدر پر رحمت فرمائے ، وہ اس مسئلے میں بہت قوی تھے ۔ آج جب میں حوزاتِ علمیہ میں شہید صدر کے اصولی مبانی و مباحث بیان کرتا ہوں، تو ان کے بہت سارے مطالب کے بارے میں اپنے شاگردوں کو صراحتًا کہتا ہوں کہ جناب! یہ بات فلاں حکیم یا فلاں فلسفی اور مفسّر کی ہے ۔ یہ چیز اہم نہیں ہے بلکہ جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ جب یہی مطالب شہید صدر کے فکری نظام میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے مراحل سے گزرتے ہیں کہ مطلب بالکل ہی تازہ اور جدید ہو جاتا ہے ۔
کیا آپ اس بات کو مثال کے ذریعے بیان کر سکتے ہیں ؟
شہید صدر کے نظریہ "حق الطاعۃ”کو ہی دیکھ لیجیئے۔ یہ نظریہ علم اصول کے بنیادی مبانی میں سے ہے جو علم اصول کی نصف سے زائد مباحث کو تہ و بالا کر دیتا ہے ۔ اس کی بنیاد کیا ہے ؟ اس کی ایک بنیاد کلامی ہے کہ بنیادی طور پر ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ مالکِ حقیقی کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟ شہید صدر فرماتے ہیں : "مولا کا حق مطلق ہے مقیّد نہیں ہے”۔ اگر شہید صدر سے سوال کیا جائے کہ آپ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ حق مطلق ہے مقید نہیں ہے ؟ تو وہ کہیں گے : "میرا جواب دو کلموں پر مشتمل ہے۔ خداوند تعالٰی جب خالق ہے تو مالک ہے اور اگر مالک ہو گیا تو مملوک پر ان تمام موارد میں اطاعت واجب ہے جن میں اس کو مالک کے حق کا احتمال ہو” ۔
شہید صدر ، نظریہ "شکر منعم” کہ جس کی بنا پر علماء نے نظریہ "قبح العقاب بلا بیان” پیش کیا ہے؛ کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ "بنیادی طور پر مولویّت کا ملاک شکر منعم نہیں بلکہ مولویّت کا ملاک وہی خالقیت اور مالکیت ہے”۔
میں نے جب اس مسئلہ میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ علامہ طباطبائی(رہ) نے بھی یہ عبارت کہ بنیادی طور پر حق ، مالکیت اور خالقیت کا حق ہے؛ تفسیر المیزان کی تیسری جلد میں ذکر کی ہے ۔ شہید صدر نے اس عبارت سے نظریہ حقّ الطاعۃ تخلیق کر دیا کہ جو سارے علم اصول کو اُلٹ پُلٹ کر کے رکھ دیتا ہے۔
پس اگر آپ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ آقا صدر نے جو بات بھی کہی اور جو نظریہ بھی اپنایا؛ اسے صفر سے شروع کیا تو میں اس کو قبول نہیں کرتا ۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ان کے فلسفی و غیر فلسفی مبانی میں دوسروں کے بہت سے نظریات موجود ہیں لیکن یہی نظریات ان کے عمیق فکری نظام میں بالکل نیا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ یہ شہید صدر کی فکر کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
اس بنا پر ہم شہید صدر کے مبانی پر جزئی نگاہ نہیں ڈال سکتے ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہو گی کیونکہ اس صورت میں یہ نوبت آ جانے کا امکان ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ شہید صدر نے فلاں جگہ پر یہ بات کیوں کہی ہے؟ اگر ہم شہید صدر کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ انہیں اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے سمجھیں ۔
شہید صدر کی فکری بنیادیں کن خصوصیات کی حامل ہیں ؟
میرا خیال ہے کہ عام طور پر شہید صدر کی فکری بنیادیں تین چار خصوصیات کی حامل ہیں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ان کا اصول یا فقہ یا فلسفہ یا کلام ان خصوصیات کا حامل ہے بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کے سارے نظامِ فکری میں چند خصوصیات ہیں ۔
پہلی خصوصیت : یہ ہے کہ شہید صدر کے علمیات (Epistemology) سے متعلق خاص مبانی ہیں۔ بنیادی طور پر ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ علمیات/شناخت شناسی/معلومات شناسی (Epistemology) سے متعلّق ہمارے مناہج اور مبانی کیا ہیں؟ آپ کو معلوم ہے کہ تحقیق کی متعدد روشیں ہیں۔ روش یا محض عقلائی ہے یا ارسطوئی منطق والی یا روشِ تجربی ہے اور یا روشِ نقلی ۔ روشیں متعدد ہیں۔
شہید صدر نے سب سے پہلے "مسئلہ شناخت” کی جڑیں تلاش کیں۔ اب فرق نہیں پڑتا کہ یہ مسئلہ اعتقادی ہو یا تاریخی ، اصولی ہو یا کلامی یا فقہی۔۔۔ ۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ ہم تحقیق کے دوران کس روش کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حوزاتِ علمیہ کے اصولی ، فقہی اور اعتقادی مکاتب میں اس مسئلے پر بخوبی زیادہ کام نہیں کیا گیا ۔اگرچہ ہمارے فلسفی اور کلامی مکاتب میں کسی حد تک اس کا خیال رکھا گیا ہے چونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ ان مطالب میں سے ہے جنہیں اہل مغرب نے پیش کیا ہے ورنہ ہمارے اسلامی فلسفے میں مسئلہ شناخت کو تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا۔ البتہ وجود ذہنی اور بعض دیگر بحثوں کے ضمن میں اس مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے لیکن "شناخت” کے عنوان سے ہمارے پاس کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔ شہید صدر نے اس مطلب کو کھولا اور اپنی کتاب "الأسس المنطقیّۃ” میں بنیادی طور پر استنباطِ مسائل کی روش کو مورد بحث قرار دیا ۔ دوسرے الفاظ میں شہید صدر سے قبل نتیجے تک پہنچنے کے لیے صرف قیاسِ برہانی والی روش موجود تھی اور اس کے علاوہ دوسری کسی روش کو قبول نہیں کیا جاتا تھا اور نہ کوئی استقرائی روش کو تسلیم کرتا تھا ۔ چونکہ علما کی تعبیر کے مطابق اس کا نتیجہ یقینی نہیں تھا۔ شہید صدر نے مزید ایک روش کا اضافہ کیا ۔ بعض یہ گمان کرتے ہیں کہ شہید صدر قیاس برہانی کی روش کے مخالف تھے اور اس کو مکمل طور پر منسوخ کرنا چاہتے تھے۔ نہیں ! ایسا نہیں ہے ۔ وہ تو صرف یہ کہنا چاہتے تھے کہ صرف یہی ایک روش نہیں ہے کیونکہ قیاس برہانی پر مبنی روش کا دائرہ کار اور حدود اربعہ واقعًا محدود ہے ۔ شہید صدر اس روش کو قبول کرتے ہیں لیکن اس کو کافی نہیں سمجھتے اور ان کے بقول : ہمارے پاس مسائل کی تحقیق کے لیے دوسری روش بھی ہونی چاہیئے ۔ بہرحال شہید صدر نے کتاب "الأسس المنطقیۃ” کو دوسری روش کے اثبات کے لیے تالیف کیا تھا ۔ آپ تمام اصولی مسائل میں نظریہ "احتمال” سے استفادہ کرتے ہیں یعنی شہید صدر چاہتے تھے کہ حجیّتِ ظواہر ، حجیّتِ خبر واحد ، علم اجمالی اور دیگر دسیوں اصولی مسائل پر از سر نو تحقیق کی جائے ۔ گزشتہ زمانےمیں ایک اور روش کے تحت اس مورد میں تحقیق اور بحث کی جاتی تھی لیکن شہید صدر نے "سیرتِ عقلا” کی بحثوں کو اس روش کے مطابق بیان کیا جس کو انہوں نے اپنی کتاب ” الاسس المنطقیۃ” میں مورد بحث و تحقیق قرار دیا تھا ۔ آپ کے سامنے ہے کہ کتاب "الفتاوی الواضحۃ” میں انہوں نے استقرائی روش کے تحت سب سے پہلے توحید کو ثابت کیا۔ اس کے بعد عدل ، نبوت ، عبادات اور آخر کار تمام مسائل کو اسی روش کی بنیاد پر ثابت کیا ہے ۔ ان کی خواہش تھی کہ علمیات (Epistemology) سے مربوط اپنے تمام مبانی کو ایک کتاب میں جمع کریں ۔ اتفاقًا میں نے ان کی زندگی کے آخری مہینوں میں ان کی اپنے گھر میں نظربندی سے قبل ان سے یہ سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا :”ہاں! میں اس وقت ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہوں جس میں علمیات (Epistemology) کے تمام مبانی کو ایک جگہ جمع کرنا چاہتا ہوں چونکہ ان مبانی میں سے کچھ کو اقتصادنا ، کچھ کو فسلسفتنا ، کچھ کو الأسس المنطقیۃ اور کچھ دیگر کو اصولی بحثوں میں ذکر کیا گیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ان تمام مبانی کو ایک کتاب میں جمع کر دوں” ۔ اس کتاب کی تالیف عمل میں آٗئی یا نہیں مجھے نہیں معلوم !۔
لہٰذا شہید صدر یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے پانچوں اصولِ دین کو بھی ارسطو کے قیاسِ برہانی کی بجائے اسی مبنا کے تحت تحریر کیا جانا چاہیئے۔ شہید صدر نے کتاب "الأس المنطقیۃ” کے آغاز اور آخر میں یہ لکھا ہے کہ :” میرے نزدیک قرآن نے بھی عوام الناس کے لیے قیاس برہانی کی بجائے اسی احتمالی اور استقرائی روش سے استفادہ کیا ہے” ۔ اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ محقق جو علم کے مسائل میں وارد ہونا چاہتا ہے، اسے چاہیئے کہ سب سے پہلے ہمارے لیے شناخت کا مسئلہ طے کرے کہ اس کے استدلال کی روش کیا ہے؟
آج کل علم اصول میں کچھ علما مسائل کا استناد عرف سے کرتے ہیں، بعض عقل سے کرتے ہیں اور بعض روایت سے۔ کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ بزرگ علما، فقہی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ فلان نے (فقہ کی بجائے) فلسفہ لکھ ڈالا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ ایسی کوئی مشخص روش نہیں تھی جس سے فقہی تحقیق میں استفادہ ہو لیکن شہید صدر کے فکری نظام میں یہ روشیں بطور کامل و دقیق ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں ۔ یعنی ہر مسئلہ کو اس کی جگہ پر رکھا گیا ہے۔ یہ ہے پہلی خصوصیت جو بہت اہم بھی ہے۔
دوسری خصوصیت جو اسی پہلی خصوصیت پر مترتب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ شہید صدر بہت دقت سے مسائل کی چھان بین کرتے تھے ، جب کسی مسئلے کو پیش کیا جاتا ہے تو اس کی کوئی بنیاد بھی ہونی چاہیئے پس دیکھنا چاہیئے کہ اس مسئلے کی جڑیں کہاں ہیں ؟ شہید صدر مسئلے کی جڑ تک پہنچتے تھے کہ کیا اس مسئلے کی جڑ فلسفہ میں ہے یا کلام میں یا نقل میں ؟ اب اگر انسان سوال کرے کہ اس کام کا کیا فائدہ ہے ؟ تو ہم کہیں گے : چونکہ مسائل کی تحقیق کے لیے بروئے کار لائی جانے والی روشیں ایک دوسرے سے متفاوت ہوتی ہیں اگر ہم سمجھ گئے کہ یہ مسئلہ کلامی ہے تو ایسی روش سے استفادہ کیا جانا چاہیئے جو علم کلام سے ہم آہنگ ہو ۔ مثال کے طور پر یہی "حق الطاعۃ” کا مسئلہ جس کی جڑ کا شہید نے سراغ لگایا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ مسئلہ "قبح العقاب بلا بیان” کی ایک جڑ کلامی ہے۔ دوسرے لفظوں میں "قبح العقاب بلا بیان” کا حقیقی معنی مولا کے حق کا ضیاع ہے ۔ شہید صدر نے اجتماعِ امر و نہی ، استصحاب و برائت جیسی بحثوں میں اسی طرح سے مسائل کی جڑوں کا کھوج لگایا ہے۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ جب بھی آپ کسی حکم یا فتوے کا استنباط کرنا چاہتے تھے تو فقہ کے تمام مبانی کو مدنظر رکھتے تھے ۔ شہید صدر فرماتے تھے: "کوئی شخص اس وقت تک مجتہد نہیں بن سکتا جب تک یہ جان نہ لے کہ قرآن و اہل بیت(ع) کے تمام مبانی اور اصول کون کون سے ہیں ؟”
پس ان کا اصطلاحی مجتہد، اس اجتہاد سے بہت متفاوت ہے جو آج حوزاتِ علمیہ میں رائج ہے کہ مثلا آپ اس قدرعلم رجال اور اصول و فقہ پڑھ لیں تو مجتہد بن جائیں گے۔ نہیں! آپ فقہ میں بھی مجتہد نہیں بنیں گے کیونکہ یہ فقہ، اسلام کے اخلاق، اسلام کے عقائد و ۔۔۔ سے براہ راست مربوط ہے ۔ اس بنا پر ان کے مبانی کی چوتھی خصوصیّت مشخّص ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ شہید صدر کے نزدیک ہماری فقہ درحقیقت انفرادی ہے نہ کہ اجتماعی ۔ یہ فقہ ایسی فقہ ہے جو افراد کے لیے وضع کی گئی ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اسے معاشرے میں رہنے والے افراد کے لیے وضع کیا جاتا۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے ۔ مثلا آپ "النّاس مسلطون علی اموالھم (لوگ اپنے اموال پر پورا اختیار رکھتے ہیں)” کے قاعدے کی بنیاد پر یہ کہیں کہ آپ ہر کام کر سکتے ہیں؛ مہنگے داموں بیچیں ، ذخیرہ اندوزی کریں وغیرہ ۔۔۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فقہی قاعدے کی رو سے یہ درست ہے ۔ ہاں ! اگر فرد تنہا ہوتا تو یہ درست تھا لیکن آپ معاشرے میں رہتے ہیں۔ پس آپ کیلئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسلام کے مبانی میں کون سا حق مقدم ہے ؟! معاشرے کا حق مقدم ہے یا فرد کا ؟!
یہ وہ کلیدی امور ہیں جو استنباط میں آپ کی مدد کرتے ہیں ۔ اس بنا پر اگر ہمارے ذہن میں وہ اجتماعی مسائل نہ ہوں اور ہمیں معاشرے کی کوئی خبر نہ ہو اور اسی عالم میں استنباط کا عمل شروع کر دیں تو وہی کہنا پڑے گا جو امام نے فرمایا تھا کہ حوزاتِ علمیہ کی اصطلاح والا اجتہاد کافی نہیں ہے”۔ یہی وجہ ہے کہ آپ "الفتاوی الواضحۃ” میں دیکھتے ہیں کہ اس میں معاشرتی زاویہ نگاہ و ذوق موجود ہے ۔ میری نظر میں یہ خصوصیت شہید صدر کے مکتب اور فکری نظام کی نمایاں ترین خصوصیت ہے ۔
آخر میں اگر شہید صدر کی زندگی کا کوئی واقعہ آپ کے ذہن میں ہو تو بیان فرمائیے ؟
مجھے شہید آیت اللہ باقر الصدر کی زندگی کے بہت سارے واقعات یاد ہیں لیکن وقت کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ واقعات آپ کے لیے بیان کرتا ہوں ۔ ایک دن میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا :” آقا! آپ اور آپ جیسے افراد حوزہ علمیہ میں آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کسی کو بھی ان کی ذاتی زندگی اور حالات کے بارے میں خبر تک نہیں ہوتی کہ بڑی شخصیات کیسے مطالعہ کیا کرتی تھیں ، ان کے درس پڑھنے کا طریقہ کار کیا تھا ، دن میں کتنے گھنٹے مطالعہ کرتی تھیں، ان کے لکھنے کا انداز کیسا تھا ، انہوں نے کون سے درس پڑھے اور ان کی روز مرہ زندگی کیسے بسر ہوتی تھی اور اس قسم کے دیگرکئی سوالات ؟ ” میں نے مزید کہا: ” آپ تو اس قسم کے مطالب نہیں لکھتے ، کیونکہ حوزہ علمیہ میں اس چیز کا رواج نہیں ہے کہ کوئی عالم یا مرجع اپنے بارے میں لکھے اور دیگر افراد بھی ان چیزوں سے مطلع نہیں ہو پاتے چونکہ یہ چیزیں آپ کی شخصی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور دوسری جانب یہ مسئلہ ہمارے لیے مشکل بھی ہے اور اہم بھی کہ ہم جان سکیں کہ آُپ نے کس طرح اس کم عرصہ میں ان علمی مدارج کو طے کیا لہذا آج میں آپ کی خدمت میں اسی غرض سے حاضر ہوا ہوں اور آپ سے کچھ ذاتی نوعیت کے سوال پوچھنے کی اجازت چاہتا ہوں خواہ یہ چیز شاید ادب کے منافی شمار ہوتی ہو ” ۔
شہید صدر نے فرمایا : پوچھیں۔ میں نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص آپ سے سوال کرے کہ محمد باقر صدر کیسے محمد باقر بنے تو آپ کیا جواب دیں گے ؟ آپ مسکرائے اور جواب دیا : سوال اچھا ہے لیکن اگر کوئی مجھ سے اس طرح کا سوال کرے تو میں اس کو ایک ہی جملے میں یہ جواب دوں گا : باقر صدر مساوی ہے ۱۰ فیصد مطالعے اور ۹۰ فیصد تفکّر کے ۔
اگر آپ ان کے اس جملے پر توجہ کریں تو واقعا اس جواب کی گہرائی اور اہمیت کو سمجھ جائیں گے۔ یہ خود ایک خاص روش ہے ۔ اگر ابھی آپ علمی محافل کی طرف نگاہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت یہ روش مکمل طور پر الٹ ہو چکی ہے یعنی شاگرد کی ساری کوشش اور ہمت اس بات پر ہوتی ہے کہ اس کو کس قدر مطالعہ کرنا چاہیئے اور کس حد تک استاد سے مطلب اخذ کرسکتا ہے ؟ نہ اس بات پر کہ اسے کس قدر غور و فکر کرنا چاہیئے ۔ پھر میں نے دوبارہ سوال کیا : اگر آپ سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ دن میں کتنے گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کا جواب کیا ہو گا ؟ شہید صدر نے فرمایا : آقا حیدری ! اگر اجازت دیں تو میں آپ کے اس سوال کو دوسرے الفاظ میں پیش کروں ؛ آپ مجھ سے یہ سوال کریں کہ آپ دن میں کتنے گھنٹے کتاب کے ساتھ رہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا : آقا ! مجھے ان دو سوالوں کے درمیان فرق سمجھ نہیں آیا، میرا سوال بھی تو تقریبا یہی ہے ! انہوں نے فرمایا : نہیں ! بہت زیادہ فرق ہے ۔ اگر آپ سوال کریں کہ آپ دن میں کتنے گھنٹے مطالعہ کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ میں یہ جواب دوں کہ میں دن بھر ۶ یا ۱۰ گھنٹے مطالعہ کرتا ہوں لیکن جب آپ سوال کریں گے کہ آپ دن بھر کتنے گھنٹے کتاب کے ساتھ گزارتے ہیں ؟ تو میں ایک جملے میں اس کا جواب دوں گا کہ میں نیند کے علاوہ تمام وقت کتاب کے ہمراہ ہوتا ہوں ! انہوں نے مزید فرمایا : مثلا میں قصّاب کی دکان پر کھڑا ہوں لیکن کتاب کے ہمراہ ہوں کیونکہ ایک فکری مسئلہ میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے اور میں اس کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں یا بیٹھ کر کھانا کھانے میں مشغول ہوں لیکن پھر بھی کتاب کے ساتھ ہوں۔ لہٰذا اب آپ کو یہ پوچھنے کا حق نہیں ہوگا کہ میں دن میں کتنے گھنٹے مطالعہ کرتا ہوں چونکہ میں نیند کے اوقات کے علاوہ تمام وقت کتاب کے ہمراہ ہوتا ہوں! یہ ہیں شہید صدر کی باتیں اور مثالیں ۔
دوسرا مطلب یہ کہ شہید فرماتے تھے : میں پانچ سال تک نجف سے باہر نہیں نکلا یہاں تک کہ شب جمعہ کو کربلا بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ علما معمول کے مطابق شبِ جمعہ کو امام حسین (ع) کی زیارت کے لیے کربلا جاتے تھے لیکن شہید فرما رہے تھے کہ میں پانچ سال، نجف سے باہر نہیں نکلا۔ نہ کربلا گیا اور نہ کاظمین جو ان کا آبائی شہر تھا ۔ فرما رہے تھے: "جب کاظمین پہنچا تو اس کی سڑکوں میں گم ہو گیا کیونکہ پانچ سال اس شہر میں نہیں گیا تھا” ۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے جس سے درس و بحث میں ان کی مستقل مزاجی کا پتہ چلتا ہے ۔
دوسرا واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دفعہ میں نے ان سے سوال کیا : آپ کس عمر میں درجہ اجتہاد تک پہنچے اور آپ اس مرحلے کو طے کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا : میں ۲۰ سال سے پہلے درجہ اجتہاد تک پہنچ چکا تھا ۔ یہ بھی ان کی قابلیت اور علمی صلاحیت کی علامت ہے ۔
میں ان کی زندگی کا ایک اور واقعہ نقل کر کے گفتگو کو تمام کرتا ہوں۔ آیت اللہ سید محمود ہاشمی شاہرودی نقل کر رہے تھے کہ جب آقائے خوئی کی کتاب "منہاج الصالحین” شائع ہوئی تو میں نے اس کی پہلی جلد، شہید صدر کی خدمت میں بھیجی۔ آقا صدر نے اسی رات کتاب کا مطالعہ کیا اور ساتھ ہی ایسے موارد کو نوٹ کیا جو آقائے خوئی کے مبانی کے مطابق نہیں تھے ۔ نہ یہ کہ صحیح تھے یا نہیں ؟ نہیں! یہ سات موارد آقا خوئی کے مبانی کے ساتھ کسی طرح کی مطابقت نہیں رکھتے تھے ۔ شہید صدر کے ان اشکالات کو آقا خوئی کی خدمت میں بھیجا گیا انہوں نے ان کا مطالعہ کیا اور دیکھا یہ اشکالات صحیح ہیں۔ اس وقت آقا خوئی نے منہاج کی دوسری جلد کی اشاعت کو روکنے کا حکم دے دیا اور فرمایا : سب سے پہلے اس کتاب کو آقا صدر کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اس کا جائزہ لیں کہ کیا اس کے مطالب ہمارے مبانی کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد اس کو شائع کیا جائے ۔
ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں گفتگو کا یہ سنہری موقع فراہم کیا اوراللہ کی بارگاہ میں آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں ۔
میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو ذمہ داری آپ نے اٹھائی ہے خدا آپ کو اس میں کامیاب و کامران فرمائے ۔
[1] یہ گفتگو جناب شاہد توحیدی کے توسط سے انجام پائی اور اسے "جوان آنلائین” کی ۱۶ فروردین سن ۱۳۹۰ شمسی کی اشاعت میں شائع کیا گیا۔