مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث (1)

  • ميرا خيال ہے کہ اگر آيات و روايات بالخصوص ہماری روايات کی طرف رجوع کيا جائے (تو معلوم ہو گا کہ) سب سے اہم اصل بلکہ تمام دينی معارف کی اصل الاصول، علمِ توحيد ہے ۔اگر يہ مستحکم اور مضبوط نہ ہوئی تو ديگر تمام معارف پر سواليہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔
    درحقيقت اس وقت دوسروں کے ساتھ ہمارا اختلاف ديگر معارف ميں نہيں ہے بلکہ بنيادی اختلاف توحيد ميں ہے ۔ اگر دوسروں کے ساتھ يہ اختلاف حل نہ ہوا؛ تو دوسرے مسائل تو فقط علامتيں ہيں ، مثلا جب آپ بيمار ہوتے ہيں تو کہا جاتا ہے کہ يہ بخار تو صرف علامت ہے،اصل بيماری کچھ اور ہے اس کی تشخيص کرائيں۔ ہمارا بنيادی مسئلہ توحيدی معارف ميں ہے وہ حل نہ ہوں تو ديگر تمام مسائل ميں بحث کرنا بے ثمر ہوگا۔ کیونکہ اس وقت آپ نہ نبوت کے مسئلے کو حل کر پائيں گے نہ امامت ،نہ توسل ، نہ مدد طلب کرنے کو اور نہ ہی شرک کا مسئلہ حل ہو پائے گا ۔
    اب اگر آپ کے پاس توحيد کی صحيح تعريف ہی نہيں ہو گی تو آپ شرک کو کيسے سمجھ پائيں گے ؟ان لوگوں کااصل مسئلہ يہ ہے کہ انہوں نے توحيد کو اچھی طرح سے نہيں سمجھا اور پھر ديگر تمام مسائل ميں شرک کا فتوٰی صادر کرنا شروع کر ديا۔ کيونکہ بنيادی طور پر توحيد کا موضوع مشخّص نہيں ہو سکا چونکہ توحيد اور شرک کے درميان (منطق کی رو سے) مَلکہ اور عدم کی نسبت ہے ۔يعنی آپ پہلے اس ملَکہ کو سمجھيں تاکہ اسکے مقابل کو جان سکيں ۔لہٰذا ميرے خيال ميں اگر ہم چاہتے ہيں کہ مسائل اچھی طرح واضح ہو جائيں تو ہميں سب سے پہلے توحيدی تعليمات کی طرف جانا چاہيے۔ قرآن کريم اور روايات کی بھی اس امر پر تاکيد ہے اگر آپ نہج البلاغہ کا جائزہ ليں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے آئمہ (ع) سے بھی يہی مطلب نقل ہوا ہے ؛امير المومنين امام علی (ع) نہج البلاغہ کے پہلے خطبے ميں فرماتے ہيں : "أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُہ” ،انشاءاللہ بعد ميں بيان ہو گا کہ آيا معرفۃاللہ جو اوّل دين ہے آيا اس کا دوّم اور سوّم بھی ہے يا نہيں؟! يا خود ہی اوّل ہے اور خود ہی دوّم اور سوّم؛ اوّل و آخر خود ہی ہے !
    چونکہ يہ تعبير يعنی "أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُہ” آپ سوال کريں گے کہ يہ اس کا اوّل ہے پھر اس کا دوّم اور سوّم کيا ہے ؟ جو روايات اہل بيت (ع) سے نقل ہوئی ہيں ان کے مطابق اوّل و آخر يہی توحيد اور معرفت ہے ۔اصلا ان ميں دوّم اور سوّم کا ذکر نہيں ہوا، اگر يہ درست ٹھہری تو سب امور درست قرار پائيں گے کيوں کہ اصل يہی ہے اور اصل الاصول يہی ہے۔
    "أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُہ”اس منطقی تسلسل کو بندہ ناچيز نے ايک ايک گھنٹے کی تيس کيسٹوں ميں بيان کيا ہے يہاں بيان کردہ ان تين چار حصوں پر ميں نے "التّوحيد في نھج البلاغۃ” ، کے عنوان سے،ساری توحيد پر نہيں صرف انہی تين چار حصّوں پر میں نے تيس گھنٹے کی گفتگو کی ہے جو اب بھی ہماری ويب سائيٹ پر "التّوحيد في نھج البلاغۃ” کے عنوان سے موجود ہے۔
    ملاحظہ فرمائيں کہ امام اس جملے سے آغاز فرماتے ہيں: "أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُہ” يہ اصل ہے امام فرماتے ہيں: اگر معرفت کمال تک پہنچ جائے تو اس سے ايمان پيدا ہوتا ہے ۔ اس بنا پر اگر آپ ديکھتے ہيں کہ کسی جگہ پر ايمان ناقص ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معرفت ميں خامی ہے "وَکَمَالُ مَعْرِفَتِہ التَّصْدِيقُ بِہ” ۔ ملاحظہ کريں کہ کتنی دقيق عبارت ہے؟ واقعا برھان کی "حداوسط” ہے امام فرماتے ہيں کہ اگر ديکھيں کہ کسی جگہ معرفت ہے مگر اس کے ساتھ ايمان نہيں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معرفت ناقص ہے ۔ يہاں تصديق سے مرادايمان ہے کيونکہ ايک منطقی تصديق ہے يعنی وہ تصديق اور تصور جن کا ذکر منطق ميں ہے۔ مگر يہاں پر ہم علم کلام والی تصديق کی بات کر رہے ہيں جو منطق والی تصديق سے مختلف ہے۔ تصديق يعنی ايمان وہی جسے قرآن میں "آمنوا آمنوا آمنوا”سے تعبیر کیا گیا ہے۔امام فرماتے ہيں: اگر معرفت کمال تک پہنچے گی تو ايمان کا باعث بنے گی ۔اگر ديکھيں کہ کسی جگہ پر ايمان،ضعيف، کمزور يا متزلزل ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معرفت ميں خامی ہے ۔
    يہ ايک ايسی اصل ہے کہ نہ فقط مسئلہ توحيد بلکہ جہاں بھی تصديق اور ايمان ميں کوئی خلل نظر آئے تو اس کا منشا کيا ہے؟! معرفت کی کمزوری؛ پس سب سے پہلے معرفت کی درستگی ضروری ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ ہم آج کل بالعموم زيادہ تر توجہ ايمان اور تصديق سے مربوط مسائل پر ديتے ہيں۔ ليکن معرفت اور ايمان سے متعلّق مسائل سے چشم پوشی کرتے ہيں ۔لہٰذا جيسے ہی کچھ اعتقادی شبہات و اشکالات سامنے آتے ہيں تو ايمان کمزور اور متزلزل ہو جاتا ہے ، صرف اس وجہ سے کہ اس ايمان کی عمارت ايک مستحکم اور مضبوط بنياد پر کھڑی نہيں کی گئی ۔اس کی طرف امام اشارہ فرما رہے ہيں۔
    امام (ع) مزید فرماتے ہيں : اگر يہ ايمان کمال تک پہنچ گيا تو انسان موّحد بن جائے گا پس اگر ديکھيں کہ کسی جگہ شرک ہے تو اس کا منشا کيا ہے؟! ايمان کی کمزوری "کَمَالُ التَّصْدِيقِ بِہ تَوْحِيدُہ”۔ پس اگر تصديق اور ايمان اپنے کمال کو پہنچ گئے تو اس کے نتيجے ميں انسان توحيد تک پہنچ جائے گا ،اگر توحيد کمال تک پہنچی تو اخلاص پيدا کرے گی۔ يہ اخلاص، نظری اخلاص ہے نہ کہ عملی اخلاص کیونکہ ايک عملی اخلاص ہے کہ جس کے مقابلے ميں رياکاری ہے اس رياکاری کا تعلق عملی پہلو سے ہے ۔ يہاں پر نظری پہلو اور معرفت شناسی سے مربوط اخلاص مراد ہے ۔يہاں اخلاص کے مقابلے ميں شرک ہے يہ وہ اخلاص نہيں ہے کہ جس کے مقابلے ميں رياکاری ہے ۔عملی اخلاص کے مقابلے ميں رياکاری ہے اور معرفتی اخلاص کے مقابلے ميں شرک ہے ،يہ نظری اخلاص ہے نہ کہ عملی اخلاص ۔ "وَکَمَالُ تَوْحِيدِہ الْإِخْلَاصُ لَہ” اخلاص کيا ہے؟! امام اس کے بعد آخر تک تسلسل سے بيان کرتے ہيں پس امام ان تمام معارف کو کس بنياد پر قرار ديتے ہيں؟ معرفت کی بنياد پر ۔ لہٰذا ہم نے دو جلدوں پر مشتمل کتاب "التوحيد” لکھی ہے اسی طرح دو جلدوں پر مشتمل کتاب "معرفۃ اللہ” بھی لکھی ہے ۔ بہت سے لوگوں کا يہ گمان ہے کہ دونوں ايک دوسرے کے مترادف ہيں، نہيں!ايسا نہيں ہے؛ دونوں ميں کيا رابطہ ہے؟ (رابطہ يہ ہے کہ) توحيد معرفت کا ايک ثمر ہے۔ معرفت ايک مقولہ ہے اور توحيد دوسرا دراصل توحيد، معرفت کے بعد کا مرحلہ ہے۔”و کَمَالُ مَعْرِفَتِہ التَّصْدِيقُ بِہ ‏وَ کَمَالُ التَّصْدِيقِ بِہ تَوْحِيدُہ” توحيد، معرفت کے بعد کا مرحلہ ہے ۔ پس سب سے پہلی چيز کيا ہے ؟ معرفت !۔
    لہذا آپ ديکھتے ہيں کہ خود امام رضا(ع) کی بھی يہی روش ہے ، شيخ صدوق کی کتاب "التوحيد” کا جائزہ ليں ، امام رضا(ع) نے اسی تسلسل کو باقی رکھا ہے ۔ شيخ صدوق کی کتاب "التوحيد” صفحہ نمبر ۳۶ پر امام رضا(ع) سے منقول ايک طولانی حديث ہے ۔ باب بھی ذکر کردوں تاکہ برادران مراجعہ کر ليں ، باب "التوحيد و نفي التّشبيہ” روايت نمبر ۳۶ : اب اس کا مقدّمہ بيان کروں تو طولانی ہو جائے گا۔
    راوی کہتا ہے: جب مامون نے امام رضا عليہ السّلام کو ولی عہد بنانے کا ارادہ کيا تو بنی ہاشم(عباسيوں) کو جمع کيا اور کہا: ميں چاہتا ہوں کہ اپنے بعد زمامِ خلافت کو حضرت رضا عليہ السلام کے سپرد کر دوں۔ بنی ہاشم(عباسيوں)نے امام عليہ السلام کے ساتھ حسد کيا اور کہا: تم چاہتے ہو کہ خلافت اُس شخص کے ہاتھ ميں دے دو جو اس کی تدبير کے بارے ميں بالکل بے خبر ہے ! – وہ عالم ضرور ہيں ليکن سياسی مسائل سے باخبر نہيں ہيں،تدبير الخلافۃ يعنی سياسی مسائل -اگر تو چاہتا ہے کہ اُن کی لاعلمی تجھ پر ظاہر ہو جائے تو انہيں بھيج بلا وہ ہمارے پاس آئيں اور بات کريں تاکہ پتہ چل جائے کہ انہيں سياست کے بارے ميں کوئی سوجھ بوجھ ہے يا نہيں۔ مامون نے آنحضرت کی خدمت ميں کسی کو بھيجا پس امام عليہ السّلام تشريف لے آئے ، بنی ہاشم (عباسيوں)نے کہا: اے اباالحسن ! منبر پر جائيں اور ہمارے ليے ايسا علم بلند کريں جس کے زير سايہ ہم خدا کی عبادت کريں۔ امام عليہ السّلام منبر پر تشريف لے گئے، تھوڑی دير سر جھکا کر خاموشی سے بيٹھے رہے، پھر کھڑے ہوگئے اور خدا کی حمدوثناء کے بعد پيغمبر اور آلِ پيغمبر پر درود بھيجا ۔
    وہ نکتہ کہ جس کے ليے ميں نے يہ مقدمہ پيش کيا ہے، يہ ہے: يہ بتائيں کہ جس شخص پر سياسی مسائل سے بے بہرہ ہونے کا الزام ہو؛ اس کو جواب ميں کس موضوع پر بولنا چاہيے؟ سياسی مسائل کے بارے ميں اور ان افراد کے سامنے اپنی سياسی حکمت عملی کو واضح کرنا چاہئيے۔
    ليکن آپ (ع) فرماتے ہيں: بسم اللہ الرحمٰن الرحيم ، أوّل عبادۃ اللہ معرفتہ … الخ (اس موقع پر) توحيد کے موضوع پر ايک طولانی خطبہ!يعنی آپ (ع) کيا فرمانا چاہتے ہيں؟!يہ کيا ہے؟! امام کے اس خطبے کا پيغام کہ خطبے کا شان صدور بھی يہی ہے ، يہ فرمانا چاہتے ہيں کہ : تدبير اور سياست کی روح بلکہ اس کی بنياد اور اس کا تمام وجود توحيد ميں ہے ۔ اگر آپ نے کوئی موّحد ديکھا تو سياست اس کے سپرد کرديں اور اگر وہ موّحد نہ ہو اور توحيد کے بارے ميں علم نہ رکھتا ہو تو آپ کی سياست کو بھی خراب کر دے گا پس اصل کہاں ہے؟
    اللہ کی عبادت کا اوّل،اس کی معرفت ہے۔معرفت خدا کی بنياد اس کی توحيد ہے ،اُس کی توحيد کا کمال اس ميں ہے کہ اس سے صفات(زائد بر ذات) کی نفی کی جائے وہی مطلب ہے ليکن مختلف الفاظ کے ساتھ؛ بلاشبہہ امير المومنين (ع) کا کلام، امام الکلام ہے۔ واقعا ان کا کلام امام الکلام ہے جيسے يہ امام کا کلام ہے، امام الکلام بھی ہے ۔

    • تاریخ : 2016/05/18
    • صارفین کی تعداد : 1190

  • خصوصی ویڈیوز