مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث (2)

  • کتاب تحف العقول، صفحہ نمبر 325 پر ايک بہت اہم روايت ہے : امام صادق(ع) کی خدمت ميں ايک شخص حاضر ہوا ، امام(ع) نے سوال کيا : تمہارا تعلق کس گروہ سے ہے؟ یہاں آپ سوال کریں گے کہا آیا اس روايت کی سند درست ہے؟ عزیزان ميں بہت زيادہ اہل سند نہيں ہوں، ميرا خيال ہے کہ روايت کا مضمون يا خود سند کو بناتا ہے يا روايت کے مضمون پر روايات سے ديگر شواھد موجود ہوتے ہيں يا مضمون روايت پر قرآنی شاہد ہوتا ہے ۔ ميرے ليے اصل بحث يہ تين مبانی ہيں، ہاں! اگر سند بھی حسن ہو يا صحيح ہو يا معتبر ہو تو يہ بھی اچھی چيز ہے ۔ ليکن فقط سند، اصل نہيں ہے ۔
    ايک شخص امام صادق(ع) کی خدمت ميں حاضر ہوا تو امام (ع) نے اس سے سوال کيا :تيرا تعلق کس گروہ سے ہے ؟ تو اس نے کہا: ميں آپ (ع) کے حبداروں ميں سے ہوں ۔امام (ع) نے فرمایا : کوئی شخص تب تک اللہ سے محبت نہيں کرتا جب تک وہ اللہ کو اپنا سرپرست نہ بنا لے اور وہ اللہ کو اپنا سرپرست نہيں بناتا مگر يہ کہ اللہ اس کيلئے جنت کو واجب کر ديتا ہے ۔ پھر امام(ع) نے فرمايا ، توجہ کریں يہ ايک اہم سوال ہے ، اب ديکھئے کہ اہل بيت(ع) کے معيار کيا تھے ؟ اس وقت آپ خود بھی قضيہ حقيقيہ ہيں اور يہ بات قابل تطبيق ہے امام(ع) نے پوچھا: تم ہمارے کون سے حبداروں ميں سے ہو؟ تم جو يہ کہتے ہو کہ ميں آپ(ع) کے چاہنے والوں ميں سے ہوں، تم ان ميں سے کون سے ہو؟ تو وہ شخص خاموش ہو گيا ! وہی جس نے کہا کہ ميں آپ سے محبت کرنے والوں ميں سے ہوں ، جواب نہيں دے پايا کہ کن حبداروں ميں سے ہے؟! محبّت کرنے والوں کی چند قسميں ہيں؟!
    سدير نے عرض کيا ، سدير بھی اس وقت وہاں بيٹھا ہوا تھا کہ جب امام (ع) نے يہ سوال کيا: تم کون سے حبداروں ميں سے ہو؟ سدير نے امام (ع) سے عرض کيا: اے فرزند رسول(ص)!آپ کے چاہنے والے کتنے ہيں؟ آپ کے حبداروں کی کتنی قسميں ہيں؟ تو امام (ع) نے فرمايا : ہمارے چاہنے والوں کی تين قسميں ہيں: پہلی قسم وہ لوگ جو ظاہر ميں تو ہم سے محبت کرتے ہيں ليکن خلوت ميں ہم سے محبت نہيں کرتے ۔ يہ لوگ صرف دکان کھولنا چاہتے ہيں! ہماری محبت اور دوستی کادعوٰی تو کرتے ہيں ليکن درحقيقت ، ہمارے چاہنے والے ہيں يا نہيں؟ دوسرا وہ گروہ ہے جو خلوت ميں ہم سے محبت کرتا ہے ليکن علی الاعلان ہم سے اظہار محبت نہيں کرتا؛ کہتے ہيں کہ ہم اہل بيت (ع) کے حبدار ہونے کا اظہار نہيں کر سکتے ۔اس کی وجہ يا ہمارے مفادات ہيں يا خوف ہے يا کوئی اور مسئلہ ہے؛ہم محبت کرتے ہيں ليکن کھل کر اس کا اظہار نہيں کرتے ۔
    اور تيسرا گروہ وہ ہے جو خلوت و جلوت دونوں ميں ہم سے محبت کرتے ہيں، وہ سب سے اعلٰی جماعت ہے ۔يہ ہمارے چاہنے والے ہيں جنہوں نے عالم واقع اور ثبوت ميں ہم سے محبت کی ہے اور عالم اثبات ميں اس کا اظہار کيا ہے ۔انہوں نے صاف اور ميٹھا پانی نوش کيا ہے اور قرآن کی تاويل، حق و باطل کو جدا کرنے والے خطاب اور سبب الاسباب کو جان ليا ہے ۔ پس وہی سب سے اعلٰی جماعت ہيں، ہمارے حقيقی شيعہ يہی ہيں۔ اب ديکھيے کہ اگر کوئی شخص حقيقی شيعہ بن گيا تو کيا ہو گا؟ امام (ع) فرماتے ہيں : ان کی صفات ميں سے يہ ہے…..(بہت ساری صفات ذکر کرتے ہيں)، کہ مختلف قسم کی مصيبتيں اور بلائيں برق رفتار گھوڑوں سے بھی زيادہ تيزی سے ان کی طرف آتی ہيں ۔ وہ ہميشہ آزمائش ميں رہتے ہيں ، اب آزمائش بھی ہے ليکن ہر ايک کی آزمائش اس کے حساب سے ہے ۔اب ايسا نہيں ہے کہ فقط مالی آزمائش ہو ، نہيں! ہر ايک کی آزمائش اس کے حساب سے ہے ۔انہيں سختياں اور تکاليف پہنچيں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے اور آزمائشوں ميں پڑے کہ ان ميں سے کچھ دوردراز کے شہروں ميں دربدر ہو کر (دشمن کے ہاتھوں) يا زخمی ہو گئے يا قتل ہو گئے ۔
    يہاں تک کہ امام (ع) نے فرمايا : اور پہلا گروہ پست ترين جماعت ہے اور دوسرا گروہ( جو صرف خلوت ميں ہم سے محبت کرتے ہيں) اوسط درجے کی جماعت ہے اب اہم ترين سوال اور محلِ شاہد بھی يہی ہے ، يہ ايک مقدمہ تھا اس شخص نے کہا: ميں خلوت و جلوت دونوں ميں آپ کے ساتھ محبت کرنے والوں ميں سے ہوں۔جس وقت امام(ع) نے فرمايا کہ خلوت و جلوت ميں ہم سے محبت کرنے والے…. اور اس طرح کے مقامات …. تو يہ شخص کہنے لگا کہ ميں اس تيسرے اور سب سے بہترين گروہ ميں سے ہوں۔امام نے فرمايا : ٹھيک ہے ليکن ايک شرط کے ساتھ ، امام کی شرط پر توجہ فرمائيں تاکہ آپ خود کواس پر پرکھ ليں کہ آيا ہمارے حوزات علميہ ميں اس پر عمل ہوتا ہے يا نہيں؟
    امام جعفر الصادق(ع) فرماتے ہيں:البتہ خلوت و جلوت ميں ہم سے محبت کرنے والوں کی کچھ علامات ہيں جن سے وہ پہچانے جاتے ہيں صرف دعوٰی نہيں بلکہ ضروری ہے کہ وہ ايسی علامات ، شواہد ، قرائن اور نشانياں رکھتے ہوں جن کے ذريعے ان کو پہچانا جا سکے ۔اس شخص نے کہا : وہ علامات کيا ہيں؟ آئيے!ہم خود بھی ان کو اپنے اوپر منطبق کريں کہ آيا ہم بھی اس بہترين گروہ ميں سے ہيں يا نہيں ؟!امام(ع) نے فرمايا وہ صفات يہ ہيں : ان ميں سے پہلی ،اسے اچھی طرح گوش گزار کريں خصوصاً آپ طالب علم حضرات !آپ لوگ جو حوزات علميہ ميں آئے ہيں تاکہ معارف اہل بيت(ع) کو حاصل کريں اور انہيں لوگوں تک پہنچائيں۔ "لوگوں کو ہمارے کلام کے محاسن(زيبائياں و امتيازات) بتاؤ (کيونکہ) اگر وہ ان محاسن کو جان ليں تو ہماری پيروی کريں گے”۔ امام(ع) نے فرمايا:ان ميں سے پہلی صفت يہ ہے کہ ان لوگوں نے توحيد کی معرفت کا حق ادا کيا ہے اور اپنے علمِ توحيد کو مضبوط کيا ہے۔
    خدا کو حاظر ناظر جان کر بتائيں کہ آپ نے اپنی اس علمی زندگی کو جو ۱۰، ۱۵ يا ۲۰ سال پر محيط ہے ، کس قدر معرفتِ توحيد اور علم توحيد کے حصول کے ليے صرف کيا ہے ؟ پس آيا آپ پر بہترين گروہ کا اطلاق ہوتا ہے يا نہيں؟ امام (ع) نے بيان کر ديا ہے! اب يہ ايک يا دو روايتيں نہيں ہيں کہ آپ يہ کہيں کہ آپ تو ايک روايت کو لے کر استدلال کر رہے ہيں ، نہيں بالکل نہيں ۔ آپ تمام ابحاث اور روايات پر نگاہ کريں ، اگر آپ کو کہيں يہ نظر آئے کہ امام(ع) نے فرمايا ہو کہ کتابِ طہارت ، کتابِ صوم ، کتابِ حج وغيرہ يہ ہمارے شيعوں کی علامات ميں سے اولين علامتيں ہيں تو ہميں بھی بتائيں۔ جی ہاں! فقہ کے ليے روايات ہيں ليکن کس نے کہا ہے کہ اس فقہ سے مراد فقہِ اصغر ہے ؟ يہ مطلب کہاں سے ليا گيا ہے؟ بلکہ يہاں مراد قرآنی فقہ ہے : "ليتفقھوا في الدين” اور دين بھی صرف کتاب طھارۃ ، کتاب صلاۃ ،کتاب صوم اور کتاب حج نہيں ہے؛ فقہِ اصغر ميں محدود نہيں ہے ۔ دين ميں تفقہ کا دائرہ وسيع ہے کہ جس کا ۵ ، ۷ ، ۱۰ يا ۱۵ فيصد حصہ فقہ اصغر پر مشتمل ہے ۔
    سب سے پہلی صفت: ان لوگوں نے توحيد کی کما حقہ معرفت حاصل کی ہے اور علمِ توحيد کو مستحکم کيا ہے ۔سب سے پہلے توحيد کو جانيں کہ اس کی حقيقت کيا ہے اور اس کے اوصاف کيا ہيں ؟ پھر انہوں نے ايمان کی حدود، اس کے حقائق، اس کی شرائط اور تاويل کو جانا ہے ۔ سدير نے کہا : اے فرزندِ رسول (ص)! ميں نے اس سے قبل آپ کو نہيں سنا کہ آپ (ع) ايمان کو اس صفت سے متصف کريں؛ ہم نے اس سے قبل آپ(ع) کو اس طرح سے توحيد يا ايمان کا تعارف کراتے ہوئے نہيں سنا تھا۔ فرمايا: ہاں اے سدير! سائل ايمان کے بارے ميں تب تک سوال نہيں کر سکتا جب تک کہ يہ نہ جان لے کہ ايمان کس پر لانا ہے؟! سدير نے کہا: اے فرزندِ رسول (ص)! اگر مناسب سمجھيں تو جو کچھ آپ نے فرمايا ہے اس کی تفسير بيان فرما ديں۔
    اب امام نے بيان کرنا شروع کيا کہ بنيادی طور پر توحيد اور توحيدی معرفت کو کس طرح حاصل کيا جائے جس نے يہ گمان کيا کہ وہ اپنے دل کے خيال سے خدا کو پہچانتا ہے تو وہ مشرک ہے ۔ اور جو معنی(و حقيقت) کو چھوڑ کر اسم کے ذريعے خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے، وہ ذات باری تعالیٰ ميں ںقص( وحدوث)کااعتراف کر بيٹھا ہے ۔ اور جو بھی يہ گمان کرے کہ وہ اسم اور معنی دونوں کی عبادت کرتا ہے تو اس نے اللہ کے ساتھ شريک قرار ديا ہے ۔ اور جس نے گمان کيا کہ وہ معنی کی عبادت کرتا ہے اس کی توصيف کر کے (نہ کہ ادراک کر کے) …اور جو گمان کرتا ہے کہ موصوف، صفت کی طرف نسبت رکھتا ہے… اور جس نے گمان کيا…اور جس نے گمان کيا… (تا آخر)اس کے بعد امام تين صفحوں تک توحيد کو بيان فرماتے ہيں۔
    امام (ع) نے فرمايا:يہ صفات ہيں جن ميں سے يہ ہے اوّل…، پس دوسری کہاں ہے ؟نہيں برادر! اب آيا اس اوّل کے بعد ثانی ہے ؟ يا نہيں ؟ نہيں! بالکل اس کا ثانی اور ثالث نہيں ہے۔ اگر آپ نے اس کو درست کر ليا تو باقی سب کچھ صحيح ہو جائے گاورنہ اگر يہ درست نہ ہوا تو باقی سب کا کيا ہو گا ؟ جب ان کی بنياد خراب ہو گئی تو پھر آپ جو کام بھی کريں گے کارآمد ثابت نہيں ہوگا۔ اب آپ سوال کريں گے کہ آيااس حوالے سے ديگر شواہد اور روايات بھی ہيں ؟ اصول کافی ،جلد 2 صفحہ 148 ، کتاب "الغيبۃ” باب في الغيب ، راوی کہتا ہے : ميں نے حضرت اباعبد اللہ (ع) کو يہ فرماتے ہوئے سنا : اس جوان کے ليے قيام سے پہلے غيبت ہے ، ميں نے سوال کيا : کيوں ؟ فرمايا : اس کو خوف ہو گا ،پھر فرمايا: اے زرارہ! وہ منتظَر ہيں اور وہی ہے ….. اس روايت کی سند ميں تقريبا کوئی مسئلہ نہيں ہے سوائے عبداللہ بن موسٰی کے جو مجہول الحال ہے ۔ صاحب کتاب "مرآۃ العقول” کہتے ہيں کہ روايت، سند کے اعتبار سے ضعيف ہے ۔ ليکن يہ زيادہ اہم نہيں ہے کيونکہ ديگر آيات و روايات سے بہت سے شواہد موجود ہيں ۔
    زرارۃ کہتے ہیں کہ ميں نے کہا : ميری جان آپ (ع) پر قربان ہو جائے اگر ميں اس زمانے کو درک کر لوں تو مجھے کيا کرنا چاہيے؟ ميں اس زمانے ميں کون سی دعا کروں امام(ع) نے فرمايا : اے زرارۃ! اگر تم اس زمانے کو درک کرو تو يہ دعا مانگو : "اللَّہمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ”اے اللہ! مجھے اپنی معرفت عطا فرما، پہلی اور آخری اصل کيا ہے ؟ معرفت ۔ "اللَّہمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَکَ‏”اے اللہ! مجھے اپنی معرفت عطا فرما چونکہ اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ کی تو ميں تيرے نبی کو نہيں پہچان پاؤں گا ۔ عجيب ! پس اگر ہم پيغمبر(ص) کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہيں تو سب سے پہلے ہميں کس کی شناخت حاصل کرنی چاہيے؟ خدا کی شناخت حاصل کرنی چاہيے ورنہ ہم پيغمبر کی معرفت ميں غلطی کر بيٹھيں گے ۔”اللَّہمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ "اے اللہ! مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا فرما ، اب علما کے درميان ايک بحث ہے کہ کيوں پہلے يہ فرمايا : لم أعرف نبيک اور بعد ميں فرمايا : رسولک؟ روايت ميں ايسا کون سا نکتہ ہے کہ نبوت سے رسالت کی طرف منتقل ہو گئے ؟ايک جملے ميں کہوں : چونکہ پہلا مسئلہ يعنی نبوت ، بندے اور خدا کے درميان ايک رابطہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ يعنی رسالت بندے اور مخلوقِ خدا کے درميان ايک رابطہ ہے۔ يہ دو قسم کے رابطے ہيں :” اللَّہمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ ” ميں وہی بندے اور مخلوق کے درميان رابطے کی طرف اشارہ ہے اور وہاں وہ دوسرا رابطہ… يہ ان نکات ميں سے ايک نکتہ ہے ۔
    ” اللَّہمَّ عَرِّفْنِی رَسُولَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ أعْرِفْ حُجَّتَکَ‏ "اے اللہ! مجھے اپنے رسول کی معرفت عطا فرما ، اگر تو نے اپنے رسول کی معرفت عطا نہ کی تو ميں تيری حجّت کو نہيں پہچان پاؤں گا۔ پس معرفتِ امامت کہاں سے آئے گی ؟ اللہ کی معرفت سے ! پس اگر اللہ کی معرفت نہ ہو تو پھر يا افراط ہو گا يا تفريط ، يا تقصير ہوگی يا غلو۔چونکہ اصل مشخّص نہيں ہے ، توحيد مشخّص نہيں ہے۔ پس يا ان کے حق سے کم تر ان کو ديا جاتا ہے يا ان کو ان کے مقام سے بڑھا ديا جاتا ہے ۔ کيوں؟ يہ کمی يا زيادتی کہاں سے آتی ہے ؟ آپ کے پاس ايک قاعدہ کليہ ہونا چاہيے! آپ کا قاعدہ کليہ کہاں ہے ؟ توحيد ميں ہے ۔اگر وہ صحيح نہ ہوئی تو امام کی معرفت بھی درست نہيں ہوگی ۔
    ” اللَّہمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ فَإنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِینِی‏ "اے اللہ! مجھے اپنی حجّت کی معرفت عطا فرما اگر تو نے مجھے اپنی حجّت کی معرفت عطا نہ کی ،تو کيا ہو گا ؟!کيا ميں دين سے گمراہ ہو جاؤں گا يا دين سے خارج ہو جاؤں گا؟! انشاءاللہ ہماری فقہ کی ابحاث ميں آئے گا کہ بنيادی طور پر جو شخص امام کی معرفت نہيں رکھتا آيا وہ دين سے خارج ہے؟ یعنی جو امام(ع) کو نہيں پہچانتا؛ کيا ہے؟ وہ دین خارج نہیں ہوتا بلکہ وہ گمراہ ہے۔
    قُلْ ھلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأخْسَرينَ أعْمالاً٭الَّذينَ ضَلَّ سَعْيُھمْ فِي الْحَياۃ الدُّنْيا وَ ھمْ يَحْسَبُونَ أنَّھمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً(الكہف :۱۰۳ – ۱۰۴ ) کہ ديجئے: کيا ہم تمہيں بتاديں کہ اعمال کےاعتبار سے بڑے نقصان ميں کون لوگ ہيں؟ جن کی سعی دنياوی زندگی ميں لاحاصل رہی جبکہ وہ يہ سمجھے بيٹھے ہيں کہ وہ درست کام کر رہے ہيں۔
    گمراہی، دين سے خارج ہونے اور کفر کا غير ہے؛پس نتیجتا ضروری ہے کہ آپ توحيد کی بنيادوں کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔

    • تاریخ : 2016/05/31
    • صارفین کی تعداد : 1177

  • خصوصی ویڈیوز