گزشتہ گفتگو کے بعد جو آئمہ اہل بيت (عليھم السلام) کے موقف اور عمل کے حوالے سے تھی دوسروں کے مقدسات کی توہين کے بارے ميں ہميں بہت سے سوالات موصول ہوئے يہ کہ بنيادی طور پر آئمہ (ع) کا ان لوگوں کے ساتھ سلوک جو انکی امامت پر ايمان نہيں رکھتے تھے کيسا تھا ؟
قبل اس کے کہ ہم آئمہ اہل بيت (ع) کی طرف رجوع کريں تاکہ ہميں معلوم ہو کہ آپ (عليھم السّلام) کا دوسروں کے مقدسات کی توہين اور گالم گلوچ کے بارے ميں موقف يہاں تک کہ جوان کی امامت و ولايت کو نہيں مانتے تھے اور حتی جو بالکل اسلام پر ايمان نہيں رکھتے؛ کيا تھا؟! کيونکہ امام امير المومنين (عليہ السّلام) نے فرمايا: "لوگ دو قسم کے ہيں يا تمہارا دينی بھائی ہے يا خلقت ميں تمہارا ہمنوع ہے”۔
سوال يہ ہے کہ دينی بھائيوں اور ہمنوع انسانوں کے بارے ميں ہمارا موقف کيا ہے ؟ کيا ہمارا موقف منفی ہے يا مثبت؟ ميرے خيال ميں قرآن کريم ہميں اس طريقہ کار کا کلی معيار اور بنيادی اصول عطا کرتا ہے، اس کے بعد ہمیں اسلامی منابع ميں موجود تمام روايات من جملہ آئمہ اہل بيت (ع) کی احاديث يا شيعہ علما کی جانب رجوع کرنا چاہیے تاکہ ان کا قرآن کريم کے پيش کردہ معيارات کے ساتھ موازنہ کريں۔ اگر يہ روايات ان بنيادوں، معيارات اور پيمانوں سے ہم آہنگ ہوں جنہيں قرآن کريم نے ذکر کيا ہے تو انہيں قبول کر ليں گے، ورنہ ان کو ديوار پر دے ماريں گے؛ جيسا کہ آئمہ اہل بيت(ع) نے ہميں تعليم دی ہے۔ کيونکہ يہ وہ بے سود باتيں ہيں جنہيں واقعا پيغمبر (ص) اور آئمہ طاھرين (ع) نے نہيں فرمايا ہے۔ اور ايسی روايات موجود ہيں جن ميں انہوں(عليھم السّلام) نے فرمايا ہے جو قرآن کے مطابق نہ ہو وہ شيطان کا کلام ہے۔ يہ آئمہ اہل بيت(ع) کے الفاظ ہيں۔
اب ميں معيارات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں قرآن کريم کی آيات نے واضح و آشکار طور پر پيمانوں کو مشخص کر ديا ہے۔ ان آيات ميں سے ايک اہم ترين سورہ نحل کی آيت نمبر ۱۲۵ ہے ، خدا فرماتا ہے : ” ادْعُ إلَیٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃ ۖ وَجَادِلْھم بِالَّتِي ھيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ ھوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِہ ۖ وَھوَ أَعْلَمُ بِالْمُہتَدِينَ”(حکمت اور عمدہ نصيحت کے ساتھ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت کريں اور ان کے ساتھ احسن انداز ميں بحث و مناظرہ کريں آپ کا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا کون ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ ہدايت يافتہ کون ہے؟)، اس بنا پر قرآن کريم "حکمت” کو بلا قيد یعنی حسن و احسن کی قيد کے بغير؛ مشخص کر رہا ہے جبکہ بعد میں وعظ و نصيحت کے ساتھ حَسَن کی قيد لگا رہا ہے۔ پھر بحث و جدال ميں صرف حَسَن پر اکتفا نہيں کر رہا بلکہ اس کو احسن انداز سے ہونے کے ساتھ مشروط کر رہا ہے۔ يہ عجيب نکتہ ہے!! يعنی حکمت کو بغير قيد کے ذکر کيا ، نصيحت کو حَسَن کی قيد کے ساتھ اور جدال کو احسن کی قيد کے ساتھ ذکر کيا گيا ہے۔
اس کا معنی يہ ہے کہ حکمت غیرِحَسَن نہيں ہو سکتی اور نصيحت اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی اور جو کچھ ہم سے طلب کيا گيا ہے وہ اچھی نصيحت ہے۔ ليکن جدال برا بھی ہو سکتا ہے ،حسَن بھی اور احسن بھی ہو سکتا ہے اور قرآن نے ہميں اجازت نہيں دی کہ غيرِ احسن انداز سے جدال کريں، يہاں تک کہ اجازت نہيں دی کہ ہم حَسَن انداز سے جدال کريں يہ قرآن کريم کی منطق عجيب ہے۔اب آپ بتائیں اس منطق کا گالی ، تکفير، قتل اور دوسروں کو ختم کرنے سے کيا تعلق ہے؟ يہ ايک آيت کہ انشاءاللہ اس کے بارے ميں مزيد گفتگو کريں گے۔ دوسری آيت عزيزان گرامی ،سورہ فصلت کی ۳۳ سے ۳۵ نمبر آيات ميں آيا ہے :” وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّـہ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَۃ وَلَا السَّيِّئَۃ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي ہيَ أَحْسَنُ۔۔۔۔۔ "(اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نيک عمل بجا لائے اور کہے کہ ميں مسلمانوں (خدا کے فرمانبردار بندوں) ميں سے ہوں اور بھلائی اور برائی برابر نہيں ہيں بدی کا جواب بہتر انداز سے دو)،آپ کو ہرگز دفاع کی اجازت نہيں ہے مگر زيادہ بہتر انداز سے۔ قرآن کريم فرما رہا ہے کہ اگر آپ دفاع کرنا چاہتے ہيں اور مدد کرنا چاہتے ہيں اور باطل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہتے ہيں تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہيں ہے سوائے يہ کہ زيادہ بہتر انداز سے جواب ديں۔ قرآن کريم اس کا نتيجہ بھی ذکر کر رہا ہے ايسا کرنے سے تم ديکھو گے کہ "فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَہ عَدَاوَۃ كَأَنَّہ وَلِيٌّ حَمِيمٌ”(جس شخص کے اور تمہارے درميان دشمنی ہے وہ بھی ايسا ہو جائے گا جيسے گہرا دوست ہوتا ہے) يہ قرآن کی منطق ہے۔
ايک دشمن کو قريبی دوست ميں تبديل کرنے کی کيفيت، قرآن کی منطق ہے نہ يہ کہ ايک دوست کو دشمن بنا ليں يہ کيسی پسماندہ منطق ہے؟ يہ کہ حتی ايک مذہب کے پيروکاروں کے درميان اپنے دوستوں اور بھائيوں کو خود سے متنفر کرو۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم آج کل بارہا سن رہے ہيں حتی بعض منبروں اور سيٹلائيٹ چينلوں پر جب کسی شخص سے اختلافِ نظر رکھتے ہيں تو فورا اسے مذہب سے خارج قرار دے کر گمراہ و کافر قرار ديتے ہيں۔ ميرے عزيزو! يہ کيسی منطق ہے؟ يہ قرآن کی منطق نہيں ہے مجھے نہيں معلوم کہ کس کی منطق ہے؟ ليکن قرآن کی منطق نہيں ہے تيسری آيت : سورہ عنکبوت ميں،آيت نمبر 46 جو بہت اہم ہے :” وَلَا تُجَادِلُوا أَھلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي ھيَ۔۔۔۔۔”) اہلِ کتاب سے مناطرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترين انداز ہے)۔ آپ کو خدا کا واسطہ ہے قرآن حتّی اہل کتاب کے بارے ميں يہ فرما رہا ہے جو دين اور عقيدے ميں ہمارے ساتھ مشترک نہيں ہيں۔ فرماتا ہے کہ آپ کو حق نہيں ہے کہ ان کے ساتھ مناظرہ کرو مگر بہترين انداز سے۔ اسی وجہ سے آپ ديکھتے ہيں کہ قرآن کريم فرما رہا ہے: "اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درميان مشترک ہے”۔ ميرے خيال ميں يہ حدود اربعہ ہے جسے قرآن نے مقرّر کيا ہے۔اس بنا پر ضروری ہے کہ اہل سنّت اور اہل تشيّع کی کتابوں ميں موجود تمام روايات کا بلا تفريق قرآن کے معيار، منطق اور روش کے ساتھ مقايسہ کيا جائے تاکہ ہم ديکھ سکيں کہ آيا اس کے مطابق ہيں تو بہت خوب ليکن اگر قرآنی آيات کے مخالف ہوں تو باطل ہيں اور پيغمبر(ص) اور آئمہ اہل بيت(ع) سے صادر نہيں ہوئی ہيں .
مجھے قرآن کريم ميں ايسی کوئی آيت نہيں ملی جو يہ کہتی ہو کہ اگر آپ لوگوں کو دعوت دينا چاہيں تو انہيں کفر و فسق کی تمہت، ناشائستہ الفاظ، توہين اور جسمانی و روحانی قتل يعنی ان کی علمی شخصيّت پر کيچڑ اچھالنے کے ساتھ دعوت ديں!! مجھے قرآن اور روايات ميں ايسا کوئی پيغام نہيں ملا ہے۔ اصل مسئلہ، يعنی اس قسم کی بحثوں کا مقصد يہ ہے کہ لوگ چاہتے ہيں کہ بہرصورت بحث و جدل ميں کامياب و کامران ہوں،يہ درست ہے ليکن زيادہ اہم نکتہ يہ ہے کہ دوسروں کو مٹا دينے کی منطق، تکفير کی منطق، فاسق قرار دينے کی منطق، يہ کہ دوسرے کو منافق کہہ ڈاليں وغیرہ يہ ايسے شخص کی منطق ہے جو علمی اعتبار سے نادان اور لاچار ہو۔ اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ قرآن کی منطق بطورِ کامل قوی ہے،آپ ديکھيں گے کہ فرماتا ہے : "ان سے کہہ ديجئے کہ اگر تم سچّے ہو تو کوئی دليل لے آؤ”، قرآن ہرگز دعوت کے مقام پر بے احترامی اور توہين سے استفادہ نہيں کرتا۔ اس بنا پر ميرے عزيزو! ميں نے آپ کے ليے معيار کو واضح کر ديا ہے۔ پس اگر آپ (کسی سے) وہ منطق سنتے ہيں تو جان جائيں کہ کہنے والا جاہل ، نادان ، کمزور اور عاجز ہے اور دوسروں کو جلب کرنے کی علمی صلاحيت سے بے بہرہ ہے،اسی وجہ سے وہ منفی پہلو، منفی روش اور دوسروں کی شخصيت کشی والی روش کا سہارا ليتا ہے۔
ليکن قرآن کی روش ايک مثبت روش ہے :”اور بری بات کے جواب ميں ايسی بات کہو جو نہايت اچھی ہو۔ اسطرح کہ جس کے اور تمہارے درميان عداوت ہے وہ بھی ايسا ہو جائے گا جيسے گہرا دوست ہوتا ہے”۔اس وقت بعض کی کوشش ہے کہ ماحول کو مذہبی، قبائلی ، نسلی اور دينی عناوين کے ذريعے کشيدہ کريں۔ اسی طرح ہميں متوجہ رہنا چاہئيے کہ کچھ لوگ تولّا و تبرّا کی بنياد پر يہ کام کرتے ہيں،اور ضروری ہے کہ آپ اس بات کی وضاحت کريں،ان شاءاللہ ہم اس کی وضاحت کريں گے۔ اور ہم کسی بھی مسلمان کی تکفير کے حق ميں نہيں ہيں خواہ وہ کوئی بھی مسلمان ہو اور اسماعيليوں کی تکفير کا تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا جو ايک شيعہ فرقہ ہے۔ کيونکہ وہ چھ اماموں پر ايمان رکھتے ہيں اور ان کے بعد امام صادق(ع) کے فرزند اسماعيل کو امام مانتے ہيں۔ ہم نہ يہ اجازت ديتے ہيں اور نہ ہی يہ عقيدہ رکھتے ہيں اور جائز نہيں سمجھتے کہ جو "أشہد أن لاإلہ إلا اللہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ” کا اقرار کرتا ہو،اسے کافر سمجھا جائے انہوں نے کہا ہے کہ آپ کی کسی کتاب ميں پڑھا ہے۔ ميری کتابوں ميں ہرگز ايسی چيز نہيں ہے شايد کسی شيعہ عالم کی کتاب ميں پڑھا ہو ليکن ميری کتابوں ميں ايسی کوئی بات نہيں ہے۔ اور حتی اگر موجود بھی ہو تو نادرست اور غير دقيق ہے۔ جو کوئی بھی "أشہد أن لا إلہ إلا اللہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ” کا اقرار کرتا ہو مسلمان ہے۔