مقالات و آراء

  • ’’معرفت اللہ‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار مباحث(4)

  • دوسری اصل : معرفت اللہ کی اہم ترین اصل کہاں ہے ، کیونکہ ابھی ہم نے صرف قضیہ کلیہ کے طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ تمام معارف کی اصل کیا ہے ، معرفت اللہ ہے ۔ اب ہم یہ دیکھیں کہ معرفت اللہ جو تمام معارف کی اصل ہے ، کی اپنی اصل کہاں پر ہے تاکہ اگر اس کو پہچان لیا تو سب کو پہچان لیں گے۔ اب بھی مجھے یقین ہے کہ دوستوں کا ذہن توحید کی طرف جائے گا۔ الجواب : کلا ، وہ بھی نہیں ہے ۔ پس تمام دینی معارف کی اصل کیا قرار پائی ؟ اللہ کی معرفت؛ اب ہم اسی معرفت اللہ کے دائرے یا احاطے میں آتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خود معرفت اللہ کی اصل کہاں ہے ؟ ایک جملے میں کہہ دوں کہ معرفت اللہ کی اپنی اصل : ان اللہ لا حد لہ ہے ۔ خداوند متعال سے نفی حد کی بنیاد پر وحدت کو ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ پس وحدت خدا کا اثبات کس چیز کی جزئیات میں سے ہے ؟ نفی حد کی جزئیات میں سے ہے ۔
    آپ سوال کریں گے کہ آغا یہ آپ کہاں سے کہہ رہے ہیں ؟ ہمیں فلسفہ وغیرہ میں نہ لے جائیں ، نہیں جناب ! ہم آُپ کو فلسفہ میں وارد نہیں کریں گے ، حالانکہ فلسفے نے اہل بیت (ع) کے انہیں بیانات کی برکت سے اس کو ثابت کیا ہے ؛ لیکن میں وہاں نہیں جانا چاہتا، میں آپ کے لیے عقلی بحث نہیں کررہا کہ آپ کہنے لگیں کہ بحث تو عقلی ہوگئی ! ہم آتے ہیں اصل روایت کی طرف نہج البلاغۃ کا پہلا خطبہ امام فرماتے "أَوَّلُ الدِّینِ مَعْرِفَتُہ وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِہ التَّصْدِیقُ بہ وَ كَمَالُ التَّصْدِیقِ بہ تَوْحِیدُہ وَ كَمَالُ تَوْحِیدِہ الْإِخْلَاصُ لَہ”)دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے. کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے, کمالِ تصدیق توحید ہے. کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے (یہاں تک ہم نے پڑھا ہے ، ٹھیک ہے ؟ اب یہ بعد کے جملات واقعا ان موارد میں سے ہیں کہ ان پر کئی سال تک بحث کی جانی چاہیے ، لیکن اب تک جب ایک خطیب کسی کی قل خوانی کی مجلس میں منبر پر جاتا ہے تو نہج البلاغہ سے دو جملے قبر و موت وغیرہ کے موضوع پر پڑھتا ہے ۔ طبیعی سی بات ہے کہ میں یہ بات بالعموم کررہا ہوں ؛ ورنہ ایسے بزرگ موجود ہیں جو نہج البلاغہ کے موضوع پر لکھ چکے ہیں ۔
    دیکھیے آغا ! امام (ع) فرماتے ہیں "وَ كَمَالُ الْإِخْلَاصِ لَہ نَفْی الصِّفَاتِ عَنْہ” (اور کمالِ تنز یہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے)اخلاص نظری جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں ۔ "وَ كَمَالُ الْإِخْلَاصِ لَہ نَفْی الصِّفَاتِ عَنْہ” ،جناب یہ نفی صفات کیسے ہو گی ؟ خدا کی صفات کے بارے میں کس قدر آیات قرآن کریم میں وارد ہوئی ہیں ، صفات اللہ کے بارے میں علمائے مسلمین کے یہاں سینکڑوں روایات وارد ہوئی ہیں ، امام فرماتے ہیں کہ اخلاص کیسا ہونا چاہیے ؟ نفی صفات ہو ۔ یہ کون سی صفات ہیں جن کی نفی ضروری ہے ؟ یہ اپنے مقام پر ایک مفصل بحث ہے ، دیکھیے ! اہل بیت (ع) کی تعبیرات میں ، امیر المومنین (ع) کی تعبیرات میں ؛ جب وہ کہتے ہیں : صفات ، ان صفات سے مراد کیا ہے ؟ کیا وہی مقصود ہے جو ہم علم کلام میں کہتے ہیں ؟ فلسفے میں کہتے ہیں ؛ کون سا ہے ؟ ابھی اس سے کام نہیں ہے ، امام استدلال فرما رہے ہیں : "فَمَنْ وَصَفَ اللَّہ سُبْحَانَہ فَقَدْ قَرَنَہ” (لہذا جو ذاتِ الٰہی کے لیے صفات کا قائل ہوا اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا)، وہ اس کے لیے ایک قرین(ساتھی) کا قائل ہوا ہے ۔ ” وَ مَنْ قَرَنَہ فَقَدْ ثَنَّاہ” (اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی )، اب دیکھیئے کہ امام (ع) کس طرح اخلاص سے شرک کی طرف جا رہے ہیں ۔ جی ہاں ! کیونکہ فرما رہے ہیں کہ اگر آپ اچھی طرح توجہ نہیں کریں گئے اور اخلاص نظری و معرفتی سے تہی ہوں گئے تو کس چیز میں مبتلا ہو جائیں گے ؟! شرک میں مبتلا ہو جائیں گے ، فَقَدْ ثَنَّاہ تو ایک ہو گا یا دو ؟ دو ہو جائیں گے ۔
    "وَ مَنْ ثَنَّاہ فَقَدْ جَزَّأَہ”(اورجس نے دوئی پیدا کی, اس نے اس کے لئے جز بنا ڈالا) اگر کہیں کہ دو ہوگئے تو اس دو کے بھی دو معنی ہیں ، ایک عددی دو ہے اور ایک ترکیبی دو ہے ، ایک انسان ؛ ہم کہتے ہیں کہ مرکب ہے یہ عددی دو نہیں ہے لکن ترکیبی دو ہے ۔ ترکیبی دو کی طرف اشارہ کررہے ہیں فرماتے ہیں کہ "وَ مَنْ ثَنَّاہ فَقَدْ جَزَّأَہ” ، اس نے اس کے لیے جز بنا ڈالا ، اس کا تجزیہ ہو گیا ، گویا مرکب تھا جس کا تجزیہ ہو گیا۔ "وَ مَنْ جَزَّأَہ فَقَدْ جَہلَہ” (جو اس کے لئے اجزاء کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا) ، پس وہ جو آپ کے ذہن میں خدا ہے ؛ وہ جس کا تصور آپ کے ذہن میں پیدا ہوا ہے وہ خدا ہے یا نہیں ؟ نہ ! یہ وہ خدا نہیں ہے جو فی نفس الامر و الواقع ہے اور یہ وہ نہیں ہے کہ جس نے اپنا تعارف کرایا ہے ، "وَ مَنْ جَہلَہ فَقَدْ أَشَارَ إِلَیہ”(اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا)۔ یہاں سے انشاء اللہ جب جسمیت کی بحث تک پہنچیں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ کس طرح سے اشارت کے مسئلہ تک پہنچے ہیں ۔
    "و أنّہ یُشارُ إلیہ أنّہ علی العَرشِ” ، پس ان لوگوں کی توحیدی معرفت کی اساس کیا تھی ؟ جہل تھا ؛ توحید نہیں تھی ، اسے اس کی جگہ پر رہنے دیں جب اس کے بارے میں گفتگو کریں گے تو دیکھیں گے کہ امام (ع) فرماتے ہیں کہ ! یہ کیوں اس سمت میں کھنچے چلے گئے ہیں ؟ یہ بدخواہ نہیں تھے ، کم از ان میں سے بعض ۔ لیکن کیونکہ راستہ بھٹک گے تھے ، کس مقام پر پہنچے ؟ معرفت اللہ پر پہنچے یا جہل پر ؟ جہل پر پنچے ؛ کیوں ؟ کیونکہ ان کی اساس درست نہیں تھی ، کیوں اساس غلط ہوئی ؟ اس لیے کہ یہ اہل بیت(ع) سے ایک طرف ہوگئے ۔
    کیونکہ یہ معارف کس نے بیان کرنا ہیں ؟ اہل بیت (ع) نے اس لیے کہ "ھؤلاء ھم عدلُ القرآنِ ، ھم الثقلُ الآخر للقرآن”، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کو ایک طرف رکھ دیں اور اخباری مسلک اختیار کر لیں ۔ خود اہل بیت (ع) جو کچھ بیان فرما رہے ہیں اس میں قرآنی مبنیٰ بھی بیان فرما رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ قرآن کو ایک طرف رکھ دیں ۔ پس آقا حیدری جو آپ کہتے ہیں کہ : قرآن کی محوریت ، قرآن کی محوریت ؛ تو یہ ہے محوریت؟! نہیں ہر گز نہیں ۔ قرآن کو محوریت حاصل ہے لیکن اہل بیت (ع) کے اشارات اور رہنمائی کے ساتھ کیونکہ "ما ان تمسکتم بھما” ، بھما ! نہ بہ اور نہ بھا ؛ حدیث ثقلین نے یہ نہیں کہا : ان تمسکتم بہ یعنی قرآن ۔۔۔ اور یہ بھی نہیں کہا ہے : ما ان تمسکتم بھا یعنی عترت ؛ کہا ہے : "ما ان تمسکتم بھما” یعنی جب تک دونوں کے ساتھ متمسک رہو گے ۔
    اب تمسک کیسے کریں؟دونوں میں سے اصل کون ہے اور دوسرا اس کے گرد گھومتا ہے؟ جواب : "أحدُھما أکبر من الآخر” ؛ قرآن ثقل اکبر ہے اور وہ ثقل غیر اکبر ہیں ۔ خود حدیثِ ثقلین کو اہل سنت کی کتاب نے بیان کیا ہے ؛ درست ہے کہ یہ ایک ساتھ ہیں اور باہم ہیں ۔ لیکن یہ ساتھ اکبر اور غیر والا ہے ؛ اصغر کی تعبیر نہیں آئی ہے ، ہاں غیرِ اکبر ! اکبر قرآن ہے یعنی محور کیا ہے ؟ یعنی اصل کیا ہے ؟قرآن ہے ۔ اور یہ بھی عرض کردوں کہ یہاں پر عترت سے مقصود خود عترت نہیں ہیں ؛ مقصود وہ روایات ہیں جو عترت سے ہم تک پہنچی ہیں ۔ نہ کہ خود عترت ؛ ورنہ اگر ہم عترت کی خدمت میں حاضر ہوں اور وہ کہہ دیں کہ آیت سے مقصود یہ ہے تو ہم سر تسلیمِ خم کر لیں گے ۔ ہم اہل بیت(ع) کے سامنے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خلافِ قرآن ہے ۔ لیکن جو کچھ ہم تک روایات کی صورت میں پہنچا ہے ؛ ضروری ہے کہ اسے قرآن کے سامنے پیش کریں یعنی المحکی عن کلامھم ؛ ان کے کلام کی حکایت و نقل کو ،لا نعرض العترۃ علی القرآن ؛ نعرض ما وصل الینا من حدیثھم علی القرآن ، ہم عترت کو قرآن پر پیش نہیں کریں گے ؛ ہم تک ان کی جو احادیث پہنچی ہیں انہیں قرآن پر پیش کریں گے ۔
    اب ملاحظہ کیجیئے ، "وَ مَنْ جَہلَہ فَقَدْ أَشَارَ إِلَیہ”(اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا)، پس اشارت کا منشا مشخص ہوگیا ؛ وہ کیا ہے ؟ جہل ہے ؛ اس جہل کا منشا کیا تھا ؟! تجزیہ ؛ اس تجزیے کا منشا کیا تھا ؟۔۔۔۔ یہاں تک کہ ہم جا پہنچیں کہاں پر ؟ معرفت اللہ پر!! پس ان لوگوں کا مسئلہ کیا ہے ؟ معرفت اللہ ہے ۔ پس جناب ! یہ بات دوستوں کے لیے بیان کردوں ؛ جو مسائلِ شبہات پر کام کر رہے ہیں ۔ وہابیت کے جواب میں یا غیر وہابیت کے جواب میں ؛ کسی کے بھی جواب میں ، فقط وہابیت کے جواب میں نہیں ! یا اہل سنت کے جواب میں نہیں ! بلکہ ہم شیعوں کی باہمی بحث میں بھی ، آپ کو نہیں چاہیے کہ ان کے ساتھ آخر سے بحث شروع کردیں ؛ فرعی مسائل میں بحث کرنے لگ جائیں یا وسط سے بحث کرنے لگ جائیں ! بلکہ بحث کہاں سے شروع کرنی چاہیے ۔ ضروری ہے کہ بنیادی بحث کی جائے ؛ اور بنیاد کیا ہے ؟معرفت اللہ ہے ۔ اسے درست ہونا چاہیے اگر یہ درست نہ ہوئی تو آپ جو چاہیں کر لیں ، وسط سے کام درست نہیں ہو گا ۔ جناب! اگر یہ فرض کریں کہ عمارت کی بنیاد کمزور ہے آپ جو کام بھی کرلیں ؛ دوسری منزل ، تیسری منزل ، دسویں منزل ، بیسویں منزل ؛ تو کیا یہ عمارت باقی رہے گی یا گر جائے گی ؟! گر جائے گی ۔ کیوں؟ مسئلہ کہاں پر ہے؟! جڑ میں ہے بنیاد میں ہے ، اصل میں ہے۔ پس ضروری ہے کہ آپ اپنا کام کہاں سے شروع کریں ؟ معرفت اللہ سے ۔
    اب دیکھیں کہ امام (ع) آخر میں کہا پہنچے ہیں ؟ فرماتے ہیں : ” وَ مَنْ أَشَارَ إِلَیہ فَقَدْ حَدَّہ "( اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی) ،پس خدا کی نسبت جہل آپ کو کہاں لا کھڑا کرتا ہے ؟! محدودیت پر ؛ پس اگر محدودیت سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو پلٹ کر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس وجہ سے یہ نوبت آئی ہے ، وہابیت ، ابن تیمیہ اور حنابلہ کے اہم ترین مبانی میں سے ایک اس امر پر زور دینا ہے کہ خدا محدود ہے ۔ اسے وہاں سے حل کرنا ضروری ہے ؛ اگر یہ حل نہ ہوا تو دوسرے مقامات بھی حل نہ ہوں گے ۔ ” وَ مَنْ أَشَارَ إِلَیہ فَقَدْ حَدَّہ "، اور جس نے اسے قابل اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی ۔ جناب ! اگر وہ محدود ہو گیا تو اس کا لازمہ کیا ہے ؟ توجہ ہے آپ کی ؟! "و مَن حدَّہُ فَقَد عدَّہ” (اور جو اسے محدود سمجھاوہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا )، اس نے اسے معدود کر دیا ؛ وہ وحدت عددی کا قائل ہو گیا ۔
    اگر میں کسی طالب علم سے یہ سوال کروں کہ آغا آپ خدا کی وحدت عددی کے قائل ہیں یا نہیں ؟ تو وہ کہے گا : آقا ! یہ کیسا سوال ہے؛ اس کا کیا فائدہ ہے ؟ جناب ! ہمارے سارے دینی معارف اسی میں ہیں ۔ امام فرماتے ہیں : "و مَن حدَّہُ فَقَد عدَّہ” ۔ آپ آج کسی بھی فاضل طالب علم سے جا کر پوچھ لیں کہ آپ قائل ہیں کہ خداوند عالم واحد ہے؟ وہ کہے گا کہ ہماری اصلِ اول توحید ہے ؛ پھر سوال کریں کہ یہ کون سی وحدت ہے ؟ وہ کیا جواب دے گا ؟ کہے گا کہ آپ کون سی بحثیں کر رہے ہیں ؛ ان کا فائدہ کیا ہے ؟ کہ خود کو ان میں الجھا رہے ہیں ؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر قائل بہ عدد ہو گئے تو کیا ہوگا ؟ اس میں کیا مشکل ہے ؟ اس میں کیا مسئلہ ہے ؟ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۱۵۱ میں فرماتے ہیں : ومَنْ حدّہُ فَقَد عدَّہُ ؛ یا امیر المومنین سلام اللہ علیک يا امام الموحدین ! اگر وہ اس کے لے عدد کا قائل ہو گیا تو کیا ہو گا؟ فرماتے ہیں : "ومَنْ عدَّہُ فَقَدْ أبْطَلَ أزلَہ” ( اور جس نے اس کو شمارکیا اس نے اس کی ازلیت کو باطل کر دیا) ، پھر وہ ازلی نہیں ہے ، ممکن ہو جائے گا، حادث ہو جائے گا ؛ میں واقعا آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ان مسائل کی اہمیت و عظمت کو دیکھیں ؛ آپ آج کسی سے بھی جا کر سوال کریں کہ کیا ملازمہ ہے وحدت عددی کے درمیان اور بطلانِ ازلیت اور اثباتِ حدوث و امکان کے درمیان ؟ یہ کیا ملازمہ ہے جو امام (ع) بیان فرما رہے ہیں کیونکہ کلامِ معصوم ہے ۔ اور یہ بھی آپ کی خدمت میں عرض کردوں کہ آئمہ (ع) نے تمام مقامات پر پہلے امام (ع) سے لے کر آخری امام(ع) تک اس مطلب کو بیان فرمایا ہے ؛ ابھی آپ کے سامنے توحیدِ صدوق سے پڑھ کر سناتا ہوں ؛ امام رضا (ع) بھی یہی فرماتے ہیں کہ آپ محدودیت میں نہ پڑیں کیونکہ اگر محدودیت میں جا پڑے تو اس سے نکل پائیں گے یا نہیں ؟ نہیں نکل پائیں گے ۔ یہ ہے توحیدِ صدوق ؛ البتہ متعدد تعابیر کے ساتھ یہ مطلب وارد ہوا ہے ۔ صفحہ نمبر ۳۷ پرامام فرماتے ہیں : "وَلَا إیَّاہ وَحَّدَ مَن إکتَنَہ ، وَلَا حَقِیقَۃ أصَابَ مَن مَثَّلَہ”(جس نے اس کی اصل حقیقت معلوم کرنے کا خیال کیا؛ وہ اسے یکتا نہیں مان رہا، اور جو اس کیلئے مثل و نظیر پیش کر رہا ہے؛ وہ اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ پایا) ، محل شاہد : "وَلَا بِہ صَدَّقَ مَن نَھَّاہُ”اسے متناہی خیال کرنے والے نے اس کی تصدیق نہیں کی ("أي جَعَلَ لہ نِہایَۃ”یعنی اس کیلئے انتہا قرار دی) وہ اصلا ایمان نہیں لایا "وَلَا بِہ صَدَّقَ مَن نَھَّاہُ”اسے متناہی خیال کرنے والے نے اس کی تصدیق نہیں کی("جَعَلَ لَہ نَھَایَۃ أي جَعَلَ لَہ حَدَاً” اس کیلئے انتہا قرار دی یعنی اس کے لیے حد قرار دی) اصلا وہ ایمان نہیں لایا ، یہ روش اخباری ہے ، یہ ہم توحیدِ صدوق سے استفادہ کر رہے ہیں ؛ روایت پڑھ رہے ہیں ۔ پس آپ ملاحظہ کریں کہ راہ کو کہاں سے شروع کرنا چاہیے ؟ معرفت اللہ سے اور معرفت اللہ کو کہاں سے شروع کیا جائے؟ نفی حد سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے!۔

    • تاریخ : 2016/09/17
    • صارفین کی تعداد : 1066

  • خصوصی ویڈیوز