ابن عربی کا حضرت امام مہدی(عج) کے ظہور کے بعد آپ(عج) کی حيات طيبہ ، روشِ حکومت اور پيغمبروں اور اوليا کے درميان آپ(عج) کے مقام و منزلت کے بارے ميں نظريہ البتہ ان کے شاگرد بھی يہی نظريہ رکھتے ہيں ، ليکن چونکہ وہ خود اس مکتب کے بانی ہيں لہذا ميں ان کے کلام کو نقل کرتا ہوں۔
ان کی زندگی کے بارے ميں ہم نے اپنی گزشتہ گفتگو ميں کچھ مورد ذکر كيے ہيں، ہم نے کتاب «اليواقيت والجواہر» جلد 2، صفحہ562 سے ان کی عبارت نقل کی ہے جس ميں وہ کہتے ہيں کہ آپ(عج) ابن فلاں ،ابن فلاں۔۔۔۔يہاں تک کہ کہتے ہيں: آپ(عج) امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ہيں۔ سوال : کيا امام عسکری(ع) اس وقت زندہ ہيں؟ ياان کی رحلت ہو چکی ہے اور وہ اپنے پروردگار کی طرف رحلت فرما چکے ہيں ، پس ضروری ہے کہ آپ(عج) پیدا ہو چکے ہوں۔ اب ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ آپ(عج) بعد ميں پيدا ہوں گے ! امام حسن عسکری(ع) اس وقت موجود نہيں ہيں تاکہ يہ کہا جائے کہ آپ(ع) بعد ميں پيدا ہوں گے يہ اس چيز پر بہترين دليل ہے کہ وہ آپ(عج) کے زندہ ہونے پر اعتقاد رکھتے ہيں يا نہيں ؟ ان کا عقيدہ ہے کہ آپ(عج) زندہ ہيں يہ امام مہدی(ع) کے حوالے سے پہلا مورد ہے۔
دوسرا مورد يہ ہے کہ آپ(عج) ظہور کے وقت لوگوں کے درميان کس طرح حکومت کريں گے؟ يہ کتاب فتوحات مکيہ ہے ، پبلشر «دار الكتب العلميۃ» جلد 6، ص 62کہتے ہيں : مہدی(عج) فقط اس چيز کے ساتھ حکومت کريں گے جسے خدا کا ايک فرشتہ ان کے قلب ميں القا کرے گا۔ يعنی حکومت ميں ايک فرشتے کے ذريعے آپ(عج) کی نصرت کی جائے گی ۔وہ فرشتہ جس کو خداوند نے آپ(عج) پر مامور کيا ہے تاکہ وہ آپ(عج) کی نصرت کرے اور وہ ، وہی حقيقی محمدی(ص) دستور ہے کہ اگر آپ(ص) خود زندہ ہوتے اور اس مسئلے ميں آپ(ص) کی طرف رجوع کيا جاتا تو آپ(ص)بھی وہی حکم ديتے جو يہ امام(عج) ديں گے۔ پس آپ(عج) کا حکم رسول اللہ (ص) کا حکم ہے۔ سوال : پس کيا آپ(عج) مجتہد ہيں يا معصوم؟ اگر آپ کا حکم رسول اللہ(ص) کا حکم ہے تو کيا پھر مجتہد ہوں گے ؟ چونکہ مجتہد صحيح يا غلط ہو سکتا ہے وہ خود کہتے ہيں : خداوند متعال آپ(عج)کو شريعت سے آگاہ کرے گا اور قياس کو آپ پر حرام قرار دے گا آپ(عج) پر قياس حرام ہے ، کيوں؟ چونکہ آپ (عج) کے پاس حقيقت آشکار ہے، اور جو حقيقت سے واقف نہيں ہوتا وہی قياس کی طرف جاتا ہے۔ اسی ليے رسول خدا(ص) نے امام مہدی(عج) کے وصف ميں فرمايا :”وہ ميری راہ و روش پر چلے گا اور غلطی نہيں کرے گا”۔
پس ہم نے جان لياکہ آپ(عج) "رسول اللہ(ص)” کے پيروکار اور معصوم ہيں۔ اگر ہم کسی کو مشخص کرنا چاہتے ہيں کہ وہ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے تو ہميں کس بنياد پر تشخيص دينی چاہيے ؟ اس کے عقيدہ کی بنياد پر پس يہ اس کا عقيدہ ہے ۔آپ کہيں گے کہ وہ مخالف عقائد بھی رکھتے ہيں ميں کہتا ہوں جی ہاں! ان کی کتابوں ميں موجود ہيں ۔ضروری ہے کہ ان کا جائزہ ليں کہ آيا يہ خود اس کی کتابوں ميں سے ہيں يا نہيں، چونکہ ابن عربی کی طرف منسوب بہت ساری کتابيں ان کی نہيں ہيں ۔ وہ کہتے ہيں : آپ(عج) معصوم ہيں ؛ اور حکم ميں معصوم کا معنی صرف يہ ہے کہ وہ خطا اور اشتباہ نہيں کرتے اور رسول خدا(ص) کے حکم ميں خطا کا تصور ممکن نہيں ہے؛ يعنی ان کا حکم رسول خدا(ص) کا حکم ہے۔ پس پہلا مورد يہ ہوا کہ آپ(عج)امام حسن عسکری(ع) کے فرزند ہيں ، دوسرا مورد يہ کہ آپ(عج) زندہ ہيں اور تيسرا مورد يہ کہ ظہور کے وقت ايک فرشتے کے ذريعے آپ(عج) کی نصرت کی جائی گی اور آپ(عج) کا حکم رسول خدا (ص) کا حکم ہے۔
چوتھامورد : آپ(عج) کا تمام انبيا اور اوليا کے درميان مقام و منزلت کيا ہے ؟ حضرت آدم (ع) سے ليکر آخری ولی اور اپنے آباء و اجداد تک يہ موضوع بہت زيادہ اہم ہے۔ وہ فتوحات کی جلد 7، صفحہ نمبر115 پر کہتے ہيں کہ يہ شخص جو بے شک خاتمِ ولايت ہيں اور خود دعوا کرتے ہيں کہ ميں نے مکاشفے کے ذريعے ان کو سبيا(اندلس) ميں ديکھا ہے ؛يہ ان کا اپنا دعوی ہے ، ہم اس کو قبول نہيں کرتے ۔ وہ کہتے ہيں :جو کچھ ان بارہ ہستيوں کے ساتھ خاص ہے ہم اسے ذکر کرتے ہيں؛ يہ بارہ قطب کہ جن کا ذکر گزر چکا ہے۔ پس يہ قطب کون سا قطب ہے ؟ بارہواں قطب! پس يہ قطب ان اقطاب ميں سے کامل ترين ہے۔ ان کی خصوصيات کيا ہيں ؟ کہتے ہيں : خداوند نے ان کے ليے ظاہر اور باطن ہر دو صورتوں کو جمع کيا ہے پس ان کے ليے ظہور بھی ہے اور حضور بھی اسی طرح غيبت بھی۔ پس ظاہر ميں آپ(عج) تلوار کے ساتھ قيام کرنے والے خليفہ ہيں، ہمارے آئمہ(ع) ميں سے امام امير المومنين(ع) کے بعد کسی امام (ع) نے تلوار کے ساتھ قيام نہيں کيا اور باطن ميں با ہمت ہيں۔ ہماری روايات کيا کہتی ہيں ؟ کيا آپ کو ان کا نام لينے کی اجازت ہے يا نہيں؟ اب ميں نہيں جانتا کہ اس نے ہماری کتاب "الکافی” پڑھی ہے يا نہيں ؟ ميں نہيں جانتا! ۔ کہتے ہيں : ميں ان کا نام نہيں ليتا اور نہ ہی ان کو مشخص کرتا ہوں چونکہ مجھے اس سے منع کيا گيا ہے اور ميں نے جان ليا ہے کہ کس وجہ سے مجھے ان کا نام لينے اور ان کو مشخص کرنے سے منع کيا گيا ہے۔ اور ان اقطاب کے درميان ان جيسا کوئی نہيں ہے جو "قطبيت” کے تمام لوازمات کا حامل ہو کہتے ہيں وہ بارہ اقطاب ميں سب سے افضل ہيں۔
ميرا خيال ہے کہ يقينا جس وقت موضوع اميرالمومنين(ع) تک پہنچے گا تو وہ خود کہيں گے: آپ(ع) کائنات کے امام (ع) اور تمام پيغمبروں کے راز ہيں بے شک امير المومنين (ع) اور پيغمبر اکرم(ص) مستثنی ہيں۔ وہ حضرت ختمی مرتبت(ص) کے وارثوں کے بارے ميں بات کر رہے ہيں پھر تيسری جلد کو ملاحظہ کريں ، وہاں تو صراحتا کہتے ہيں، جلد3، صفحہ15 کہتے ہيں : اور ختم (ولايت) ان پر ہے ان اقطاب ميں سے ايک خاتمِ ولايت ہيں وہ صرف ايک فرد ہے ، نہ کہ سارے زمانوں ميں چونکہ وہ يقين رکھتے ہيں کہ ہر زمانے ميں ايک قطب موجود ہے بلکہ وہ تمام عالَم ميں ايک ہے۔ جی ہاں ! شايد ايسے اوليا موجود ہوں جو آپ(عج) کے خادموں ميں سے ہيں ليکن وہ خود ايک ہی ہيں ۔ابھی وہ اس "ايک” کو مشخص کريں گے ؛خداوند ان کے ذريعے "ولايت محمديہ” کو ختم کرے گا اور ِمحمدی اوليا ميں ان سے با عظمت اور کوئی نہيں ہے۔ آپ کہيں گے پھر آپ حضرت عيسی(ع) کے بارے ميں کيا کہيں گے؟ کہتے ہيں نہيں ! حضرت عيسی(ع) انکے بعد آئيں گے۔
پس مشخص ہوا کہ خاتم اوليا حضرت حجت(عج) کا مقام کہاں ہے اگرچہ کہ حضرت عيسی(ع) خاتمِ ولايت بھی تھے ليکن سابقہ پيغمبروں کی ولايت کے خاتم تھے نہ کہ ِولايت محمديہ کے خاتم ہيں؛دوسرا خاتم، کہ جس کے ذريعے خداوند متعال اس عمومی ولايت کو ختم کرے گا۔ يہ مخصوص ولايت جو خاتم الانبيا سے ہے اس کے خاتم مہدی منتظر(عج) ہيں۔ ليکن عام ولايت جو حضرت آدم (ع) سے حضرت موسی(ع) تک تھی کہتے ہيں کہ اس کے خاتم حضرت عيسی(ع) ہيں۔ اور وہ خاتم الاوليا ہيں ؛ ليکن کون سے اوليا؟ سابقہ اوليا نہ کہ محمد مصطفی(ص) کی ولايت! اس وجہ سے آپ ديکھتے ہيں ، تمام مسلمانوں کے مابين موردِ اتفاق ، صحيح اور معتبر روايات موجود ہيں کہ حضرت عيسی(ع) نازل ہوں گے اور محمدی اوليا کے خاتم (عج)کی اقتدا کريں گے۔ يہ ايک دلالت ہے ، بات ايک نماز جماعت کی نہيں ہے کہ حضرت حجت(ع) کھڑے ہوں گے اور ان کے پيچھے ايک اولوالعزم پيغمبر کھڑے ہوں گے نہيں !بلکہ ايک حقيقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہيں کہ يہ سب کس کی اقتدا کريں گے؟ نہ صرف رسول خدا(ص) اور حضرت علی(ع) کی اقتدا کريں گے بلکہ ان کی اقتدا بھی کريں گے جو (رتبے ميں)رسول خدا(ص) اور امام علی(ع) سے کمتر ہيں۔