مقالات و آراء

  • آیت اللہ حیدری کی نظر میں دین فہمی کی راہیں اور قسمیں (۱)

  • یہ تحریر، آیت اللہ حیدری کے "دین فہمی کی روش” جیسے اہم، مشکل اور دلچسپ موضوع پر اظہار خیال کا اقتباس ہے۔
    آغا حیدری نے یہ بحث ایک علمی و تحقیقی مرکز میں "تھیوری چیئر” کے قالب میں پیش کی تھی کہ اپنی اہمیت اور تازگی کے سبب پیش خدمت ہے ۔
    قابل ذکر ہے کہ استاد حیدری کی یہ بحث ابھی تک کہیں بھی شائع نہیں ہوئی ہے اور پہلی بار اسے سائیٹ پر اپ لوڈ کیا جا رہا ہے ۔ ہماری کوشش ہو گی کہ وقفے وقفے سے اس اساسی اور بنیادی نوعیت کی بحث کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا رہے ۔
    دین فہمی کی راہیں اور قسمیں
    "دین فہمی کی روش” کے عنوان کے ذیل میں چند ایک ابحاث کو پیش کیا جاسکتا ہے اور میں اس نشست میں ان کی طرف ایک اجمالی اشارہ کرنے کے بعد ان مباحث میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں گا اور اپنی بحث کو اس پر مرکوز کروں گا ۔
    پہلا مسئلہ یہ ہے کہ دین فہمی کے لیے بنیادی طور پر کون سی راہیں اور طریقے موجود ہیں ؟ دوسرے الفاظ میں آیا ضروری ہے کہ سب لوگ دین کو ایک ہی روش سے سمجھیں؟ یا یہ کہ دین کی شناخت کے متعدد طریقے اور منہج موجود ہیں ؟! اس سوال کے جواب میں ضروری ہے کہ میں یہ عرض کر دوں کہ ہمارے نزدیک دینی تعلیمات کو سمجھنے کے مجموعی طور پر تین طریقہ کار موجود ہیں کہ ذیل میں اجمالی طور پر ان کی وضاحت کریں گے۔
    پہلا طریقہ کار: بیانی منہج
    پہلا طریقہ کار، "بیانی منہج” ہے ۔ یہ صرف آیات اور روایات کے لفظی منظومہ کو سمجھنے کے درپے ہے ؛ یعنی دین فہمی کے عمل میں نہ عقلی حکم کو عمل دخل دیتا ہے اور نہ – بقولِ شہید صدر(رہ) – شریعت کے مقاصد اور روح کو مدنظر رکھتا ہے ۔ اس طریقہ کار میں فقط ظاہرِ الفاظ ، عبارتوں کے مفرادات اور جملوں کی ترکیب کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔
    کہا جاسکتا ہے کہ یہ طریقہ کار(شیعوں میں) اخباری اور (اہل سنت میں) حنبلی اور سلفی منہج کی مانند ہے ۔ "بیانی منہج” کے قائل افراد دین کو فقط ادّلہ کے ظواہر سے سمجھتے ہیں لیکن یہ کہ آیا اس منہج کے ذریعے سمجھا گیا فلاں مطلب، حتمی عقلی قواعد اور اصولوں کے مطابق بھی ہے یا نہیں؛ اس چیز کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں ہوتی ۔تجسیم اور تشبیہ کا عقیدہ بھی دین شناسی کے اسی بیانی طریقہ کار کا انجام ہے ۔
    دوسرا طریقہ کار: عقلی منہج
    عقل کے معانی :
    عقل کا پہلا معنی : معقولات کا ادراک
    دوسرا طرز تفکر اور طریقہ کار کہ جسے کچھ لوگ دین فہمی میں بروئے کار لاتے ہیں "عقلی منہج” ہے ۔ یہاں یہ بات دقت طلب ہے کہ جب لفظ”عقل” کو استعمال کیا جاتا ہے تو ذہن میں دو معنی پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلے معنی میں عقل ایک ایسی قوّت اور طاقت کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان کسی چیز کو سمجھتا ہے جیسے "باصرہ” کی تعریف میں کہتے ہیں :”القوۃ التی نبصر بھا” (وہ قوّت جس کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں) عقل کا یہ معنی جو قوتِ عاقلہ کے مترادف ہے؛ موردِ بحث نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا یہاں تک کہ اخباری بھی اپنی عقل کے ذریعے سمجھتے ہیں نہ کہ دوسری کسی قوّت کے ذریعے ۔
    عقل کا دوسرا معنی : ادراک شدہ معقولات
    عقل کے دوسرے معنی سے وہ چیز مراد ہے جو اس عقل کے توسط سے وجود میں آتی ہے ؛ یعنی وہ معقولات جو فکری اور عقلی فعالیت کا ماحصل ہیں۔ انسانی عقل قدرت رکھتی ہے کہ (نقل سے بے نیاز ہو کر) مستقل طور پر اپنی طرف سے کچھ مبانی اور قواعد اختراع کرے۔ انہی کی بنیاد پر یہ بعض چیزوں کو قبول کرتی ہے اور بعض کی نفی کرتی ہے اور اس بحث میں یہی دوسرا معنی ہمارے مدِنظر ہے۔
    "عقلی منہج” پر یقین رکھنے والے افراد کا یہ خیال ہے کہ "حتمی و قطعی عقل” کا نقلی متون پر حاکم ہونا ضروری ہے۔ اس میں فرق نہیں کہ یہ آیات اور روایات اصول دین کے ساتھ مربوط ہوں یا فروع دین کے ساتھ ۔ بالفاظ دیگر اس طریقہ کار میں عقل، دینی معرفت کی تشکیل میں کافی عمل دخل رکھتی ہے، پہلے طریقہ کار کے برخلاف جو دین فہمی کے عمل میں عقل کے لیے کسی بھی قسم کے کردار کا قائل نہیں ہے۔

    • تاریخ : 2017/02/06
    • صارفین کی تعداد : 1063

  • خصوصی ویڈیوز