مقالات و آراء

  • آیت اللہ حیدری کی نگاہ میں دین فہمی کی راہیں  اور قسمیں (۲)

  • دین فہمی کے دو بنیادی مآخذ  کے عنوان سے قرآن و سنت میں کیا رابطہ ہے ؟

    ابتدا میں اس بحث کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ دین مساوی ہے منقولات کے خواہ یہ منقولات قرآن میں ہوں یا روایات میں ۔ روایات کے بارے میں مزید یہ کہنا ضروری ہے کہ شیعہ احادیثِ پیغمبر(ص) کے ساتھ ساتھ اہل بیت(ع) کے فرامین کو بھی حجّت مانتے ہیں لیکن اہل سنت  صحابہ اور تابعین کے اقوال  کی حجیّت کے قائل ہیں ۔ یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ اہل سنّت علما نے فقط رسول اکرم(ص) کے کلام پر اکتفا کیا ہے بلکہ وہ بھی اپنی روایات کے منابع کی توسیع کے قائل ہیں  اور انہوں نے عملی طور پر صحابہ اور تابعین  کے اقوال کو قبول کیا ہے ؛ چونکہ وہ متوجہ ہو چکے ہیں کہ پیغمبر (ص) کی روایات کافی نہیں ہیں ۔

    البتہ اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ  یہ جو ہم نے کہا کہ دین منقولات کے مساوی ہے اس کا مطلب دین کے اندر موجود معقولات کا انکار کرنا  نہیں ہے ؛ کیونکہ انہی منقولات کے اندر وافر مقدار میں عقلی اور استدلالی مباحث کو بھی پیش کیا گیا ہے ، جیسا کہ  سورہ مبارکہ انبیاء کی آیت نمبر ۲۲ : «لَوْ کانَ فیھِما آلِھَۃ إِلاَّ اللَّہُ لَفَسَدَتا»( اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو دونوں کا نظام برباد ہو جاتا)؛    کہ بعض فلاسفہ  نے اس آیت سے "برہان تمانع” کا استنباط کیا ہے ۔ اسی طرح  بطور نمونہ نہج البلاغہ میں امام علی (ع) کے توحید پر استدلال  کی طرف  بھی  اشارہ  کیا جا سکتا ہے : « مَنْ وَصَفَہُ فَقَدْ حَدَّہُ وَ مَنْ حَدَّہُ فَقَدْ عَدَّہُ وَ مَنْ عَدَّہُ فَقَدْ أَبْطَلَ أَزَلَہُ»(اور جس نے اسے کی توصیف کی اس نے اسے محدود کر دیا اور جس نے اسے محدود کیا وہ اسے شمار میں لے آیا اور جو اسے شمار میں لے آیا اس نے اسی کی ازلیت کو باطل کردیا ).

    پس دین کے منقولات میں بہت سی عقلی ادّلہ اور فکری مباحث کو پیش  کیا گیا اور ان کی تفسیر کی گئی ہے  لیکن بہرحال یہ سب نقل(تاریخ) کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں نہ یہ کہ ہم انسانوں کی عقل کے ایجاد کردہ ہوں ؛ اگرچہ انسانی عقل بھی شریعت سے ہٹ کر بذات خود اپنے مخصوص افکار، استدلال اور اختراعات رکھتی ہے ۔

    قرآن کریم میں منقول دینی تعلیمات کا مجموعہ

    قرآن، دین کے منقولات کا سب سے پہلا اور سب سے اہم مجموعہ ہے اور جس وقت ہم قرآن کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے دینی تعلیمات کا ایک مکمل  تعارف پیش کیا ہے ۔ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ  سورہ نحل کی آیت نمبر ۸۹ میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے :  «وَ نَزَّلْنا عَلَیْکَ الْکِتابَ تِبْیاناً لِکُلِّ شَیْ‏ء»( اور ہم نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو ہر بات کو کھول کر بیان کرتی ہے) .   اس بنا پر  تمام دینی مبانی- بشمول اعتقادی ، اخلاقی ، تربیتی اور فقہی امور وغیرہ   – کو قرآن سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور کوئی بھی اس مطلب کا انکار نہیں کرتا ۔

    روایات میں منقول دینی تعلیمات کا مجموعہ

    روایات، دین کی منقول تعلیمات کا دوسرا مجموعہ ہیں۔  ان  احادیث کی تعداد  بھی وافر اور طرح طرح کے موضوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ ہے  ۔ شاید کہا جاسکتا ہے کہ وہ روایات جو صرف شیعہ مآخذ میں وارد ہوئی ہیں ان کی تعداد تقریبا ۵ لاکھ  ہے   . اگر  شیعہ مآخذ میں مذکور ہونے والی روایات تعداد کے لحاظ سے  اتنی زیادہ ہیں تو  اہل سنت کی احادیث تو لاکھوں تک پہنچتی ہیں۔ خود اہل سنّت کے علما بھی اس مسئلے  ،یعنی اپنی روایات کی غیر معمولی کثرت  اور  ان کے بے شمار ہونے کا اعتراف کرتے ہیں  ۔ یہاں ہم ان موارد میں سے چند مثالوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ بحث مزید روشن اور مستند ہو جائے ۔

    علامہ  ناصر الدین الالبانی اپنی کتاب "الذبّ الاحمد عن مسند الامام احمد” کے صفحہ نمبر ۱۱ پر کہتے ہیں  : «إن ھذا الکتاب قد جمعتہ و انتقیتہ من اکثر من سبعہ مئۃ خمسین الف روایات» یعنی میں نے یہ ۳۰ ہزار (یا ۳۵ یا پھر ۴۰ ہزار) روایتیں سات لاکھ پچاس  ہزار  روایات میں سے جمع کی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اس زمانے میں روایات کا کیسا آشفتہ اور بلا حساب و کتاب بازار گرم تھا کہ احمد بن حنبل سات لاکھ پچاس  ہزار روایات میں سے تقریبا ۳۰ یا ۴۰ ہزار کا انتخاب  کرتے ہیں ۔ طبیعی سی بات ہے کہ بخاری بھی اسی طرح کی بات کرتا ہے  اور مسلم بھی یہی کہتا ہے   اور اسی طرح باقی بھی … جالب یہ ہے کہ ان روایات میں ہر چیز کو پیش کیا گیا ہے ! شاید بہت کم ایسے موضوعات اور موارد  ملیں گے کہ جن کی طرف ان احادیث میں اشارہ نہ کیا گیا ہو۔ پس منقولاتِ دین کے دو ماخذ یا مجموعے ہماری دسترس میں ہیں کہ جن میں تمام دینی تعلیمات سمائی ہوئی ہیں۔

    خلاصہ یہ کہ جب ہم شیعہ اور سنی روائی منابع کی طرف رجوع کرتے ہیں تو قلت و کثرت کے لحاظ سے ہمیں روایات کی بہت بڑی تعداد  کا سامنا  ہوتاہے۔

    اصل زیر بحث مسئلے کی تصویر کشی

    اب مذکورہ بالا مطلب  کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس بنیادی مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان دونوں میں سے کون  اصل   ہے اور کون فرع  ہے ؟ دوسرے لفظوں میں ہم یہاں دیکھیں گے کہ اسلامی تعلیمات (بشمول احکام وعقائد) کی شناخت کے لیے کیا سب سے پہلے قرآن کی طرف رجوع کیا جائے یا روایات کی طرف؟ درحقیقت ہم قرآن وروایات کی باہمی نسبت اور رابطے کی حقیقت کا سراغ لگانا چاہتے ہیں۔

    • تاریخ : 2017/02/13
    • صارفین کی تعداد : 1100

  • خصوصی ویڈیوز