مقالات و آراء

  • پیغمبر اکرم (ص) کے نزدیک سیدہ زہرا(علیھا السّلام) کی قدر و منزلت

  • کتاب "فضائل فاطمۃ الزھرا(علیھا السّلام)”

    کتاب قيمتی ہے اور اس کی تحقيق "عليرضا بن عبد اللہ بن عليرضا” نے کی ہے. اور يہ شخص کتاب ميں وارد ہونے والی روايات کے شديد ترين مخالفين ميں سے ہے. يعنی اس نے کتاب کی تحقيق کی ہے اور جس حد تک امکان تھا اس نے روايات کی تضعيف کی ہے. يہ شخص علامہ "البانی” کے شاگردوں ميں سے ہے. روايت کی اہميت يہ ہے کہ اسے عائشہ نے نقل کيا ہے ، يعنی روايت کو نقل کرنے والی عائشہ رسول خدا(ص) کی زوجہ ہيں. اور طبيعی سی بات ہے کہ وہ دوسروں سے زيادہ آپ(ص) کے نزديک تھيں. ام المومنين عائشہ سے روايت ہے ، کہتی ہيں : "ميں نے کسی ايسے کو نہيں ديکھا جو کلام اور گفتگو ميں حضرت فاطمہ(عليھاالسّلام) سے زيادہ رسول اللہ(ص) کے ساتھ شباہت رکھتا ہو”. اس کے بعد ميں لفظ "کانت” کے مدلول کو بھی واضح کروں گا. ان پانچ موارد کو ذہن ميں رکھيں :

    "اور جب وہ پيغمبر کی خدمت ميں حاضر ہوتی تھيں تو رسول خدا (ص) آپ(ع) کو خوش آمديد کہتے تھے،کھڑے ہو کر آپ(ع) کا استقبال کرتے تھے ، آپ (ع) کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ ديتے تھے، اور آپ(ع) کو اپنی جگہ پر بٹھايا کرتے تھے”. پس دو سطروں پر مشتمل اس متن ميں آپ کو پانچ مورد ملتے ہيں. اور يہ پانچ مورد کچھ اس طرح سے ہيں: پہلا مورد يہ کہ "اور جب آپ(ع) پيغمبر(ص) کی خدمت ميں حاضر ہوتی تھيں”، يعنی ايسا ايک مرتبہ نہيں ہوا بلکہ ہميشہ اسی طرح ہوتا تھا؛ يعنی جب بھی آپ (ع) رسول خدا(ص) کی خدمت ميں حاضر ہوتی تھيں. سوال : آيا جب بھی آپ (ع) پيغمبر اکرم(ص) کی خدمت ميں حاضر ہوتی تھيں اورآپ کی عمر ۱۷ سال تھی ؟ نہيں! يہاں عمومی زمانہ مراد ہے خواہ آپ کا سن مبارک 5 سال تھا ، خواہ 3 سال تھا ، خواہ 10سال تھا ، خواہ 17 سال يا پھر 18 سال تھا؛ اس سے فرق نہيں پڑتا .”آپ جب بھی پيغمبر کی خدمت ميں حاضر ہوا کرتی تھيں”، يہ پہلا مورد کہ يہ عمل صرف ايک بار انجام نہيں ديا گيا بلکہ جب بھی آپ(ع) آتيں تو اس کا تکرار ہوتا تھا.

    دوسرا مورد يہ کہ "رسول (ص) کھڑے ہو کر آپ کا استقبال کرتے تھے” لغت ميں ان دو جملوں: "آپ(ع) کے ليے کھڑے ہو جاتے تھے” اور ” آپ(ع) کے استقبال کے ليے آگے بڑھتے تھے” ميں فرق ہے. "آپ(ع) کے ليے کھڑے ہو جاتے تھے” کی مثال يہ ہے کہ آپ کسی کے احترام ميں اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے ہوں اور پھر بيٹھ جاتے ہوں .ليکن "آپ (ع) کی طرف بڑھتے تھے” يعنی آپ (ص) بذاتِ خود ان کی طرف بڑھتے تھے يہ نہيں کہ سيدہ(ع) آپ کی طرف آتی ہوں بلکہ آپ(ص) آگے بڑھتے تھے .يہ ہے دوسرا مورد !

    تيسرا مورد يہ کہ "رسول کريم (ص) آپ(ع) کا ہاتھ پکڑتے تھے” آپ جانتے ہيں کہ انسان اگر کسی شخص کی بہت زيادہ قدر کرتا ہو تو نہ صرف يہ کہ آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتا ہے بلکہ اپنے ہاتھ سے اسے پکڑ کراپنے پاس بٹھاتا ہے ؛”رسول کريم (ص) آپ(ع) کا ہاتھ پکڑتے تھے”. چوتھا مورد يہ کہ "ان کے ہاتھ پر بوسہ ديتے تھے” اور پانچواں يہ ہے کہ "آپ(ع) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے” يعنی آپ (ص) اپنی جگہ سے ہٹ جاتے تھے اور آپ(ع) کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے .ميرا آپ سے سوال ہے کہ اگر آپ يہ ديکھيں کہ کسی مرجع کے پاس کوئی شخص آيا ہے اور محترم مرجع اپنی جگہ سے کھڑے ہو کر آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرتے ہيں ،اس کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھ کا بوسہ ليتے ہيں پھر اسے اپنی جگہ پر بٹھاتے ہيں ،اس عمل سے آپ کو کيا سمجھ آتا ہے ؟ البتہ اس نکتے کو مدنظر رکھنا چاہيے کہ آپ(ص) رسول خدا(ص) تھے !! يعنی جو حکمِ خدا کے بغير نہ بات کرتے ہيں نہ کام انجام ديتے ہيں اور نہ خاموش رہتے ہيں . چونکہ يہ تمام مسلمانوں کا عقيدہ ہے ،حتی دوسروں ميں اگر کوئی اختلاف ہے بھی تو رسول خدا(ص) ميں تو کسی کو اختلاف نہيں ہے.

    البتہ روايت کے ان پانچ نکات کے ضمن ميں بہت سی باتيں ہيں .سوال : اس روايت کی سند کيسی ہے ؟ اس کتاب کے صفحہ نمبر 36 ميں کہتے ہيں : يہ روايت شيخين( صحیح بخاری و مسلم کے مؤلفين) کی شرط کے مطابق صحيح الاسناد ہے. پس اس کے تمام راوی ثقہ ہيں اور جالب يہ ہے کہ حاشيہ ميں ، کتاب کے محقق "عليرضا بن عبداللہ بن عليرضا” کہتے ہیں :حديث صحيح ہے چونکہ وہ اس روايت کا بال بيکا نہيں کر سکتا اور سند کے اعتبار سے اس ميں بحث کی گنجائش نہيں ہے.

    • تاریخ : 2017/02/16
    • صارفین کی تعداد : 1238

  • خصوصی ویڈیوز