ہمارا فرض ہے کہ صرف ان مظالم پر زور نہ دیں جو سیدۃ نساء العالمین(ع) پر ڈھائے گئے اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے اور مسلمانوں کا قطعی اجماع ہے کہ حضرت زہرا(ع) پر ظلم کیا گیا ۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں ظلم کا ذکر نہیں کرنا چاہیے، ہرگز نہیں ! ذکرِ مصیبت کرنا ضروری ہے ۔ چونکہ میرا یقین ہے کہ رسول اللہ (ص) کے بعد خلافت کی عدم مشروعیت پر اہم ترین دلیل بلاشبہہ "سیدہ فاطمہ زہرا(ع) کی مظلومیّت ” ہے۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے منبروں ، مجالس ، ادب اور ثقافت میں یہ پہلو ناپئید ہے ۔ ہم نے یزید کی مشروعیت کا ؛ کربلا میں امام حسین (ع) پر ٹوٹنے والے مظالم کی روشنی میں خاتمہ کردیا ۔ لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ امت میں اس تفکّر کو راسخ نہیں کر پائے ۔ اسی وجہ سے آپ دیکھتے ہیں کہ اب اگر کوئی یزید کا دفاع کرنا چاہے تو اسے دشواری اور بند گلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ یزید کا دفاع کیسے کرے؟؟! ۔
رسول اللہ(ص) کے بعد حکوت کی مخالفت کے حوالے سے حضرت زہرا(ع) کا عظمت امام حسین (ع) سے بالاتر ہے ۔ نتیجتاً ہم سمجھتے ہیں کہ سیدہ زہرا(ع) کے موقف کے اس پہلو کو اجاگر کرنا ضروری ہے ، میں واضح الفاظ میں کہہ رہا ہوں ۔ سیدہ فاطمہ زہرا(ع) کے موقف اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اور ان پر جو ظلم ڈھائے گئے ۔ ایک طرف سے رسول اللہ (ص) کے بعد کی خلافت کی عدم مشروعیت پر ایک بہترین قطعی دلیل ہے ۔ یہ دو پہلو ہیں کہ حضرت زہرا(ع) کے موقف میں سے جن پر بخوبی توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
لیکن ہم نے کیا کیا ؟ فقط ان مظالم کو بیان کرنے پر اکتفا کر لیا جو حضرت زہرا(ع) پر ڈھائے گئے ۔ لیکن انہوں نے کیوں وہ اقدام کیا ؟ ان کا موقف کیا تھا؟ امیرالمؤمنین (ع) کا کیا پروگرام تھا ؟کیونکہ اس وقت کے امام امیرالمؤمنین تھے۔ پس حضرت زہرا(ع) نے جو کام بھی انجام دیا ، امام امیر المؤمنین(ع) کے شرعی نکتہ نظر کے تحت تھا ۔
اور جو کچھ انجام دیا خواہ اس کا تعلّق بیعت نہ کرنے سے ہو ، یا فدک کا مطالبہ کرنے سے ہو یا مسجد نبوی(ص) میں خطبہ ارشاد فرمانے سے ہو اور آپ کے دیگر موقف۔۔۔۔! یہ تمام امور ٹھوس علوی(ع) منصوبہ بندی کے ساتھ انجام پائے تاکہ رسول اللہ (ص) کے بعد کی حکومت کے عدم جواز کو آشکار کیا جا سکے۔
اور یہ بیان کیا جاسکے کہ سقیفہ میں جو کچھ کیا گیا ، غیر معقول اور قرآن کریم اور وصیتِ رسول اللہ (ص) کے برخلاف تھا ۔ امید کرتا ہوں کہ جو عزیزان ان مباحث کو سماعت فرما رہے ہیں ، حضرت زہرا(ع) کے موقف میں سے اس پہلو پر زور دیں گے ۔ یہ موقف، اگر ہم درست انداز سے امّت کو منتقل کر سکتے تو وہ ان مسائل کی نسبت ایک مثبت اور خلافت کی نسبت منفی نقطہ نظر کی حامل ہوتی ۔ جیسا کہ امام حسین (ع) کے حوالے سے ہوا ، جیسے ہم کربلا میں امام حسین (ع) پر ہونے والے مظالم کے ذریعے بنی امّیہ کی حکومت کو نامشروع قرار دینے میں کامیاب ہوئے ہیں؛ یہ ہمارے بس میں تھا کہ حضرت زہرا(ع) پر ہونے والے مظالم کے ذریعے رسول اللہ (ص) کے بعد حکومت کرنے والے خلفا کی مشروعیت کو کالعدم قرار دیں ۔ لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک ہمارے ہاں صرف رسمِ مظلومیّت جاری ہے ۔ البتہ یہ ایک پسندیدہ امر ہے لیکن ہدف نہیں ہے ۔ یہ ایک اچھا وسیلہ تھا کہ جس کے ذریعے حضرت زہرا(ع) حکومت کی عدم مشروعیت کو ثابت کرنے میں کامیاب رہیں ۔
لہٰذا میں اس وقت یہ بحث شروع نہیں کر سکتا کیونکہ چند دنوں کی ضرورت ہے تاکہ ایک ایک چیز کی وضاحت کر سکوں ۔ کہ حضرت زہرا(ع) ان تھوڑے سے دنوں میں جو چند ماہ سے زیادہ نہ تھے کس طرح رسول اللہ(ص) کے بعد کی خلافت کی عدم مشروعیت کی سنگ بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئیں ۔اگر ہم ان موقفوں سے اچھی طرح استفادہ کرنے پر قدرت رکھتے ہوں تو ان کو امت تک منتقل کر سکتے ہیں ۔
دخترِ رسول اللہ (ص) کہ گزشتہ روز ان کی شان میں آپ(ص) کے فرامین کو بیان کیا ۔ یہ تمام فرامین ، امت کو آمادہ کرنے کے لیے ایک مقدمہ تھے ۔ تاکہ سیدہ فاطمہ (ع) اگر کوئی بات کہیں یا کوئی موقف اختیار کریں تو امت یہ جان لے کہ بے شک یہ موقف شرعی و دینی موقف ہے ۔ یہ بیہودہ نہیں تھا کہ رسول اللہ(ص) ہر روز فاطمہ زہرا(ع) کے مقامات کی تصریح کریں ۔ یہ سب کس چیز کے لیے تاکید تھی ؟ یہ سب اس چیز کی تاکید تھی کہ سیدہ زہرا(ع) کے لیے ایک خاص ذمہ داری اور کردار تھا ۔ اگر ہم اس کردار سے اچھی طرح استفادہ کریں اور اسے امت کے لیے واضح کریں اورمحض احساسات ، مظلومیّت اور گریہ کے بُعد سے باہر لے آئیں؛ میں دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ مراد ان کو حذف کرنا نہیں ہے ۔ نہیں ! یہ ایک مطلوب چیز ہے ۔ کیونکہ یہ امت کو اس قسم کے موقف کے ساتھ مربوط کرے گی کون سے موقف کے ساتھ ؟ احساسات ، امت کو ان موقفوں کے ساتھ وصل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا ۔ لیکن ہم نے فقط مظلومیّت کے بیان پر ہی اکتفا کیا اور اس سے آگے نہیں بڑھے ۔