اسماعيل روایت کرتا ہے کہ ميں نے امام باقر(ع) سے اس دين کے بارے ميں سوال کيا جس کی نسبت نادانی اور جہالت بندوں کے ليے جائز نہيں ہے تو امام (ع) نے فرمايا:”دين ميں وسعت ہے ليکن خوارج نے نادانی کے سبب خود پر (عرصہ حيات) تنگ کر رکھا ہے”۔ پس جو کوئی بھی مذہبِ اہل بيت(ع) ميں ايک کے اوپر دوسری شرط رکھتا ہے،امام (ع) کے بقول ان کی مثال خوارج جیسی ہے چونکہ آپ کو معلوم ہے کہ جب آپ کسی شرط کا اضافہ کرتے ہيں، تو دائرہ تنگ کر ديتے ہيں يعنی اگر آپ نے عصمت کے بعد ولايت تکوينی پر ايمان کو بھی شرط قرار ديا تو علمائے اماميہ کی بڑی تعداد تشيّع سے خارج ہو جائے گی۔ اور اگر اس کے ساتھ علم غيب کی شرط بھی لگا دی تو شيخ مفيد جيسے بعض علمائے اماميہ بھی مذہب سے خارج ہو جائيں گے۔ کيونکہ وہ علم غيب کے بطور مطلق معتقد نہيں ہيں،ان کا کہنا ہے کہ آپ(علیھم السّلام) بعض امور کو جانتے ہيں ۔اسی طرح جس قدر حدود و قيود کا اضافہ کريں گے، اسی قدر مصداق کو تنگ کر ديں گے۔ امام (عليہ السّلام) فرما رہے ہيں کہ خوارج نے خود کو تنگی (اور سختی) ميں ڈالے رکھا اور لوگوں کو خارج کيا "خوارج نے نادانی کے باعث خود اپنے آپ کو مصيبت ميں ڈالا”۔
ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں! کيا ميں آپ کو اپنے دين کے بارے ميں بتاؤں؟اور آپ (ع) مجھے بتائيں کہ اضافی امور کيا ہيں فرمايا: ہاں۔ ميں نے کہا: ميں گواہی ديتا ہوں کہ خدائے وحدہ لاشريک کے سوا کوئی معبود نہيں ہے اور گواہی ديتا ہوں کہ محمد(ص) اس کے بندے اور رسول ہيں "اور جو کچھ خدا کی جانب سے نازل ہواان سب کا اقرار کرتا ہوں اور آپ کی پيروی کرتا ہوں "يہ ہے ولايت "اور آپ (ع) کے دشمنوں سے بيزار ہوں اور جس نے بھی آپ(ع) پر اپنی بڑائی جتلائی اور آپ (ع) پر تسلّط حاصل کيا اور زبردستی آپ (ع) کا حق چھينا؛ بيزار ہوں۔
فرمايا: "تو کسی چيز سے جاہل نہيں ہے ،خدا کی قسم يہ وہی کچھ ہے جس پر ہمارا بھی عقيدہ ہے” ميں نے عرض کيا: "اگر کوئی شخص اس امر کی معرفت نہيں رکھتا تو کيا وہ (خدا کے عذاب سے يا ہميشہ ہميشہ کيلئے آگ ميں جلنے سے) محفوظ رہے گا؟”۔دقت کريں کہ امام کس طرح دائرے کو وسيع کرتے ہيں واقعًا عالمين کے ليے رحمت ہيں! اے فرزندِ رسول خدا(ص)!فرض کريں کہ کوئی اس کی بھی معرفت نہيں رکھتا يعنی آپ (ع) کی ولايت اور آپ(ع) کے دشمنوں سے بيزاری کی بھی معرفت نہيں رکھتا ليکن شہادتين يعنی دو بنيادی ارکان کا اقرار کر چکا ہے تو کيا جو شخص اس امر کی معرفت نہيں رکھتا وہ(خدا کے عذاب يا ہميشہ کی آگ) سے محفوظ رہے گا؟! "فرمايا: نہيں، سوائے مستضعفين کے” ۔
روايات نے مشخّص کر ديا ہے کہ مستضعفين کون ہيں، وہ لوگ جن تک حجّت نہيں پہنچی يا حجّت پہنچی ہے ليکن وہ دليل ان کيلئے قانع کنندہ نہيں تھی اس کے ليے ثابت نہيں ہو سکا، آپ نے دليل قائم کی ليکن اس نے کہا کہ يہ کافی نہيں ہے وہ سچا ہے اور دشمن و معاند بھی نہيں ہے۔اگر معاند ہوا تو قيامت کے دن اللہ اس کو پہچان لے گا۔ فرمايا: "سوائے مستضعفين کے”،ميں نے عرض کيا :وہ کون ہيں؟ يہ سب کے سب مسلمان؛ تمہاری خواتين اور تمہاری اولاديں يہ سب اس امر (عذاب الہی) سے محفوظ رہيں گے کروڑوں مسلمان مستضعفين ميں سے ہوں گے ۔پھر فرمايا: کيا تم نے امّ ايمن کو ديکھا ہے؟ يہ بڑھيا کہ جسے تم جانتے ہو ۔امام(ع)اب اس کے ليے مصاديق کو ذکر کرنا چاہتے ہيں۔ امّ ايمن، يہ ديہاتی بڑھيا کہ جسے تم جانتے ہو کيا تم نے امّ ايمن کو ديکھا ہے؟ بتحقيق ميں گواہی ديتا ہوں کہ وہ اہل بہشت ميں سے ہے حالانکہ وہ يہ سب کچھ نہيں جانتی تھی جس پر تم ايمان رکھتے ہو ۔اب آئمہ (ع)کی طرف سے پيش کردہ رحمتِ الہی کی يہ منطق کجا اور يہ سخت گير اور قانون شکن ٹی وی چينل خواہ سنی کے ہوں يا شيعہ کے؛ يہ کجا؟ کہ جو نہ صرف تمام مسلمانوں کو جہنّمی قرار ديتے ہيں ،بلکہ حتّی شيعہ علما اور شخصيّات جو ان سے اتفاق نہيں کرتيں ان کو بھی جہنّم کا امام قرار ديتے ہيں ۔اب کچھ شيعہ چينلوں پر ايک نظر ڈاليں اور افسوس کی بات يہ ہے کہ ان ميں سے بعض ايسے علما سے منسوب ہيں جو اپنے ليے طرح طرح کے دعوے کرتے ہيں صرف اس بات پر کہ بزرگ علما کو ان سے اختلاف ہے۔ وہ حضرت امام خمینی(رہ) کو آگ کی طرف لے جانے والا امام قرار ديتے ہيں!! کيوں؟ کيونکہ وہ ان سے اختلاف رکھتے ہيں، جو کچھ وہ کہتے ہيں،وہ(امام خمينی(رہ))اس کو نہيں مانتے ۔(ان کے نزديک) حضرت امام (رہ) جہنّمی ہيں!!!، سيد محمد باقر صدر جہنّمی ہيں!!!
ان کی ويب سائيٹوں کو ديکھيں حضرت امام(رہ)، آيت اللہ بہجت(رہ)، علامہ طباطبائی(رہ)، (ان کے نزديک) سب کے سب (دوزخی ہيں)۔کيونکہ وہ ان جاہلوں کے ساتھ اتفاق نہيں کرتے جن کے بارے ميں معلوم نہيں ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہيں اور انہيں کہاں سے امداد مل رہی ہے! يہ ہيں امام(ع) فرماتے ہیں :” وہ ان سب چيزوں کو نہيں جانتی تھی کہ جن پر تم ايمان رکھتے ہو”۔ شيخ انصاری کے استدلال پر غور کريں ، کہتے ہيں:امام (ع) کے اس کلام "کہ تم کسی چيز سے جاہل نہيں ہو” ميں يہ واضح دلالت ہے کہ اصلِ دين ميں زائد امور کا اعتبار نہيں ہے۔ يعنی ہر حال ميں ان دو اصلوں (شہادتين) کا ہونا ضروری ہے (جبکہ زائد امور ميں مستضعفين کو چھوٹ مل سکتی ہے)۔