مقالات و آراء

  • قرآن کریم میں امامت کی شرائط اور خصوصیات(۲)

  • پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ مسئلہ امامت کی اصل اور بنیاد قرآن کریم میں موجود ہے اور متعدد آیات اس دعوے کی شاہد ہیں۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایک اہم موضوع موجود ہو لیکن قرآن نے اس کی حقیقت اور اصل کو بیان نہ کیا ہو؛ کیونکہ قرآن کریم «تبیاناً لکلّ شیء» (ہر چیز کا بڑا واضح بیان) (نحل/ ۸۹) ہے ۔
    قرآنی امامت کی حقیقت کے بارے میں اہم اور بنیادی آیات میں سے دوسری آیت سورہ مبارکہ یونس کی آیت نمبر ۳۵ ہے : «أَ فَمَنْ یھْدی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ یُتَّبَعَ أَمَّنْ لا یَھدِّی إِلاَّ أَنْ یُھدى‏ فَما لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُون‏» (تو کیا جو کوئی حق کی طرف ہدایت کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے یا وہ جو خود ہی راستہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راستہ دکھایا ، سو تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسے فیصلے کرتے ہو)۔
    اس آیت شریفہ میں ، ہدایت کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے : ہدایت "بنفسہ” اور ہدایت "بغیرہ”۔ ہدایت "بنفسہ” اس معنی میں ہے کہ ہدایت کرنے والے شخص نے کسی انسان سے ہدایت نہیں لی بلکہ اس نے براہ راست خدا سے ہدایت حاصل کی ہے لیکن ہدایت "بغیرہ” ان افراد کے ساتھ مخصوص ہے جو خود دوسرے انسانوں کے محتاج ہوتے ہیں اور جب تک ابتدا میں اپنے جیسے افراد سے ہدایت حاصل نہیں کر لیتے، دوسروں کی ہدایت نہیں کر سکتے ۔
    بطور مثال انبیاء اور آئمہ معصومین (ع) کی ہدایت، ہدایت "بنفسہ” ہے؛ یعنی اللہ جو "ہادی بالذات” ہے؛ کے سوا وہ ہدایت کیلئے کسی دوسرے شخص یا واسطے کے محتاج نہیں ہیں۔
    اسی طرح "ہادیان بغیرہ” کے مصداق کے طور پر علمائے دین کی مثال دی جا سکتی ہے جو پہلے پہل کسی چیز کو نہیں جانتے تھے، پھر معلمین اور اساتذہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ نہ کچھ علوم و معارف کی تعلیم حاصل کر لی یہاں تک کہ آخر کار وہ خود دوسروں کی ہدایت کے مقام پر فائز ہو گئے ۔
    اب مذکورہ بالا وضاحت کے پیش نظر، قرآن کریم فرماتا ہے کہ امام وہ ہے جو اولا دوسروں کی ہدایت کے امتیاز سے برخوردار ہو–جیسا کہ گذشتہ مطلب میں اشارہ کیا گیا ہے– اور ثانیاً ہدایت فراہم کرنے کی یہ صفت ضروری ہے کہ "بنفسہ” ہو؛ یعنی دوسروں کی ہدایت کے لیے درس ، بحث ، مکتب اور مدرسے کا محتاج نہ ہو بلکہ ضروری ہے کہ اس نے اپنی ضرورت کے علوم اور معارف، اللہ تعالٰی سے اخذ کیے ہوں ۔
    اگر کوئی شخص پہلے جاہل ہو اور پھر عرصہ دراز تک غیر معصوم انسانوں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کر کے صحیح تعلیم حاصل کر لے اور دوسروں کی ہدایت میں کامیاب ہو جائے؛ وہ شخص اس طرح کے بلند مقام پر فائز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا؛ کیونکہ قرآن کی تصریح کے مطابق اس شخص کی پیروی شائستہ ہے جو دوسروں کی مدد کے بغیر خود بخود حق کی دعوت دیتا ہے : «أَ فَمَنْ یھْدی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ یُتَّبَعَ »(تو کیا جو کوئی حق کی طرف ہدایت کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے) اور اس کی اطاعت شائستہ نہیں ہے جو اپنے جیسے افرد کی ہدایت کے بغیر، نابینا ہے : «أَمَّنْ لا یَھدِّی إِلاَّ أَنْ یُھدى‏» (یا وہ جو خود ہی راستہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راستہ دکھایا جائے)؟!
    اگر مباحثِ امامت کی اساس اور بنیاد کو قرآنی آیات پر قائم کیا جائے تو جو خصوصیات بطور نتیجہ ان قرآنی مطالعات سے سامنے آتی ہیں؛ اس الٰہی اور عظیم ذمہ داری کیلئے صرف اہل بیت (ع) کی اہلیت کی توثیق کرتی ہیں اور ان سے اہل سنت کے مدنظر تین خلفا کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوتی کیونکہ ان عظیم قرآنی اوصاف میں سے کوئی ایک وصف بھی ان پر منطبق نہیں ہوتا!

    • تاریخ : 2017/04/03
    • صارفین کی تعداد : 1101

  • خصوصی ویڈیوز