کتاب "إتحاف الخیرۃ المھرۃ بزوائد المسانيد العشرۃ” ،مؤلف ” أحمد بن أبي بكر بن إسماعيل البوصيري” جلد ۷ ، صفحہ نمبر ۲۳۸ پر ام سلمہ سے روايت ہے، کہتی ہيں :” كَانَ النَّبِيُّ – صَلَّی اللَّہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ – نَائِمًا فِي بَيْتِي فَجَاءَ الْحُسَيْنُ يَدْرُجُ "پيغمبر گھر ميں سو رہے تھے؛ اتنے ميں حسين(ع) آ گئے ۔ آپ (ع) کی عمر مبارک اس وقت پانچ سال سے زيادہ نہيں تھی کہتی ہيں: ” فَقَعَدْتُ عَلَی الْبَابِ فَأَمْسَكْتُہ مَخَافَۃ أَنْ يَدْخُلَ فَيُوقِظَہ "ميں بھی دروازے پر بيٹھ گئی اور انہيں اس خوف سے روک ليا کہ مبادا وہ اندر جا کر رسالت مآب کو بيدار نہ کر ديں ۔ پھر کہتی ہيں: ” ثُمَّ غَفَلْتُ فِي شَيْءٍ فَدَّبَ فَدَخَلَ فَقَعَدَ عَلَی بَطْنِہ ” ميرا دھيان کسی اور طرف گيا ہی تھا کہ حسين(ع) گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے حجرہ مبارک کے اندر داخل ہو گئے اور آپ (ص) کے شکمِ مبارک پر بيٹھ گئے ۔ امام حسين (ع) خاتم الانبياء و الرّسل کے شکم پر جا بيٹھے ۔
اس جملہ پر دقت کريں کہ آپ(ص) کی آنکھوں ميں صرف آنسو ہی نہيں تھے بلکہ فرماتی ہيں : "فَسَمِعْتُ نَحِيبَ رَسُولِ اللَّہ صَلَّی اللَّہ عَلَيْہ وَسَلَّمَ " ميں نے رسول اللہ (ص) کے بلند بلند گريے کی آواز سنی ۔ آپ (ص) دھاڑيں مار کر رو رہے تھے ۔ ميں کچھ نہيں جانتا؛ آپ خود ہی فيصلہ کريں… رسول اللہ امام حسين (ع) پر دھاڑيں مار کر رو رہے ہيں۔ ايسا نہيں ہے کہ ان کی آنکھوں سے صرف اشک جاری ہوں؛ نہيں! بلکہ اونچی آواز سے گريہ کر رہے تھے۔ اس کے باوجود آپ لوگ اعتراض کرتے ہيں کہ يہ رونا اور چيخنا چلانا کہاں سے لے آئے ہو؟! تم اس بدعت کو کہاں سے لے آئے ہو؟! يہ اسی صورت ميں ہو سکتا ہے کہ جب پہلے بدعتی (نعوذ باللہ) خود رسول خدا(ص) ہوں!! کہتی ہيں: ” فَسَمِعْتُ نَحِيبَ رَسُولِ اللَّہ – صَلَّی اللَّہ عَلَيْہ وَ سَلَّمَ – فَجِئْتُ فَقُلْتُ "ميں نے رسول کريم (ص) کے پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آواز سنی تو اندر آ کر عرض کيا: ” يَا رَسُولَ اللَّہ ما علمت بہ " يا رسول اللہ (ص)! مجھے معلوم نہيں ہو سکا (کہ ماجرا کيا ہے) رسول خدا(ص) نے فرمايا : ” إِنَّمَا جَاءَنِي جِبْرِيلُ- عَلَيْہ السَّلَامُ- وَھوَ عَلَی بَطْنِي قَاعِدٌ " ابھی جبرئيل ميرے پاس آئے تھے اور اس وقت حسين (ع) ميرے شکم پر بيٹھے تھے ۔ ميں نہيں جانتا کہ جہاں بھی رسول خدا اور حسين (ع) خلوت ميں ہوتے تھے وہاں پر جبرئيل کيوں آن پہنچتے تھے اور آپ (ص) کے سامنے مصيبت امام حسين (ع) کا تذکرہ کرتے تھے اس ميں کيا راز ہے ؟ واقعا عظيم راز ہے؛ قيام امام حسين (ع) عظيم الٰہی راز ہے۔
تو جبرئيل نے مجھ سے سوال کرتے ہوئے کہا : ” أَتُحِبُّہ؟” آيا آپ (ص) اس سے محبت کرتے ہيں؟ تو ميں نے کہا: ” نَعَمْ " ہاں ، جبرئيل نے کہا : "إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُہ” آپ(ص) کی امت انہيں قتل کرے گی کون سی امت؟ امت اسلاميہ ! پھر کہتے ہیں : ” أَلَا أُرِيكَ الْتُرْبَۃ الَّتِي يُقْتَلُ بِھا؟”کيا آپ کو وہ خاک دکھاؤں جس پر حسين(ع) شہيد ہوں گے؟ نہيں معلوم کہ اس خاک ميں ايسا کيا راز پوشيدہ ہے؟ پھر يہ کہ امام حسين (ع) نے شہيد ہونا تھا تو ان کی خاک کو اتنی اہميت کيوں؟ اس کا معنی يہ ہے کہ تربتِ امام حسين (ع) ميں سرّ نہيں بلکہ اسرار پوشيدہ ہيں جن کو خدا کے سوا کوئی نہيں جانتا ۔ يہ آپ کی اور تمام مسلمانوں کی روايات ہيں!! يہ کسی ايک يا دو گروہوں کی ميراث نہيں ہے کہ جس سے آپ راہ فرار اختيار کريں ۔
آپ (ص) فرماتے ہیں کہ میں نے کہا : ہاں! ” فضرب بجناحہ فأتاني ھذہ التربۃ ” پس جبرئيل نے پر مارا اور ميرے ليے وہ تربت لے آيا۔ ام سلمہ کہتی ہيں : ” فإذا فِي يَدِہ تُرْبَۃٌ حَمْرَاءُ وَھُوَ يَبْكِي " آپ(ص) کے ہاتھ ميں سرخ مٹی تھی اور آپ(ص) گریہ فرما رہے تھے۔ پس عزيزو! يوم حسين (ع) اللہ کے عظيم دنوں ميں سے ہے جيسا کہ روايات ميں آيا ہے؛ يوم عاشورا جس روز ہمارے عزيز بے يار و مددگار ہوئے ۔ اور تاريخ نے کسی ايسے کا ذکر نہيں کيا جس پر پيغمبروں نے يا سيد الانبياء و الرّسل نے اس کے قتل سے پہلے اس پر گريہ کيا ہو سوائے امام حسين (ع) کے اگر رسول خدا(ص) اس دن ميدان کربلا ميں ہوتے تو کيا کرتے ؟ اور متعدد روايات بھی موجود ہيں کہ عاشورا کے دن پيغمبر(ص) کے ہاتھ ميں ايک برتن تھا جس کے ذريعے آپ (ص) امام حسين (ع) اور ان کے اصحاب کا خون جمع کرتے رہے۔