مقالات و آراء

  • صبر اور یقین ؛ منصب امامت پر فائز ہونے کی دو بنیادی شرطیں

  • پہلی خصوصیت : یقین
    قرآنی امامت ، امامت کے عرفی اور سیاسی معنی سے جدا ہے ۔ امام قرآن کی لغت میں خاص صفات اور شرائط کا حامل ہوتا ہے کہ جن میں سے ایک بھی عرفی امامت میں نہیں پائی جاتی ۔ قرآن کریم اس شخص کو امام قرار دیتا ہے جو دو اہم صفات رکھتا ہو : ایک صبر اور دوسری یقین۔
    قرآن کریم نے امام کے لیے "یقین” کی صفت کو شرط قرار دیا ہے :« وَ جَعَلْنا مِنْھُمْ أَئِمَّۃً یَھدُونَ بِأَمْرِنا لَمَّا صَبَرُوا وَ کانُوا بِآیاتِنا یُوقِنُونَ » سجده/ ۲۴[اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے]۔
    یعنی صرف وہ شخص امامت کے بلند پایہ مقام پر فائز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اہل یقین ہو۔ یقین سے مراد بھی قرآنی اصطلاح میں یقین ہے نہ کہ عرفی یا منطقی معنوں میں یقین ۔ قرآنی معنی میں یقین ؛ یعنی انسان کے لیے ملکوت عالم کا کشف ہونا «وَ کَذلِکَ نُری إِبْراھیمَ مَلَکُوتَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ لِیَکُونَ مِنَ الْمُوقِنین‏»؛ انعام/ ۷۵[اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا نظام حکومت دکھاتے تھے تاکہ وہ اہل یقین میں سے ہو جائیں]۔
    قرآنی منطق کی بنا پر امام وہ ہے جو روئے زمین پر خداوند کے اسم ” ہادی ” کا مظہر ہو اور جس کے لیے آسمان و زمین کے ملکوت ، حضوری اور شہودی علم کی صورت میں کشف و عیاں ہوں ۔
    دوسری خصوصیت : صبر
    دوسری خصوصیت جسے قرآن نے امام کے لیے شمار کیا ہے ؛ صبر ہے یعنی صرف وہ شخص امام ہو سکتا ہے جو صبر کی خصوصیت سے بہرہ مند ہو ، وہ بھی بلند ترین مرتبے کا صبر ، جیسا کہ خود قرآن فرماتا ہے : « وَ جَعَلْنا مِنْھُمْ أَئِمَّۃً یَھدُونَ بِأَمْرِنا لَمَّا صَبَرُوا …»؛ سجده/ ۲۴۔[اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے]۔
    امامت مشروط ہے اور اس کیلئے صلاحیت اور لیاقت کی ضرورت ہے اور سوائے اس شخص کو جو آزمائش سے گزرے اور صبر کرے، نہیں دی جاتی ہے ؛ یعنی جب تک وہ صبر کے بالا ترین مراتب سے متصف نہیں ہوتا تب تک اسے اس قسم کی نعمت سے نہیں نوازا جاتا اور تب تک وہ اس طرح کے وجودی اور تکوینی مقام تک نہیں پہنچتا اور نہ ہی وہ نظام ہستی میں اس قسم کے کام اور ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے ۔
    اسی وجہ سے ، قرآن کریم حضرت آدم(ع) کے بارے میں فرماتا ہے : «وَ لَقَدْ عَهِدْنا إِلى‏ آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما» طہ/ ۱۱۵[اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا]۔
    یعنی ان پر الٰہی امتحان آیا لیکن قرآن کی تعبیر کے مطابق انہوں نے صبر نہیں کیا اور اسی طرح دیگر پیغمبروں کے بارے میں ہے ۔
    واضح ہے کہ یہ صبر نہ کرنا، گناہ کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس معنی میں ہے کہ اس شخصیت کونعمتِ امامت سے بہرہ مند ہونے کے لیے عالم وجود کے مراتب میں سے کسی خاص مرتبہ تک پہنچنا چاہئیے تھالیکن وہ نہیں پہنچ سکی؛ یہ وہ گناہ نہیں ہے جو شریعت میں معروف ہے اور اس کا مطلب خدا کے احکام کی مخالفت نہیں ہے ۔
    اس بنا پر قرآنی نگاہ میں ہر شخص مقام امامت کی شائستگی نہیں رکھتا بلکہ قرآنی معنی میں صرف وہ شخص امام اور لوگوں کا پیشوا بن سکتا ہے جو قرآن کی تصریح کے مطابق کم از کم ان دوخصوصیات ؛ صبر اور یقین کا حامل ہو ۔

    • تاریخ : 2017/04/19
    • صارفین کی تعداد : 1290

  • خصوصی ویڈیوز