مقالات و آراء

  • ’’امامت‘‘ ؛ نبوت سے بلند مقام ہے

  • جو کچھ قرآن سے ملتا ہے اس کے مطابق امامت نبوت سے جدا اور اس سے بلند ایک مقام ہے ۔ اس مطلب  کو  درج ذیل آیات سے اخذ کیا جاسکتا ہے ۔

    پہلی آیت : «وَ إِذِ اِبْتَلی إِبْراھیمَ رَبُّہ بِکَلِماتٍ فَأَتَمَّھُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُکَ لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِی قالَ لا یَنالُ عَھدِی اَلظّالِمِینَ»( اور جب ابراہیم کو اس کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا تو اس نے وہ پوری کر دکھائیں فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں عرض کی اور میری اولاد سے فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا-)؛ بقره/ ۱۲۴

    مذکورہ بالا آیت کی بنیاد پر جس وقت حضرت ابراہیم (ع) اچھی طرح الٰہی امتحانات اور آزمائشوں سے عہدہ برا ہو گئے تو اللہ نے انہیں مقام امامت پر فائز کر دیا ۔

    اب سب سے پہلے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ امتحانات اور ان میں سے اہم  ترین چیز کون سی تھی ؟ اور دوسرا یہ کہ آیا ان کا تعلق حضرت ابرہیم(ع) کی نبوت سے پہلے کے زمانے کے ساتھ تھا یا نبوت کے بعد والے زمانے کے ساتھ ؟

    چنانچہ یہ امتحانات حضرت ابراہیم(ع) کی نبوت سے پہلے کے زمانے اور آپ(ع) کی جوانی کے دور سے متعلق تھے- بعض افراد کے نزدیک- اس بات کا قائل ہونا ممکن ہے کہ امامت وہی نبوت تھی نہ کہ اس سے ہٹ کر کوئی امر، لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ امتحانات حضرت ابراہیم (ع) کی نبوت کے زمانے میں رونما ہوئے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ امامت نبوت سے جدا ایک مقام ہے کیونکہ حضرت ابراہیم (ع) پہلے سے مقام نبوت رکھتے تھے اور اگر امامت بھی وہی نبوت ہو تو یہ عطا باطل اور تحصیل حاصل ہوگی!۔

    اب سورہ صافات کی آیت نمبر ۱۰۲ کے بعد والی آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے  یہ  مشخص  ہو جاتا ہے کہ یہ آزمائشیں اور امتحانات خاص کر ان کا اہم ترین اور نمایاں ترین مصداق ، حضرت ابراہیم(ع) کی بڑھاپے کی عمر میں (کہ جب آپ یقینی طور پر نبی تھے) رونما ہوا تھا  «فَلَمّا بَلَغَ مَعَہ اَلسَّعْیَ قالَ یا بُنَیّ إِنِّی أَری فِی اَلْمَنامِ أَنِّی أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ ما ذا تَری قالَ یا أَبَتِ اِفْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شاءَ اَللّہُ مِنَ اَلصّابِرِینَ * فَلَمّٰا أَسْلَمٰا وَ تَلَّہُ لِلْجَبِینِ * وَ نٰادَیْنٰاہُ أَنْ یٰا إِبْرٰاھیمُ * قَدْ صَدَّقْتَ اَلرُّؤْیٰا إِنّٰا کَذٰلِکَ نَجْزِی اَلْمُحْسِنِینَ * إِنَّ ھذٰا لَھوَ اَلْبَلاٰءُ اَلْمُبِینُ»( پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے (102) پس جب دونوں (باپ بیٹے) نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ (103) تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم(ع)! (104) تم نے (اپنے) خواب کو سچ کر دکھایا بے شک ہم نیکوکاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں۔ (105) بے شک یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی۔)؛ صافات/ ۱۰۲ – ۱۰۶

    مذکورہ بالا آیات میں حضرت ابراہیم (ع) کی ایک آزمائش(جس کی وجہ سے آپ(ع) مقام امامت پر فائز ہوئے) کا مصداق یہی حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کا واقعہ ہے اور اس کو "بلائے مبین ” کا نام دیا گیا ہے۔

    ان آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ حضرت اسماعیل (ع) کو ذبح کرنے کا امتحان حضرت ابراہیم(ع) کے بڑھاپے کے دور سے مربوط ہے  ، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم ان آزمائشوں کے  زمانے میں نبی تھے ۔ لہٰذا یہ امامت کہ جو خدا کی جانب سے انہیں عطا کی گئی نبوت سے جدا ایک مقام ہے ۔

    اسی طرح اس بات کا لازمہ کہ مقام امامت مقام نبوت سے جدا ہے  ، یہ ہے کہ امامت نبوت سے برتر ہے ؛ کیونکہ اب یہ  چیز بے معنی ہے کہ خداوند متعال حضرت ابراہیم (ع) کو ان سخت ترین امتحانات سے آزمائے جانے  اور ان میں کامیابی کے بعد نبوت سے کمتر یا اس کے مساوی کوئی مقام عطا کرے ، پس مقام  امامت نبوت سے بلند اور برتر مقام ہے ۔

    البتہ شیعہ نقطہ نظر سے  ، آئمہ (ع) کا مقام نبی اکرم(ص) کے مقام سے نیچے ہے ؛ اور ضمنا یہ کہ خود رسول اللہ(ص) کے پاس مقام امامت تھا اور آپ(ص) کی امامت کا مقام ہر شخص کی امامت سے بالاتر ہے اور بنیادی طور پر اہل بیت (ع) نے اپنی امامت کو رسول اکرم(ص) سے وراثت میں حاصل کیا ہے ۔

     

    • تاریخ : 2017/05/06
    • صارفین کی تعداد : 1750

  • خصوصی ویڈیوز