مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں [سلسلہ وار مباحث(2)]

  • 📋دوسرا مرحلہ

    علامہ حیدری: آپ (ع) کی شخصیت کے واضح ہو جانے کے بعد، جب آپ(ع) نے بیعت نہیں کی یعنی اسلام کے ایک رکن نے حکومت کی بیعت نہیں کی۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور ہم اس پر گفتگو کریں گے۔ رسول اللہ (ص) کے بعد آپ (ع) کا بیعت نہ کرنا؛ کیا عدم مشروعیت کی وجہ سے تھا یا مشروعیت کی وجہ سے تھا؟ ان میں سے کون سی بات درست ہے؟ اگر آپ نے کہا کہ انہوں نے بیعت اس لیے نہیں کی کیونکہ وہ رسول اللہ(ص) کے بعد قائم ہونے والی خلافت کی عدم مشروعیت کی قائل تھیں، تو بہت خوب، یہی اساسی نقطہ ہے۔ آپ (ص) وہ ہیں جنہیں مصطفی (ص) نے جنت کی خواتین کا سردار بتایا ہے، اور انہیں عالمین کی عورتوں کی سردار کہا ہے، اور یہ کہ اللہ ان کی رضامندی سے راضی ہوتا ہے اور ان کے غضبناک ہونے سے غضب کرتا ہے اور یہ کہ وہ آںحضور (ص) کا ٹکڑا ہیں، اور یہ کہ، اور یہ کہ۔۔۔الخ۔

    آپ(ع) وہی ہیں جنہوں نے رسول اللہ (ص) کے بعد کی حکومت کی مشروعیت پر سب سے پہلے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا، واقعا اس سوال کا جواب دینا اہل تحقیق اور اہل معرفت پر لازم ہے، ان لوگوں پر جو حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں، اور اگر آپ نے یہ کہا کہ حکومت مشروع تھی لیکن فاطمہ (ع) نے کوتاہی کی اور بیعت نہیں کی، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئیں کہ ان کی گردن پر امام حق کی بیعت نہ تھی، تو پھر یہ لازم آئے گا کہ (نعوذ باللہ) آپ(ع) کی موت جاہلیت پر ہوئی!!! ضروری ہے کہ آپ ان دو میں سے کسی ایک کو تسلیم کریں، واقعا اس سوال کو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بنا دیں ، تاریخ کے ماتھے پر یہ سوالیہ نشان ہے؛ میں نے آپ سے عرض کیا کہ ہم اسے علی (ع) کی ذات میں بھی نہیں پا سکتے، کیوں! جب آپ کہیں گے کہ انہوں نے بیعت نہیں کی تو وہ کہیں گے: نہج البلاغہ میں ہے کہ انہوں نے بیعت کی، آپ نے یہ کہا اور وہ کہا، اور دیگر آئمہ (ع) نے بیعت کی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس بات کا کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ زہرا (ع) نے پہلے خلیفہ کی بیعت کی۔

    لہٰذا میرے عزیزو! اس مرکزی نقطے کی طرف متوجہ رہیں، اور اس پر ہم رک کر اچھی طرح بحث کریں گے، واضح و صریح طور پر کہ آیا آپ (ع) نے بیعت کی یا نہیں کی؟ اور آپ (ع) کے بیعت نہ کرنے کا سبب کیا تھا، آپ (ص) نے اس کی طرف اشارہ کیا یا نہیں؟

    📋تیسرا مرحلہ:

    جب آپ (ع) نے امتحان لینا چاہا، یہ قضیہ بہت حساس ہے، اور ابھی تک فدک کا مسئلہ اس زاویے سے پیش نہیں کیا گیا، بعض کی کوشش ہے کہ اسے وراثت سے مربوط معاملے کے عنوان سے اور قضاوت سے مربوط ایک مسئلے کے عنوان سے پیش کریں لیکن میرے نزدیک زہرا (ع) نے فدک کا مسئلہ مال اور ترکہ سے مربوط قضیے کے عنوان سے پیش نہیں کیا، بلکہ وہ تو ان لوگوں کی رسول اللہ (ص) سے وفا کا امتحان لینا چاہتی تھیں! کیا وہ اس عہد پر قائم ہیں جو رسول اللہ (ص) نے ان سے لیا تھا؟ وہ آپ (ص) کی بیٹی سے کیسا سلوک کرتے ہیں؟ کیا وہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں یا کوئی اور؟ یعنی کیا حکومت زہرا بتول(ع) کو وہی حرمت و احترام دیتی ہے یا وہ ان کے بال وپر کاٹنے کی کوشش کرتی ہے! اگر یہ سیاسی اصطلاح استعمال کرنا درست ہو۔

    مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس زاویے سے فدک کا قضیہ پیش کرنا چاہئیے وہ ارث و مال کا قضیہ نہیں ہے اور نہ ہی قضائی مسئلہ ہے کہ اس پر گواہ موجود ہیں یا نہیں؟! اور اس امر کی طرف خلیفہ اوّل پوری طرح سے متوجہ تھے، وہ اسے بخوبی جانتے تھے۔ یہ مسئلہ کس نوعیت کا تھا؟

    میزبان: یہ مسئلہ سیاسی تھا۔

    علامہ حیدری : جی ہاں! یہ ایک دوسرا قضیہ تھا جس کے اپنے ابعاد تھے، آپ کہیں گے: کیسے!، عزیزو! انتظار کیجئے اور ہم اس پر بات کریں گے۔

    میزبان: مالی وسائل کو ہتھیانا مقصود تھا؛

    علامہ حیدری: یہ ایک ہے، میرے تصور میں یہ قضیہ اس سے آگے کا ہے۔

    اگر کوئی یہ کہے: جناب سید! ایک جملے میں بیان کریں تو میں ایک جملہ کہہ رہا ہوں؛

    جب سارے مخالفین یہ دیکھیں گے کہ بنتِ رسول(ص) اور بضعۃِ رسول(ص) مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ان کی بات قبول نہیں کی جا رہی، تو دوسرے مخالفین یہ کہیں گے کہ اگر بنت مصطفی(ص) کچھ نہیں کر سکیں تو کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟

    میزبان: دروازہ بند کر دیا گیا

    علامہ حیدری: بہت خوب! دروازہ ہی بند کر دیا گیا ؛عربی محاورہے: اكلت يوم اكل الثور الأبيض(یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب ایک ایک کر کے نشانہ بنایا جاتا ہے)۔

    یعنی ہم سیدۃ نساء العالمین(ع) کی جدوجہد اور بیعت نہ کرنے کا مقابلہ کریں گے اور ہم ان کے بالِ پرواز کاٹ دیں گے، اور اس موقع پر ان کی بات کو قبول نہیں کریں گے، دوسروں کو یہ کہیں گے کہ ہم نے بنتِ مصطفی(ص) کی بات نہیں مانی تو تم کیا چیز ہو، تم کون ہو، تمہاری حیثیت ہی کیا ہے اور جناب! یہ مسئلہ اساسی ہے، اس کی متعدد تشریحیں ہیں؛ اس کی نفسیاتی تشریحیں ہیں؛ اس کی سیاسی تشریحیں ہیں۔

    میزبان: اور یہ اس قوم کے نزدیک صحابہ کی حیثیت تھی

    علامہ حیدری: بہت خوب! ضروری کہ ان امور کا مطالعہ کیا جائے ۔ میں یہاں بین قوسین اس امر پر زور دوں گا: یقین کیجئے کہ میں کسی کی توہین یا کسی کے مقدّسات کی توہین کے درپے نہیں ہوں، ہم صرف صدرِ اسلام کے سوانح کو بیان کر رہے ہیں تاکہ ہم اس دورانیے کا درست انداز سے جائزہ لے سکیں، اس کا تحقیقی جائزہ لیں؛ اس کا تدبر سے جائزہ لیں؛ اس کا تحلیلی جائزہ لیں؛ نہ یہ کہ ہم ان کا تاریخی واقعات کے ایسے مجموعے کے عنوان سے جائزہ لیں جو ایک دوسرے سے جدا ہوں اور جن کے مابین کوئی ربط نہ ہو۔

    میزبان: ہم اسی طرف مائل ہوں گے جس طرف دلیل کا جھکاؤ ہو گا۔

    📋چوتھا مرحلہ

    علامہ حیدری: بہت خوب! چوتھا مرحلہ جو صدرِ اسلام کے دردناک مراحل میں سے ہے کہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کو چند مہینے ہی گزرے تھے، یہ مسئلہ اس گروہ کے ساتھ نمٹنے کا ہے جو سقیفہ کی حکومت کا مخالف تھا، یہ گروہ کہ کہا جاتا ہے، یہ علی (ع) کے گھر میں جمع تھے یا جمع نہیں تھے، میں اس وقت ان سب باتوں کے درپے نہیں ہوں۔ یہ دعویٰ کہ بعض صحابہ یا عشرہ مبشرہ میں سے بڑے بڑے اہل حل و عقد نے اس گھر یا اس دروازے کو جلانے کی کوشش کی یا کم از کم اس گھر کو جلانے کی دھمکی دی یا کم از کم اس گھر پر دھاوا بولا گیا اور چند مرتبہ اس کی تلاشی لی گئی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ مخالفینِ حکومت کا ایک مرکز ہے۔اس واقعے کی احادیث میں اور معتبر کتب میں کوئی ٹھوس بنیاد ہے یا واقعا اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے، ضروری ہے کہ اس کا ہر پہلو واضح ہو، میں تفصیلات میں وارد نہیں ہونا چاہتا، اس لیے آپ نے ملاحظہ کیا کہ میں کہہ رہا ہوں: جلانا یا جلانے کی دھمکی دینا یا تلاشی لینا؛ گھر پر دھاوا بولا گیا؛

    گھر پر دھاوا بولنے کا سیاسی اصطلاح میں کیا مطلب ہے؟ یعنی طاقت کے زور پر دراندازی کرنا تاکہ چاردیواری کے اندر کا حال معلوم کیا جا سکے۔

    میزبان: وہی جو آج بحرین وغیرہ میں ہو رہا ہے۔

    علامہ حیدری: بہت خوب! بہت خوب! یہ چوتھا مرحلہ ہے اور اس میں حساس سیاسی ابعاد کے علاوہ نفسیاتی، دینی، اور اخلاقی پہلو ہیں اور سیاسی ابعاد سے ہٹ کر کچھ دوسرے پہلو ہیں، آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی ہر حکومت حتی وہ دنیاوی ہی کیوں نہ ہو؛ اس کے سامنے کچھ سرخ خطوط ہوتے ہیں، یعنی آج کسی صدر کے گھر کی بے حرمتی نہیں کی جاتی، بالفرض امریکہ کو ہی دیکھ لیں حتی اس کی موت کے بعد بھی ایسا نہیں کیا جاتا اور انہیں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا؛حال ہی میں آپ نے مصر کی انقلابی تحریک میں مشاہدہ کیا ہے؛ جناب! سن باون سے جو رہنما مصری تحریک کا حصہ تھے؛ ان کیلئے استثنیٰ ہے، میں اس استثنیٰ پر بات نہیں کرنا چاہتا؛ تاہم کہوں گا کہ ان کیلئے ایک احترام ہے، ان کی حرمت محفوظ ہے۔

    • تاریخ : 2017/05/23
    • صارفین کی تعداد : 958

  • خصوصی ویڈیوز