مقالات و آراء

  • حضرت فاطمہ زہرا(ع) کا مقام اور مظلومیت مصادرِ اہل سنت کی روشنی میں [سلسلہ وار مباحث(4)]

  • علامہ سبکی کے یہاں ایک بحث ہے؛ کہ ہم جب کسی شخص کے بارے میں جاننا چاہیں کہ وہ شیعہ ہے یا غیر شیعہ؛ تو اس کی پہچان کا کیا طریقہ ہے؛ وہ کہاں پر یہ بحث پیش کرتے ہیں؟ کتاب "طبقات الشافعية” میں؛ جب وہ حاکم نیشاپوری کی طرف آتے ہیں کہ ان کا ترجمہ کریں؛ کہتے ہیں: ان پر تشیع کی تہمت ہے؛ ایک قاعدہ کلیہ ذکر کرتے ہیں۔ میرے عزیزو! یہ مباحث واقعا مفید ہیں اور ضروری ہے کہ عزیزوں کی دسترس میں ہوں؛

    وہ قاعدہ کلیہ کیا ہے؟ اس قاعدے کی طرف کتاب "فضائل فاطمہ زہرا” کے محقق نے اشارہ کیا ہے؛ جس کا نام ہے "علی رضا بن عبد اللہ بن علی رضا”؛ انہوں نے اس کی طرف صفحہ نمبر 11 پر اشارہ کیا ہے؛ اس کتاب کے مقدمے میں کہتے ہیں: سبکی نے اپنی تصنیف "طبقات” میں "ذكر البحث عما رمي به الحاكم من التشيع۔۔۔” کے ذیل میں کہا ہے: ہم کس طرح تشخیص دیں کہ یہ (حاکم) شیعہ ہے؛ ہمیں ایک ضابطے کی ضرورت ہے؛ ایک پیمانہ چاہئیے؛ اے منصِف! سب سے پہلے تجھے یہ چاہئیے؛ جب تو کسی شخص کے بارے میں طعن سنے تو اس کے دوستوں اور جن سے اس نے اخذ کیا ہے؛ کے بارے میں تحقیق کرے کہ ان کی کس مذہب سے نسبت ہے؟ اس کے دوستوں کو دیکھ؛ اس کے اساتذہ کو دیکھ؛ اس کے شاگردوں کو دیکھ؛ اس کے ساتھیوں کو دیکھ – ہر ساتھی اپنے ساتھی کی پیروی کرتا ہے – اور اس کی جائے تربیت اور اس کے طریقہ کار کو دیکھے کہ کس ثقافت اور کس شہر میں پروان چڑھا ہے ۔ پھر تو اس کے ہم شہریوں اور قریبیوں میں سے ان لوگوں کے کلام کو دیکھ جو اس کے ہم عصر ہوں اور اسے پہچانتے ہوں؛ اس کو جاننے والے لوگوں میں سے جنہوں نے اس کے سوانح حیات پیش کیے ہوں ، ان میں سے دوست اور دشمن کی تحقیق کر لینے کے بعد کہ وہ دو طرفوں میں سے کسی ایک کی طرف جھکاؤ نہ رکھتے ہوں یعنی محب بھی نہ ہو کیونکہ اس صورت میں وہ چھپائے گا اورنہ دشمن ہو کیونکہ وہ کچھ نہیں دیکھے گا؛ وہ صرف اور صرف منصف مزاج ہوں اور یہ امر ایک شہر میں اکٹھے رہنے والے معاصرین میں کم ہوتا ہے۔

    علی رضا بن عبد اللہ بن علی رضا کہتے ہیں: اس جلیل القدر امام پر تشیع کی تہمت لگا دی گئی؛ اور کہا گیا ہے۔۔۔؛

    اب وہ آ کر ان ضوابط کی تطبیق کر رہے ہیں جنہیں سبکی نے ذکر کیا ہے؛ کہتے ہیں: آئیے! ہم ان کی حاکم نیشاپوری پر تطبیق کرتے ہیں؛ تاکہ ہم یہ دیکھ سکیں کہ یہ ان پر منطبق ہوتے ہیں یا نہیں!

    کہتے ہیں: پھر ہم نے ان کے ان مشائخ کو دیکھا جن سے انہوں نے علم اخذ کیا ہے؛ اور حاکم کے نزدیک جن کی کچھ اہمیت تھی؛ ہم نے انہیں اہل سنت کے بزرگوں میں سے پایا ہے بلکہ ان لوگوں میں سے پایا ہے جنہیں ابو الحسن اشعری والا عقیدہ رکھنے کی پاداش میں سولی پر چڑھا دیا گیا،جیسے "شیخ ابو بکر ابن اسحاق صبغی” اور "استاد ابو بکر” اور ان جیسے لوگ؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کی بحث میں یہ بیٹھا کرتے تھے اور اصول ادیان کے حوالے سے ان سے بات کرتے تھے ۔ لہٰذا اگر ان کے اساتذہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب کے سب اہل سنت کے چوٹی کے علما ہیں ،اشاعرہ میں سے ہیں۔

    پھر ہم نے ان کی تاریخ میں اہل سنت کے تراجم کا جائزہ لیا؛ جب وہ اہل سنت علما کا ترجمہ پیش کرتے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ وہ علمائے اہل سنت، ان کی روش اور ان کے عقائد کی تعریف کرتے ہیں۔

    اگر وہ شیعہ ہوتے تو مفروض یہ ہے کہ وہ ان علما کے عقائد پر طعن وتشنیع کرتے جن کا انہوں نے ترجمہ کیا ہے۔

    پھر کہتے ہیں : ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ان عظیم شخصیات کو ان کا حق دیتے ہیں ،ان کی تعریف کرتے ہیں ان کے ان مسلکی نظریات کے باوجود کہ ” وان شئت تجربة فلان وتجربة فلان ولا يظهر عليه شيء من الغمز على عقائدهم”اگر آپ چاہیں تو فلاں کے ترجمے کا جائزہ لے لیں یا فلاں کے ترجمے کا؛ ان(حاکم) پر ان علما کے عقائد کی وجہ سے ناراضگی کے آثار ظاہر نہیں ہوتے۔  میں نے استقرا کیا ہے؛ (کس نے؟! علی رضا بن عبد اللہ بن علی رضا نے) کہ کسی خاص عقیدے کے حامل مؤرخ کی کتاب اس عقیدے سے روگردانی کرنے والے پر نکتہ چینی سے خالی ہو تو مجھے کوئی ایسا مؤرخ نہیں ملا جس کا کوئی مخالف ہو اور اس نے اس پر تنقید نہ کی ہو۔

    پھر ہم نے حافظ ابو القاسم بن عساکر کو دیکھا ہے؛ انہوں نے ان کو ان اشعریوں کی فہرست میں ثبت کیا ہے جو اہل تشیع کو بدعتی کہتے ہیں اور ان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں؛ جب وہ حاکم نیشاپوری کا ترجمہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں: یہ بزرگ علمائے اشاعرہ میں سے ہیں؛ جو کہتے ہیں کہ شیعہ اہل بدعت میں سے ہیں؛ پس یہ کس طرح شیعہ ہو سکتے ہیں؛ پس ان کی طرف جو نسبت ہے؛ اس پر ہمیں شک ہو جاتا ہے۔

    لہٰذا جو کچھ اس شخص کے حق میں کہا گیا ہے، روشن ہو گیا کہ باطل ہے۔

    جہاں تک بنیادی سوال کا تعلق ہے؛

    میزبان: جناب سید! سوال سے پہلے؛ ایک ٹیلی فون کال موصول ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب کے محقق مدینہ منورہ کی وزارت معارف میں معلم ہیں؛

    سید: بہت ہی خوب، اللہ آپ کو جزائے خیر دے؛ لہٰذا اس شخص کا نام حقیقی ہے اور اس حوالے سے وہ شکوک بے جا ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہہ رہا ہوں؛ جب تک میں کسی بات پر مطمئن نہیں ہو جاتا، اس وقت تک میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا ، لہٰذا جب یہ اطلاع پہنچ چکی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ درست ہو گی؛ پس علی رضا بن عبد اللہ بن علی رضا حقیقی نام ہے۔

    سوال: حاکم نیشاپوری پر تشیع کی تہمت کیوں لگی؟

    اس کا سبب کیا ہے؟

    اس کا سبب تین امور میں سے ایک ہے؛ اور یہ ایک عمومی قاعدہ ہے ، وہ عزیزان جو کتب کی طرف مراجعہ کرتے ہیں ان قواعد کو استعمال کریں۔

    اولا: وہ علی (ع) کی ابوبکر و عمر پر فضیلت کے قائل تھے اگرچہ ان کے نزدیک ابوبکر و عمر کی خلافت مشروع تھی لیکن وہ کہتے تھے کہ علی (ع) ان سے افضل ہیں کیونکہ آپ(ع) کے فضائل ابوبکر سے زیادہ ہیں ۔ یہ تفضیل ان پر تشیع کی تہمت کا بنیادی سبب ہے۔اسی لیے آپ کوملتا ہے کہ بنیادی طور پر ذہبی یہ کہتا ہے کہ ہم ان کا رافضی ہونا قبول نہیں کرتے لیکن وہ شیعہ ہیں۔

    عزیزو! انہوں نے یہ بات کہاں ذکر کی ہے؟ ابن حجر عسقلانی متوفی 852ھ نے اپنی کتاب ” ھدی الساري مقدمة فتح الباري” تعلیق: عبد الرحمن بن ناصر البراک ، تحقیق : ابو قتیبہ ،جلد دوم؛ دار طیبۃ؛ صفحہ 1238 پر تشیع کی تعریف کر تے ہیں کہ تشیع علی (ع) کی محبت اور انہیں صحابہ پر مقدّم کرنے کو کہتے ہیں؛ جو شخص انہیں ابوبکر و عمر پر مقدّم کرتا ہو تو وہ تشیع میں غالی ہے۔ لہٰذا توجہ کیجئے؛ اگر آپ علی (ع) سے محبت کرتے ہیں تو آپ شیعہ ہیں اور اگر آپ انہیں مقدّم کرتے ہیں تو آپ غالی ہیں۔ یعنی کیا اموی خط علی (ع) سے محبت کرتا ہے یا نہیں وہ کہتے ہیں: اگر آپ نے علی (ع) سے محبت کی تو آپ شیعہ ہو جائیں گے ۔ پس وہ علی (ع) سے محبت نہیں کرتے تاکہ وہ اہل سنت میں باقی رہیں؛ یہی اموی مسلک ہے کہ انہوں نے آ کر تشیع کی یہ تفسیر پیش کی کہ محبت علی (ع) کا مطلب تشیع ہے؛ اگر انہیں صحابہ پر فضیلت دے گا تو وہ تشیع میں غلو کرے گا اور اس پر رافضی کا اطلاق ہو گا ۔اگر انہیں صحابہ پر مقدّم نہیں کرے گا تو وہ شیعہ ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ ان (حاکم) کے بارے میں کہتا ہے: وہ رافضی خبیث ہے یا شیعہ ہے؟

    لہٰذا معزز اور اہل مطالعہ ناظرین! ہمارے لیے یہ امر واضح ہو گیا کہ علمائے مسلمین کی کتابوں میں تشیع کی دو اصطلاحیں ہیں:

    پہلی اصطلاح اموی نہج کے مطابق ہے؛ جس نے بھی علی (ع) سے محبت کی اور انہیں صحابہ پر فضیلت دی تو وہ ان کے نزدیک شیعہ و خبیث ہے ۔ یہ اس تشیع کے خلاف ہے جو علمائے اہل سنت کے یہاں ہے؛ وہ کہتے ہیں: نہیں!، شیعہ وہ ہے جس کا اس بات پر ایمان ہو کہ خلافت علی (ع) کا حق ہے؛ اور وہ معصوم ہیں؛ اور ان پر نص موجود ہے۔

    لہٰذا میرے عزیزو! لفظ تشیع کا مطلب حفظ کر لو؛ اور وہ یہ کہ اگر آپ لفظ تشیع کسی اموی کی کتاب میں پائیں یا ان لوگوں کے یہاں دیکھیں جو اموی خط کے نہج پر ہیں یعنی ابن تیمیہ یا محمد ابن عبد الوہاب کے پیروکار؛ کہ جب وہ شیعہ کا اطلاق کرتا ہے تو اس کا مقصود یہ ہے کہ وہ علی (ع) سے محبت کرتا ہے یا انہیں صحابہ پر مقدّم کرتا ہے یا انہیں فلان پر مقدم کرتا ہے الی آخرہ۔۔۔۔۔

    لیکن دوسرے علمائے اہل سنت اور اشاعرہ جب کہتے ہیں: "شیعہ” تو ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ علی سے محبت کرتا ہے اور انہیں باقی صحابہ پر مقدّم کرتا ہے؛بلکہ ان کی مراد شیعہ سے یہ ہے کہ وہ علی (ع) کی عصمت کا عقیدہ رکھتا ہے؛ اور نظریہ نص پر یقین رکھتا ہے وغیرہ۔

    لہٰذا میرے عزیزو! حاکم نیشاپوری بیچارہ شیعہ قرار پایا؛ کیوں؟! کیونکہ وہ علی (ع) سے محبت رکھتا تھا اور انہیں صحابہ پر فضیلت دیتا تھا۔

    • تاریخ : 2017/06/24
    • صارفین کی تعداد : 1041

  • خصوصی ویڈیوز