اللہ جلّ شانہ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ انسان اس کی عبادت کرے ۔ قرآن مجید میں پڑھتے ہیں :
وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَلانسَ إِلَّا لِیعۡبُدُونِ (میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا سوائے اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں ) ( ذاریات / ٥٦ )
اس بنا پر قرآن مجید تاکید سے یہ بات بیان کر رہا ہے کہ انبیاء الٰہی و مرسلین کے اہم ترین اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کو خدائے وحدہ لاشریک کی عبادت کی دعوت دیں ۔
رب العالمین فرماتا ہے : وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِی كُلِّ امَّۃ رَّسُولًا انِ ٱعۡبُدُواْ ٱللَّہ وَ اجۡتَنِبُواْ ٱلطَّاغُوتَ(اوریقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو) ( نحل / ٣٦ )
مزید فرمایا : وَانَّ ٱللَّہ رَبِّی وَرَبُّكُمۡ فاعۡبُدُوہ ھذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیمٌ (اور اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے لہذا اس کی عبادت کرو اور یہی صراط مستقیم ہے) ( مریم / ٣٦ )
واضح ہے کہ ایسی عبادت صرف انسان کے تکامل کے لیے ہے چونکہ خدا تعالیٰ کی ذات میں کوئی نقص نہیں اور نہ ہی اسے اس بات کی حاجت ہے کہ وہ کسی کی عبادت کے ذریعے اپنی کمزوری کو دور کرے ۔ دوسرے لفظوں میں عبادت اس انسان کے تکامل کا ایک ذریعہ ہے جو عبادت کو انجام دیتا ہے ، یہ عبادات خدا تعالیٰ کے لیے کمال کے حصول کا ذریعہ نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں آیا ہے : وَقَالَ مُوسَیٰٓ ان تَكۡفُرُوٓاْ انتُمۡ وَمَن فِی الارۡضِ جَمِیعاً فَانَّ ٱللَّہ لَغَنِی حَمِیدٌ (اور روئے زمین کے تمام بسنے والے بھی کافر ہوجائیں تو ہمارا اللہ سب سے بے نیاز ہے اور وہ قابلِ حمد و ستائش ہے) ( ابراہیم / ٨ )
اس کے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں عبادت کو انسان کی خلقت کے آخری مقصد کے طور پر بیان نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک اہم درمیانی مقصد کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور بعض دوسرے مقاصد کو بھی اس کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے : یٰٓایہا ٱلنَّاسُ اعۡبُدُواْ رَبَّكُمُ الَّذِی خَلَقَكُمۡ وَالَّذِینَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (اے لوگو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے والوں کو بھی خلق کیاہے. شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار بن جاؤ)( بقرہ / ٢١)
اس آیت شریفہ میں تقویٰ کو ایسا مقصد اور ہدف بیان بتایا گیا ہے کہ جس کے لیے انسان کی تخلیق کی گئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تقویٰ انسان کے لیے مطلوبہ کمال ہے اورعبادت اس کمال کے حصول کے لیے راہ ہموار کرتی ہے ۔
فخر رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
عبادت ایسا عمل ہے کہ جس کے ذریعے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے کیونکہ پرہیزگاری کا مطلب نقصانات سے بچنا ہے اور عبادت وہ عمل ہے جسے انجام دینے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔ یعنی خود عبادت نقصان سے دوری نہیں ہے ۔ بلکہ عبادت نقصان سے دوری کا سبب ہے ۔ گویا خدا تعالیٰ فرما رہا ہے اپنے پروردگار کی عبادت کرو تاکہ اس وسیلے سے اس کے عذاب سے دور رہ سکو ۔ اگر یہ کہا جائے کہ عبادت ہی پرہیزگاری ہے تو یہ مجاز کے طور پر کہا جائے گا ۔ کیونکہ پرہیزگاری اور اس تک پہنچنے کے ذریعہ میں فرق ہے ۔ لیکن ان کے درمیان موجود گہرے رابطے کی وجہ سے انہیں ایک نام دیا گیا ہے ۔ ( فخر رازی ، تفسیر کبیر ، ج ٢ ، ص ١٠١ )
اس کے باوجود تقویٰ بھی انسان کا اصل مقصد نہیں ہوسکتا ۔ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد یہ بھی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ تقویٰ خدا تعالیٰ تک پہنچنے اور قرب خداوندی کے حصول کا ایک وسیلہ ہے ۔ اور جو چیز زاد راہ اور توشہ سفر ہے وہ خود مقصد نہیں ہوسکتی بلکہ یہ خود ایک وسیلہ ہے کسی دوسرے مقصد کے حصول کا۔اور وہ لقائے پروردگار ہے ۔
پروردگار عالم فرماتا ہے :
فَمَن كَانَ یرۡجُواْ لِقَآءَ رَبِّہ فَلۡیعۡمَلۡ عَمَلًا صالِحاً وَلَا یشۡرِكۡ بِعِبَادَۃ رَبِّہٓ احَدًا(لہذا جو بھی اس کی ملاقات کا امیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور کسی کو اپنے پروردگار کی عبادت میں شریک نہ بنائے)(کھف / ١١٠ )
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید ایسے افراد جو پروردگار سے ملاقات کا انکار کرتے ہیں ، کے اعمال کو بے سود ترین اعمال شمار کرتا ہے: قُلۡ ہلۡ نُنَبِّئُكُم بِالاخۡسَرِینَ اعۡمَالًا ١٠٣ ٱلَّذِینَ ضَلَّ سَعۡیہمۡ فِی ٱلۡحَیوٰۃ ٱلدُّنۡیا وَھمۡ یحۡسَبُونَ انَّہمۡ یحۡسِنُونَ صُنۡعًا ١٠٤ اوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِینَ كَفَرُواْ بآیاتِ رَبِّہمۡ وَلِقَآئِہ فَحَبِطَتۡ اعۡمَالُہمۡ فَلَا نُقِیمُ لَہمۡ یوۡمَ ٱلۡقِیامَۃ وَزۡناً ١٠٥ (پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں (103) یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں (104) یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ہے تو ان کے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے)( کھف / ۱۰۲ تا ١٠٥ )
اگر انسان پروردگار عالم سے ملاقات کرسکے جوکہ عبادت اور تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں ہے ، تو حقیقی کامیابی تک پہنچ گیا ہے ۔ و اتقوا اللہ لعلکم تفلحون (تقویٰ الٰہی اختیار کرو ، کہ تم کامیاب ہو جاؤ)( آل عمران / ٢٠٠ ) اس آیت شریفہ میں تقویٰ کا مقصد کامیابی تک پہنچنا قرار دیا گیا ہے ۔ قَدۡ افۡلَحَ مَن زَكَّیٰہا ٩ وَقَدۡ خَابَ مَن دَسَّیٰہا ١٠ (بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا (9) اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے (10) (شمس / ٩ ۔ ١٠)
قرآن مجید میں متعدد آیات میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی صفات بیان ہوئی ہیں جیسے نیک کاموں کے انجام دینے والے اور اُن کے نیک اعمال والے پلڑے کابھاری ہونا وغیرہ ۔
پروردگار عالم فرماتا ہے : والۡوَزۡنُ یوۡمَئِذٍالۡحَقُّ فَمَن ثَقُلَتۡ مَوَازِینُہ فَاوْلَٰٓئِكَ ھمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ (آج کے دن اعمال کا وزن ایک برحق شے ہے پھر جس کے نیک اعمال کا پّلہ بھاری ہوگا وہی لوگ نجات پانے والے ہیں)(اعراف/٨)
یہاں سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ کیوں خدا وندمتعال کے یہاں عزت و برتری کا اصل معیار تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے ۔ اسی طرح ایک اور آیت شریفہ میں یوں بیان ہوا : یٰٓایھا ٱلنَّاسُ انَّا خَلَقۡنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَ انثَیٰ وَجَعَلۡنَاكُمۡ شُعُوباً وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْ انَّ اكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّہ اتۡقَیٰكُمۡ إِنَّ ٱللَّہ عَلِیمٌ خَبِیرٌ(اے لوگو ! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر مختلف گروہوں اور قبیلوں میں قرار دیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ۔ بے شک خدا تعالیٰ کے ہاں تم میں سے زیادہ عزت و شرف والا اور برترین فرد وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ) ( حجرات / ١٣) کیونکہ صرف تقویٰ ہی وہ وسیلہ ہے جو انسان کو حقیقی سعادت اور قرب الٰہی کے جوار میں پاکیزہ زندگی تک پہنچا سکتا ہے ۔